ایبٹ آباد صوبہ خیبر پختونخوا کی ہزارہ ڈویژن کا ایک اہم شہر ہے۔ اس کی اپنے کنٹونمنٹ کے حوالے سے خصوصی شہرت ہے اور شہر کی آبادی کا ایک بڑا حصہ کنٹونمنٹ میں آباد ہے۔ ایبٹ آباد میں بڑی تعداد میں کاروباری مراکز ہیں۔ یہاں کی سڑکیں کشادہ اور مناظر خوبصورت ہیں۔ ایبٹ آباد کا موسم معتدل ہے اور گرمیوں میں بھی زیادہ سخت موسم نہیں ہوتا۔ یہاں کے رہنے والے لوگ بھی ملک کے دیگرعلاقوں کی طرح دین سے محبت کرنے والے ہیں۔ وقفے وقفے سے شہر میں دینی پروگراموں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ 22 مئی کو ایبٹ آباد میں اہل سنت والجماعت کے زیر اہتمام بیداریٔ امت واستحکام پاکستان کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ اس کانفرنس میں مولانا محمد احمد لدھیانوی اور مولا اورنگزیب فاروقی کے علاوہ مختلف مکاتب فکر کے جید علما نے شرکت کی۔ مرکزی مسلم لیگ کے رہنما قاری محمد یعقوب شیخ‘ جو ہمارے درینہ دوستوں میں شامل ہیں‘ وہ بھی اس کانفرنس میں مدعو تھے۔ ایبٹ آباد کے بہت سے مقامی رہنمائوں اور علما کو بھی اس کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ جب قرآن وسنہ موومنٹ کے دوست احباب کو اس بات کا علم ہوا کہ میں بھی اس کانفرنس میں شرکت کے لیے ایبٹ آباد آ رہا ہوں تو انہوں نے کانفرنس سے ایک روز قبل‘21 مئی کو قرآن وسنہ موومنٹ کے تنظیمی اجلاس اور نمازِ مغرب کے بعد جامع مسجد امام بخاری میں ایک سیرت پروگرام کا انعقاد کر لیا جس کے لیے مجھے خطاب کی دعوت دی گئی۔
21 تاریخ کو میں ایبٹ آباد پہنچا۔ عصر کے بعد ہونے والے تنظیمی اجلاس میں دوست احباب نے بڑے ذوق وشوق سے شرکت کی۔ مغرب کی نماز کے بعد میں نے ناظرین و سامعین کے سامنے نبی کریمﷺ کی ذاتِ اقدس کے ساتھ مسلمانوں کی نسبت اور اس حوالے سے جو ذمہ داریاں امت پر عائد ہوتی ہیں‘ ان کا تذکرہ کیا اور یہ بات بتلائی کہ یہ مسلمانوں کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ نبی کریمﷺ کی عظمت کے بارے میں یہ نقطۂ نظر رکھیں کہ دنیا میں جتنی بھی ہستیاں پیدا ہوئیں ان سب میں سے نبی کریمﷺ کی ذاتِ اقدس سب سے بلند ہے۔ نبی کریمﷺ کے حوالے سے ہم پر یہ بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہمیں آپﷺ سے ہر دوسرے شخص کے مقابلے میں زیادہ محبت ہونی چاہیے۔ جب ہم نبی کریمﷺ سے اپنی جان‘ مال‘ اعزہ واقارب‘ کاروبار اور گھر بار سے بڑھ کر محبت کریں گے تبھی ہم اپنے آپ کو حقیقی معنوں میں آپﷺ کا محب اور سچا مسلمان کہہ سکتے ہیں۔ نبی کریمﷺ کی ذاتِ اقدس کے حوالے سے ہماری یہ بھی ذمہ داری ہے کہ ہم آپﷺ کی غیر مشروط اتباع کریں۔ آپﷺ کے اسوہ کواللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں اسوۂ حسنہ قرار دیا ہے۔ آپﷺ کی اتباع کرنے والے لوگ ہی اللہ تعالی کی محبتوں کے حقدار ہیں اور جس نے آپﷺ کی اطاعت کی درحقیقت اس نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی اطاعت کی۔ نبی کریمﷺ کا ہم پر یہ بھی حق ہے کہ ہم آپﷺ کی ذاتِ اقدس پر کثرت سے درود بھیجیں۔ جو آپﷺ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے‘ اللہ تبارک وتعالیٰ اس پر دس مرتبہ درود بھیجتے ہیں‘ اس کے گناہوں کو معاف فرماتے اور درجات کو بلند کرتے ہیں۔ ہم پر یہ بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم آپﷺ کی حرمت کا دفاع کریں۔ جو نبی پاک حضرت محمد کریمﷺ کی ناموس اور حرمت کی پاسداری کرتا ہے‘ ایسا شخص حقیقی معنوں میں آپﷺ کے محبین میں شامل ہے۔ اسی طرح ہم پر یہ بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم آپﷺ کے عطا کردہ نظام کو ملک میں نافذ کرنے کی کوشش کریں۔ اگر ہم آپﷺ کے دیے گئے نظام کو ملک میں قائم کرنے کی کوشش کریں گے تو اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے یہ ملک امن وسکون کا گہوارہ بن جائے گا۔
اگلے روز دوپہر تین بجے بیداریٔ امت واستحکام پاکستان کانفرنس کا آغاز ہوا۔ ختم نبوت چوک میں منعقدہ اس کانفرنس میں لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اس موقع پر خطبا نے بڑے ولولہ انگیز اور پُرجوش خطاب کیے۔ مولانا حامد الحق کے فرزند مولانا عبدالحق ثانی اور قاری یعقوب شیخ نے عوام کے جم غفیر کو اپنے پُرجوش اور ولولہ انگیزخطاب سے گرما دیا۔ مجھے بھی اپنی گزارشات کو سامعین کے سامنے رکھنے کا موقع ملا‘ جن کا خلاصہ درج ذیل ہے:نبی کریمﷺ کے امتی‘ صحابہ کرام اور اہل بیت اطہار رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ محبت کرنے والے لوگ جہاں دین اور شعائر دینیہ کے دفاع کے لیے بے تاب رہتے ہیں وہیں مملکت کے دفاع کے لیے بھی ہر آن بیتاب ہیں۔ مسلمانوں کی تاریخ بہادری اور جرأت کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ نبی کریمﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں ہونے والے غزوات میں مسلمانوں نے پوری دلجمعی اور استقامت کے ساتھ اعدائے دین کا مقابلہ کیا۔ بدر‘ خندق‘ خیبر اور تبوک کے معرکے مسلمانوں کی جرأت‘ بہادری‘ اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات پر توکل اور نبی کریمﷺ کی محبت کے اظہار کا شاندار نمونہ ہیں۔ نبی کریمﷺ کی رحلت کے بعد بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کفار کے ساتھ برسر پیکار رہے۔ حضرت فاروق اعظمؓ کے زمانے میں قیصر و کسریٰ کی ہیبت مٹ گئی۔ مصر اور دُور دراز کے ممالک میں اسلام کا جھنڈا لہرا دیا گیا۔ بعد ازاں بھی یہ سلسلہ جاری وساری رہا۔
اگر ہم برصغیر کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو محمد بن قاسم‘ محمود غزنوی اور سلاطین دہلی نے پورے برصغیر میں مملکت کے دفاع اور استحکام کے لیے بھرپور جرأت اور بہادری کا مظاہرہ کیا۔ انگریز کی آمد کے بعد بھی مسلمان پوری استقامت کے ساتھ سامراجیت کے خلاف برسر پیکار رہے۔ سراج الدولہ اور سلطان ٹیپو شہید نے مملکت کے دفاع کے لیے بے مثال قربانیاں دیں۔ تقسیم ہند کے بعد بھارت اور پاکستان کے مابین بہت سے مواقع پر تنائو پیدا ہوا۔ اس تنائو میں اکثر وبیشتر بھارت کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ قیامِ وطن کے بعد کشمیر سیکٹر پر بھارت نادم ہوا۔ 1965ء کے معرکے میں پاکستان نے اپنے جغرافیے کابھرپور دفاع کیا۔ 1971ء میں لسانی تقسیم اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے پاکستان کو نقصانات کا سامنا کرنا پڑا لیکن بعد ازاں پاکستان نے اپنے دفاع پر خصوصی توجہ دی اور بتدریج اس کا دفاع ناقابلِ تسخیر ہوتا چلا گیا۔ 1998ء میں بھارت کی طرف سے پوکھران میں کیے جانے والے ایٹمی دھماکوں کا جواب پاکستان نے چاغی میں ایٹمی دھماکے کر کے دیا۔ 2019ء میں بھی پاکستان کی سالمیت کو خطرہ لاحق ہوا لیکن پاکستان نے بھرپور انداز سے اپنی سرحدوں کا دفاع کیا۔ اب 2025ء میں ایک مرتبہ پھر بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی دہشت گردی کو پاکستان سے منسوب کرنے کی کوشش کی اور پاکستان کی مساجد اور مدارس کو باقاعدہ طور پر حملوں کا نشانہ بنایا۔ معصوم اور نہتے شہری بھارت کی جارحیت کا نشانہ بنے لیکن پاکستان کی بہادر افواج نے قوم کی تائید کے ساتھ بھرپور انداز سے پاکستان کا دفاع کیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے پاکستان کے دفاعی اداروں نے آپریشن '' بنیانٌ مَّرصُوص‘‘ کے ذریعے بھارت کے غرور کو خاک میں ملا کے رکھ دیا۔ اس حوالے سے پاکستان کی مذہبی جماعتوں نے نمایاں کردار ادا کیا اور آئندہ بھی اگر کبھی پاکستان کے دفاع ہو خطرات لاحق ہوئے تو پاکستان کی مذہبی جماعتیں دفاعِ وطن کے لیے نمایاں اور کلیدی کردار ادا کریں گی۔
میرے بعد مولانا اورنگزیب فاروقی اور مولانا محمد احمد لدھیانوی نے دفاع وطن کے عنوان پر خطاب کیا۔ سامعین نے بڑی توجہ کے ساتھ مقررین کے خطابات کو سنا اور دفاع وطن کے لیے بھرپور انداز میں یکجہتی کا اظہار کیا گیا۔ ایبٹ آباد کے جلسے سے خطاب کے بعد قرآن وسنہ موومنٹ اور اہل سنت والجماعت کے دوست احباب نے بڑے پُرتپاک انداز سے الوداع کیا اور یوں دورۂ ایبٹ آباد اپنے جلو میں بہت سی خوبصورت یادوں کو لیے اختتام پذیر ہوا۔