"AIZ" (space) message & send to 7575

زندگی کی حقیقت

انسان کی زندگی میں مختلف لمحات آتے رہتے ہیں‘ کہیں خوشی ہے تو کہیں غم‘ کہیں شادی کی تقریبِ مسرت ہے تو کہیں جنازہ۔ حالیہ دنوں میں مجھے بہت سی ایسی تقریبات میں شرکت کا موقع ملا جن میں بہت سے دیرینہ دوستوں اور ساتھیوں سے ملاقات ہوئی۔ چند روز قبل دیرینہ دوست اور قریبی عزیز حافظ محسن جاوید نے رابطہ کیا اور کہا کہ آپ نے 10 جنوری کو دو چچا زاد بہنوں کی شادی کی تقریب میں شرکت کرنی ہے۔ ان کے سرپرستوں کا اس بات پہ شدت سے اصرار تھا کہ میں اس تقریب میں ضرور شریک ہوں۔ حافظ محسن جاوید کے اصرار کو دیکھ کر میں نے اس تقریب میں شرکت کی ہامی بھر لی۔ جب میں وہاں پہنچا تو برادرِ اکبر‘ دیرینہ اور مشفق دوست ڈاکٹر حماد لکھوی صاحب بھی وہاں موجود تھے۔ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ کئی مرتبہ بیرونِ ملک اسفار کا موقع میسر آیا اور بہت سی مجالس سے اکٹھے خطاب کرنے کا موقع بھی ملا۔ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ مختلف علمی موضوعات پہ تبادلۂ خیال کا موقع بھی ملتا رہتا ہے اور ان کی دعوت پر ہر سال رمضان المبارک میں جامع مسجد مبارک میں درس دینے کی سعادت بھی حاصل ہوتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ایک دلی وابستگی ہے؛ چنانچہ ان کو دیکھ کر طبیعت باغ باغ ہو گئی۔ان کے بڑے بھائی ڈاکٹر حمود لکھوی صاحب بھی وہاں موجود تھے‘ جو علمی ذوق رکھنے والی ایک بڑی شخصیت ہیں۔ کافی عرصے بعد ان کو دیکھ کر طبیعت پر خوشگوار اثرات مرتب ہوئے۔ باصلاحیت نوجوان اور میرے بھانجے ڈاکٹر سبیل اکرام بھی مجلس میں موجود تھے۔ ان سے بھی کافی دنوں کے بعد ملاقات ہو رہی تھی۔ ان تمام ساتھیوں اور دوستوں کے ساتھ کافی دیر تک مختلف امور پر تبادلۂ خیال ہوتا رہا اور یوں یہ تقریب اپنے جلو میں بہت سی خوشگوار یادوں کے لیے ہوئے اختتام پذیر ہوئی۔
11 جنوری کو دیرینہ دوست میاں منظور احمد کے بیٹے کا سیالکوٹ میں ولیمہ تھا۔ اس سے قبل ان کے بیٹے کی تقریب نکاح میں شرکت ہو چکی تھی۔ دعوتِ ولیمہ میں ملک کے کئی جید اور نمایاں عالم دین موجود تھے۔ رویت ہلال کمیٹی کے سابق چیئرمین مفتی منیب الرحمن صاحب اور مولانا محمد احمد لدھیانوی صاحب بھی وہاں تشریف فرما تھے۔مرکزی جمعیت اہل حدیث کے امیر پروفیسر سینیٹر ساجد میر صاحب‘ جامعہ سلفیہ کی نمایاں علمی شخصیت پروفیسر یاسین ظفر صاحب کے علاوہ برادر معتصم الٰہی ظہیر اور برادر ہشام الٰہی ظہیر بھی تقریب میں موجود تھے۔ اس تقریب میںماضی کی بہت سی یادوں کو تازہ کرنے کا موقع ملا اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال ہوا۔ ملکی سیاست اور مذہبی جماعتوں کے کردار کے حوالے سے بھی سیر حاصل گفتگو ہوتی رہی۔ تمام دوست احباب جہاں میاں منظور احمدکو ملنے والی خوشی پر مسرور تھے‘ وہیں یہ تقریب علما کرام اور دینی شخصیات کی باہمی ملاقات کے حوالے سے بھی ایک یادگار تقریب کی شکل اختیار کر گئی۔ مذہبی اور دینی ذوق رکھنے والے بہت سے لوگ اس تقریب کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اکابر علماء کے ساتھ گرم جوشی سے مل رہے تھے اور اس پر فرحت اور مسرت کا اظہار کر رہے تھے۔
12 جنوری کی دوپہر کو قریبی دوست انس شیروانی کی دعوت پر لاہور میں نکاح کی ایک تقریب میں شرکت کا موقع ملا جہاں کاروباری حلقوں سے وابستہ بہت سی اہم شخصیات شریک تھیں۔ ان شخصیات سے ملک کی اقتصادی صورتحال اور معاشی مستقبل پر تبادلہ خیال کا موقع ملا۔ شادی بیاہ کی یہ تقریبات جہاں دل ودماغ پر گہرے اور خوشگوار اثرات چھوڑ رہی تھیں وہیں پر انہی ایام میں بہت سے دکھوں سے بھی گزرنا پڑا۔
پاکستان مرکزی مسلم لیگ کے مرکزی رہنما حافظ عبدالرحمن مکی کے ساتھ ایک دیرینہ تعلق تھا۔ بہت سے جلسوں میں ان کی ہمراہ آنے جانے کا موقع میسر آتا رہا۔ مرکز قرآن وسنہ میں حافظ عبد الرحمن مکی گاہے گاہے تشریف لاتے رہتے تھے۔ ان کے انتقال کی خبر سننے کے بعد دل ودماغ بوجھل ہو گئے۔ ان کی وفات ایک بہت بڑا صدمہ تھا اور 27 دسمبر کو ان کے جنازے میں شرکت کر کے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ زمین سکڑ گئی ہے یا پہاڑ زمین سے سرک گئے ہیں۔ علم‘ استدلال‘ حکمت اور خطابت کے اس سمندر کا انتقال یقینا جہاں معاشرے کے لیے بہت بڑے المیے کی خبر ہے‘ وہیں ان کے اعزہ واقارب اور دوست احباب کے لیے بھی یہ خبر دکھ اور کرب کا سبب تھی‘ اس لیے کہ وہ ایک عظیم اور ملنسار دوست سے محروم ہو چکے ہیں۔ اسی روز گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے حدیث کے ایک عظیم استاد عطاء اللہ ساجد صاحب بھی اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔ ان کی رحلت کو بھی اہلِ علم نے بڑی شدت کے ساتھ محسوس کیا۔ ان سے پیشتر حدیث کے عظیم استاد مولانا عبدالعزیز علوی صاحب بھی اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے اور اسی روز کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک عظیم عالم دین مولانا عبدالعزیز بھی انتقال کر گئے۔ یقینا یہ تمام خبریں انتہائی دکھ اور تکلیف کا باعث تھیں اور ان خبروں کو سن کر یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے علم کے چشمے سوکھ رہے ہیں اور بصیرت اور حکمت کی چٹانیں زمین بوس ہو رہی ہیں۔ ان سارے صدمات سے یوں محسوس ہو رہا تھا گویا زندگی سے خوشیاں ختم ہو چکی ہیں۔ علما کی رحلت کے حوالے سے نبی کریمﷺ کی یہ حدیث بار بار ذہن میں آ رہی تھی۔ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپﷺ فرمایا کرتے تھے کہ اللہ علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ اس کو بندوں سے چھین لے بلکہ وہ (پختہ کار) علما کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا۔ حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا پیشوا بنا لیں گے۔ پھر ان سے سوالات کیے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے۔ اس لیے خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔
خوشی کی تقریبات میں شرکت کے دوران خوشی اور مسرت کی کیفیت پیدا ہوتی ہے جبکہ جنازوں‘ اموات اور بیماریوں کو دیکھ کر دکھ اور کرب کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ درحقیقت اس میں انسان کے لیے عبرت اور سبق کا ایک پہلو ہے۔ عبرت کا پہلو یہ ہے کہ انسان کو جلد یا بدیر‘ اس دارِ فانی سے کوچ کرنا پڑے گا۔ خوشیوں کی تقریبات میں شرکت کے دوران انسان کو اپنے انجام کو فراموش نہیں کرنا چاہیے اور اکابرین اور اعزہ کی اموات پر اپنی سوچوں کو مزید پختہ کرنا چاہیے کہ جلد یا بدیر ہمارے بھی جنازوں کو اٹھایا جائے گا اور ہمیں اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں پیش ہو کر اپنے اعمال کا جواب دینا ہو گا۔ ایسے عالم میں جس شخص نے دنیا ہی کی زندگی کو حرفِ آخر بنا لیا‘ وہ ناکام ونامراد ہو جائے گا۔ سورۃ النازعات کی آیات: 37 تا 39 میں اللہ تبارک وتعالیٰ اس حقیقت کو کچھ یوں بیان فرماتے ہیں ''تو جس (شخص) نے سرکشی کی (ہو گی)۔ اور دنیوی زندگی کو ترجیح دی (ہو گی)۔ تو بیشک اس کا ٹھکانا جہنم ہی ہے‘‘۔ اس کے مدمقابل اللہ تبارک وتعالیٰ کے سامنے پیشی کے احساس کے سبب اپنی خواہشات کو دبانے والے لوگ کامیاب وکامران ہو جائیں گے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ النازعات کی آیات: 40 تا 41 میں اس حقیقت کو یوں بیان فرماتے ہیں ''ہاں! جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتا رہا ہو گا اور اس نے اپنے نفس کو خواہشات کی پیروی سے روکا ہو گا۔ تو بیشک اس کا ٹھکانا جنت ہی ہے‘‘۔
چنانچہ ہمیں اس دنیا میں رہتے ہوئے نہ خوشی کے موقع پر اللہ تبارک وتعالیٰ کو بھولنا چاہیے اور نہ ہی غم کے موقع پراس غم کو فقط دوسروں کا مقدر سمجھ کر اللہ کے خوف سے بے نیاز ہونا چاہیے۔ جو انسان دکھ اور سکھ‘ خوشی اور غمی میں اللہ تبارک وتعالیٰ کو یاد رکھ کر اس کی اطاعت گزاری کے راستے کو اختیار کرتا ہے‘ یقینا کامیابی اس کا مقدر بنے گی ان شاء اللہ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں زندگی کی حقیقت کو سمجھتے ہوئے اپنی موت کے بعد کی زندگی کے حوالے سے تیاری کرنے کی توفیق دے‘ آمین!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں