"AIZ" (space) message & send to 7575

معاشی استحکام

موجودہ دور میں کسی بھی قوم کی ترقی واستحکام کا اس کی معیشت سے بہت گہرا تعلق ہے۔ جن ممالک کی معیشت مضبوط ہے‘ وہ دنیا میں کامیاب سمجھے جاتے اور ان کے سیاسی فیصلوں کو بھی دنیا میں زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ تمام ممالک معاشی طور پر مضبوط ممالک کے ساتھ تعلق رکھنا پسند کرتے ہیں۔ اس کے برعکس جن ممالک کی معیشت کمزور ہے انہیں دنیا میں کم اہمیت دی جاتی ہے اور ان کے سیاسی بیانیے پر بھی توجہ نہیں دی جاتی۔ ہمارا ملک پاکستان ایک عرصے سے معاشی بحرانوں کا شکار ہے‘ ان بحرانوں سے باہر نکلنے کے لیے بعض اہم تدابیر پر عمل کرنا انتہائی ضروری ہے‘ جو درج ذیل ہیں:
1۔ کتاب و سنت اور قانون کی عملداری: ہمارے ملک کو کتاب وسنت کی عملداری کے لیے قائم کیا گیا تھا لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ملک میں بہت سے ایسے معاملات جاری ہیں جو اسلام کی روح اور تعلیمات سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ملک میں بااثر لوگ قانون کی گرفت سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جبکہ اس کے مقابل کمزور لوگوں کو ان کے چھوٹے جرائم پر بھی سخت سزا ملتی ہے۔ یہ بات کسی بھی طور پر درست نہیں ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ النحل کی آیت: 90 میں ارشاد فرمایا: ''بیشک اللہ انصاف کرنے کا اور بھلائی کرنے کا اور رشتہ داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی اور بری بات اور ظلم سے منع کرتا ہے‘ (وہ) تمہیں سمجھاتا ہے تاکہ تم سمجھو‘‘۔
نبی کریمﷺ نے بھی ہمیشہ انصاف اور عدل کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ اس حوالے سے صحیح بخاری میں حضرت عروہؓ بن زبیر سے روایت ہے کہ ''غزوہ فتح (مکہ) کے موقع پر ایک عورت نے چوری کر لی تھی۔ اس عورت کی قوم گھبرائی ہوئی اسامہؓ بن زید کے پاس آئی تاکہ وہ حضورﷺ سے اس کی سفارش کر دیں (کہ اس کا ہاتھ چوری کے جرم میں نہ کاٹا جائے)۔ عروہ نے بیان کیا کہ جب اسامہؓ نے اس کے بارے میں آنحضورﷺ سے گفتگو کی تو آپﷺ کے چہرے مبارک کا رنگ بدل گیا اور آپﷺ نے فرمایا: تم مجھ سے اللہ کی قائم کردہ ایک حد کے بارے میں سفارش کرنے آئے ہو؟ اسامہؓ نے عرض کیا: میرے لیے دعائے مغفرت کیجئے یا رسول اللہﷺ! پھر دوپہر کے بعد آنحضرتﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو خطاب کیا۔ اللہ تعالیٰ کی اس کے شان کے مطابق حمد کرنے کے بعد فرمایا: امابعد! تم میں سے پہلے لوگ اس لیے ہلاک ہو گئے کہ اگر ان میں سے کوئی معزز شخص چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے لیکن اگر کوئی کمزور چوری کر لیتا تو اس پر حد قائم کرتے اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے۔ اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کر لے تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹوں گا۔ اس کے بعد حضورﷺ نے اس عورت کے لیے (حد جاری کرنے کا) حکم دیا اور اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔
عدل و انصاف کے قیام کے حوالے سے اس بات کو مدمنظر رکھنا ضروری ہے کہ ملک کے خزانے میں کوئی بھی شخص اگر تصرف کرتا ہے تو اس کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے اور اس کے اثر ورسوخ کی وجہ سے اس کی سزا میں تخفیف نہیں ہونی چاہیے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سے بااثر لوگ بڑے پیمانے پر کرپشن کرنے کے باوجود سزا سے بچ نکلتے ہیں جس کی وجہ سے کرپشن کرنے والے دیگر عناصر کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ بعض اداروں میں ایماندار افسران کی اس حد تک حوصلہ شکنی کی جاتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو بددیانت لوگوں کے درمیان اجنبی محسوس کرتے ہیں۔
2۔ سود کا خاتمہ: ملک میں ایک اور مسئلہ جو ملکی معیشت کو بری طرح نقصان پہنچا رہا ہے وہ سودی نظام کا جاری رہنا ہے۔ پاکستان کی معیشت کو چلانے کے لیے بین الاقوامی اداروں‘ بینکوں اور ملکوں سے جو قرضے لیے جاتے ہیں‘ ہمارے سالانہ بجٹ کا ایک بڑا حصہ ان قرضوں کے سود کی قسطیں اتارنے میں صرف ہو جاتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلام حمید میںسود کی بڑے شدید انداز میں مذمت کی ہے۔ سورۃ البقرہ کی آیات: 278 تا 280 میں ارشاد ہوا: ''اے ایمان والو! ڈرو اللہ سے‘ اور چھوڑ دو جو باقی رہ گیا ہے سود (لوگوں کے ذمہ) اگر ہو تم ایمان والے۔ پھر اگر تم نے ایسا نہ کیا تو تیار ہو جائو لڑنے کے لیے اللہ اور اس کے رسول سے۔ اور اگر تم توبہ کر لو (اور سود چھوڑ دو) تو تم حقدار ہو اصل سرمائے کے‘ نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے اور اگر وہ (قرض دار) تنگ دست ہے تو اسے خوشحال ہونے تک مہلت دینی چاہیے‘ اور بخش دو تو تمہارے لیے بہت ہی بہتر ہے‘ اگر تم جانتے ہو‘‘۔
3۔ ناشکری: ہمارے معاشرے میں سرکاری اور عوامی سطح پر ناشکری بہت زیادہ پائی جاتی ہے۔ ناشکری کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی بہت سی نعمتیں ضائع ہو جاتی ہیں۔ اس حوالے سے سورۃ النحل میں اللہ تعالیٰ نے ایک بستی کا ذکر کیا جس کو ملنے والی نعمتیں ناشکری کی وجہ سے چھن گئی تھیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ النحل کی آیت: 112 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور اللہ ایک ایسی بستی کی مثال بیان فرماتا ہے جہاں ہر طرح کا امن چین تھا‘ اس کی روزی بافراغت ہر جگہ سے چلی آتی تھی‘ پھر (اس بستی کے لوگوں نے) اللہ کے احسانوں کی ناشکری کی‘ پھر اللہ نے ان کے برے کاموں کے سبب سے‘ جو وہ کیا کرتے تھے‘ یہ مزہ چکھایا کہ ان پر فاقہ اور خوف چھا گیا‘‘۔
4۔ تعیشات کی روک تھام: ہمارے ملک میں ہر سال بجٹ پیش کیا جاتا ہے جس میں ہم دیکھتے آ رہے ہیں کہ ہمیشہ ارکانِ اسمبلی‘ وزرا اور سرکاری اہلکاروں کی تنخواہیں بڑھا دی جاتی ہیں۔ اسلام نے ہمیشہ سادگی اختیار کرنے کا حکم دیا ہے اور اسراف اور تبذیر سے منع کیا گیا ہے۔ ہماری معیشت کے معاملات بگڑنے کی بہت بڑی وجہ اسراف اور تبذیر ہے۔ ہم اپنی چادر دیکھ کر اپنے پائوں نہ پھیلانے کی وجہ سے اضافی اخراجات کرتے ہیں جس کی وجہ سے ملک کی معیشت دبائو کا شکار ہو جاتی ہے۔
5۔ توبہ واستغفار: پاکستانی قوم میں انفرادی اور اجتماعی سطح پر بہت سے مفاسد‘ منکرات‘ فواحش اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں پائی جاتی ہیں۔ ان نافرمانیوں کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ انسانوں پہ گرفت فرماتے ہیں۔ اگر ہم اجتماعی توبہ اور استغفار سے کام لیں تو یقینا اس کے نتیجے میں ہمیں بہت زیادہ آسودگی حاصل ہو سکتی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کے متعدد مقامات پر توبہ کی تلقین کی ہے اور سورۃ الزمر میں یہ نوید سنائی ہے کہ توبہ استغفار سے اللہ تعالیٰ تمام گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الزمر کی آیت: 53 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''کہہ دو اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو‘ بے شک اللہ سب گناہ بخش دے گا‘ بے شک وہ بخشنے والا رحم والا ہے‘‘۔ جب انسان مسلسل اللہ تبارک وتعالیٰ سے توبہ واستغفار کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کو بہت سی نعمتوں سے نوازتے اور اس کی معیشت کو کشادہ فرما دیتے ہیں۔ اس حوالے سے سورۂ نوح میں حضرت نوح علیہ السلام کی دعوت کا ذکرکیا۔ سورۂ نوح کی آیات: 10 تا 12 میں ارشاد ہوا: ''پس (نوح نے) کہا: اپنے رب سے بخشش مانگو‘ بے شک وہ بڑا بخشنے والا ہے۔ وہ آسمان سے تم پر (موسلا دھار) مینہ برسائے گا۔ اور مال اور اولاد سے تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے لیے باغات بنا دے گا اور تمہارے لیے نہریں بنا دے گا‘‘۔
اجتماعی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے کتاب و سنت کا کُلی نفاذ نمایاں کردار ادا کرتا ہے جبکہ انفرادی معیشت کی اصلاح کے لیے تقویٰ‘ توکل اور دعائوں کی غیر معمولی اہمیت ہے۔ اگر ان اسباب کو اختیار کر لیا جائے تو یقینا ملک کی معیشت کو سنوارا جا سکتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے ملک کی معیشت کو بہتر فرما دے۔ آمین!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں