"AIZ" (space) message & send to 7575

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ

ذوالحج کا دوسرا عشرہ ایک ایسی عظیم شخصیت کی یاد دلاتا ہے جس نے اپنے کردار وعمل سے تاریخ کے اوراق پر ایسے نقوش ثبت کیے جو قیامت کی صبح تک کیلئے ایک مثال کی حیثیت رکھتے ہیں۔ خلیفۂ راشد سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ شرم وحیا اور جود وسخا کے اعتبار سے غیر معمولی حیثیت کے حامل تھے اور آپؓ نے جس انداز سے اسلام کی خدمت کی‘ وہ تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ حضرت عثمان غنیؓ اُن سابقون الاولون صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں شامل ہیں جنہوں نے اسلام کی دعوت کو سننے کے بعد بلاجھجھک اسلام قبول کر لیا اور اس کے بعد مسلسل دین پر عمل پیرا رہے اور اس کی خدمت کیلئے وقف رہے۔ آپؓ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ اعزاز بھی عطا فرمایا کہ آپؓ نے اللہ تعالیٰ کے دین کیلئے دو دفعہ ہجرت کی۔ ایک ہجرت آپؓ نے مکہ سے حبشہ کی طرف کی اور دوسری ہجرت آپؓ نے حبشہ سے مدینہ منورہ کی طرف کی۔ آپؓ کے اعزاز میں یہ بات بھی شامل ہے کہ آپ کے عقد میں نبی کریمﷺ کی دو صاحبزادیاں آئیں‘ جس کی وجہ سے آپؓ کو ذوالنورین بھی کہا جاتا ہے۔ حضرت عثمان غنیؓ نے ہمیشہ نبی کریمﷺ کی اتباع اور خدمت میں پیش قدمی کی جس کی وجہ سے رسول کریمﷺ نے آپؓ کو متعدد مرتبہ جنت کی بشارت دی۔ اس حوالے سے چند اہم احادیث درج ذیل ہیں:
صحیح بخاری میں حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ ایک باغ (بئر اریس) کے اندر تشریف لے گئے اور مجھ سے فرمایا کہ میں دروازے پر پہرہ دیتا رہوں۔ پھر ایک صاحب آئے اور اندر آنے کی اجازت چاہی۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ انہیں اجازت دے دو اور جنت کی خوشخبری بھی سنا دو۔ وہ ابوبکر صدیقؓ تھے۔ پھر ایک اور صاحب آئے اور اجازت چاہی۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ انہیں بھی اجازت دے دو اور جنت کی خوشخبری سنا دو۔ وہ عمر فاروقؓ تھے۔ پھر ایک اور صاحب آئے اور اجازت چاہی۔ نبی کریمﷺ تھوڑی دیر کیلئے خاموش ہو گئے پھر فرمایا کہ انہیں بھی اجازت دے دو اور (دنیا میں) ایک آزمائش سے گزرنے کے بعد جنت کی بشارت سنا دو۔ وہ عثمان غنیؓ تھے۔
صحیح بخاری میں حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ جب احد پہاڑ پر چڑھے اور آپﷺ کے ساتھ ابوبکر‘ عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم بھی تھے تو احد پہاڑ لرزنے لگا۔ آپﷺ نے اس پر فرمایا: احد ٹھہر جا۔ (راوی کہتے ہیں کہ) میرا خیال ہے کہ حضورﷺ نے اسے اپنے پائوں سے مارا بھی تھا اور فرمایا: تجھ پر ایک نبی‘ ایک صدیق اور دو شہید کھڑے ہیں۔
سنن ابو دائود میں حدیث ہے کہ حضرت سعید بن زیدؓ کھڑے ہوئے اور کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے‘ آپﷺ فرماتے تھے: ''دس اشخاص جنتی ہیں۔ نبی کریمﷺ جنت میں ہیں۔ ابوبکرؓ جنت میں ہیں۔ عمرؓ جنت میں ہیں۔ عثمانؓ جنت میں ہیں۔ علیؓ جنت میں ہیں۔ طلحہؓ جنت میں ہیں۔ زبیرؓ بن عوام جنت میں ہیں۔ سعدؓ بن مالک جنت میں ہیں اور عبدالرحمنؓ بن عوف جنت میں ہیں‘‘۔ اگر میں چاہوں تو دسویں کا نام بھی لے سکتا ہوں۔ لوگوں نے پوچھا: وہ کون ہے؟ تو وہ خاموش ہو رہے۔ لوگوں نے پوچھا: وہ کون ہے؟ تو انہوں نے کہا: وہ ہے سعید بن زید (یعنی وہ خود)۔
حضرت عثمان غنیؓ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے مال ومتاع کی نعمت سے خوب نواز رکھا تھا اور آپؓ نے ہمیشہ اپنے مال کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین اور اہلِ اسلام کی خدمت کیلئے وقف کیے رکھا۔ مسلمانوں کو جب پانی پینے کی ضرورت تھی تو آپؓ نے اپنے سرمائے کے ذریعے بئرِ رُومہ کا کنواں خرید کر مسلمانوں کیلئے وقف کر دیا۔ اسی طرح مسجد نبوی کی توسیع میں بھی آپؓ نے نمایاں کردار ادا کیا۔ آپؓ نے غزوہِ تبوک کے موقع پر مسلمانوں کے لشکر کی اپنے مال کے ذریعے بھرپور معاونت کی۔ حضرت عثمان غنیؓ اپنی ان خدمات جلیلہ کی بنیاد پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی نگاہوں میں انتہائی معتبر اور معزز تھے۔ احادیث مبارکہ میں آپؓ کے مقام کو بڑے احسن طریقے سے واضح کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ کے زمانے ہی میں جب ہمیں صحابہ کرام کے درمیان انتخاب کیلئے کہا جاتا تو سب میں افضل اور بہتر ہم ابوبکر کو قرار دیتے‘ پھر عمر بن خطاب کو اور پھر عثمان بن عفان کو‘ رضی اللہ عنہم۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے جہاں نبی کریمﷺ کی حیات مبارکہ میں سیدنا عثمان غنیؓ کو دین کی خدمت کے شرف سے بہرہ ور کیا وہیں حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما کے دور میں بھی دین کی خدمت کیلئے آپؓ وقف رہے۔ آپؓ نے دین کی خدمت کیساتھ ساتھ نبی کریمﷺ کے اہلِ خانہ اور آپﷺ کی ازواجِ مطہرات کی خبری گیری کو بھی جاری رکھا۔ صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ حضرت عمرؓ نے اپنے آخری حج کے موقع پر نبی کریمﷺ کی ازدواج کو حج کیلئے بھیجا تھا اور ان کے ساتھ عثمان بن عفان اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما کو بھیجا تھا۔
حضرات صدیقؓ و فاروقؓ کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپؓ کو مسندِ خلافت عطا فرمائی۔ حضرت عثمان غنیؓ کے دورِ خلافت میں مملکت اسلامیہ کے رقبے میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ آپؓ کا ایک دینی کارنامہ یہ ہے کہ آپؓ نے مسلمانوں کو ایک مصحف پر جمع فرمایا۔ اپنی خلافت کے دور میں بھی آپؓ اہلِ اسلام کی خدمت کیلئے پوری طرح وقف رہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جہاں آپؓ کو بہترین زندگی عطا فرمائی وہیں آپؓ کو شہادت کے منصب جلیلہ پر بھی سرفراز فرمایا اور نبی پاک حضرت محمد کریمﷺ کے شہر مبارک میں آپؓ ایک شہید کی حیثیت سے دنیا سے رخصت ہوئے۔ آپؓ کی کسر نفسی اور عاجزی کا عالم یہ ہے کہ جب باغیوں نے آپؓ کا محاصرہ کیا اور آپ کو نماز کی امامت سے روک دیا گیا تو آپ سے پوچھا گیا کہ کیا باغیوں کی امامت میں نماز ادا کرنا جائز ہے؟ اس پر آپؓ نے مسلمانوں کو باغیوں کی اقتدا میں نماز ادا کرنے کی اجازت دی۔ اس حوالے سے صحیح بخاری میں عبیداللہؓ بن عدی بن خیار سے روایت ہے کہ وہ خود حضرت عثمان غنیؓ کے پاس گئے‘ جبکہ باغیوں نے ان کے گھر کو گھیر رکھا تھا۔ انہوں نے کہا کہ آپ ہی مسلمانوں کے امام ہیں مگر آپ پر جو مصیبت ہے وہ آپ کو معلوم ہے۔ ان حالات میں باغیوں کا مقررہ امام نماز پڑھا رہا ہے۔ ہم ڈرتے ہیں کہ اس کے پیچھے نماز پڑھ کر گنہگار نہ ہو جائیں۔ حضرت عثمانؓ نے جواب دیا: لوگ جو کام کرتے ہیں نماز ان کاموں میں سب سے بہترین کام ہے‘ تو وہ جب اچھا کام کریں تم بھی ان کے ساتھ مل کر اچھا کام کرو اور جب وہ برا کام کریں تو تم ان کی برائی سے الگ رہو۔ حضرت عثمان غنیؓ کی شخصیت اور شہادت کی عظمت اس انداز سے واضح ہوتی ہے کہ جب آپ کو شہید کیا گیا‘ آپؓ اس وقت بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کے کلام کی تلاوت میں مصروف تھے۔
حضرت عثمان غنیؓ اپنی شرم وحیا‘ اپنی سخاوت وفیاضی اور اپنی بے پناہ خدمات کی وجہ سے اہلِ اسلام کے دلوں کی دھڑکن اور آنکھوں کے تارے ہیں۔ مسلمان ہمیشہ آپؓ کی خدماتِ جلیلہ اور سیرت کے سنہرے اور اجلے نقوش سے استفادہ کرتے رہیں گے اور بحیثیت حکمران آپ نے جس ایثار کا مظاہرہ کیا وہ تاریخ کا ایک روشن باب رہے گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو سیرتِ عثمان غنیؓ سے رہنمائی حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے‘ آمین!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں