دنیا میں مثبت سوچ رکھنے والا ہر انسان اس بات کا متمنی ہے کہ اس کی اولاد سیدھے راستے پر گامزن رہے۔ والدین اپنی اولاد کو بے راہ روی اور بداخلاقی سے دور دیکھ کر اللہ تبارک وتعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ اولاد کی اصلاح کے لیے بعض اہم اور ضروری تجاویز درج ذیل ہیں:
1۔ اولاد کے لیے دعا: اولادکی اصلاح کے لیے یہ بات ضروری ہے کہ انسان اپنی اولاد کے سیدھے راستے پر چلنے اور اس کی دنیا اور آخرت کی کامیابی کے لیے دعاگو رہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۂ ابراہیم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ایسی دعائوں کا ذکر کیا ہے جو انہوں نے حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق علیہما السلام کے لیے کی تھیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ان دعائوں کو سورۂ ابراہیم کی آیات: 35 تا 39 میں کچھ یوں بیان فرماتے ہیں: ''(ابراہیم کی یہ دعا بھی یاد کرو) جب انہوں نے کہا کہ اے میرے پروردگار! اس شہر (مکہ) کو امن والا بنا دے اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے پناہ دے۔ اے میرے پالنے والے معبود! انہوں نے بہت سے لوگوں کو راہ سے بھٹکا دیا ہے۔ پس میری فرمانبرداری کرنے والا میرا ہے اور جو میری نافرمانی کرے تو تُو بہت ہی معاف اور کرم کرنے والا ہے۔ اے ہمارے پروردگار! میں نے اپنی کچھ اولاد اس بے کھیتی کی وادی میں تیرے حرمت والے گھر کے پاس بسائی ہے۔ اے ہمارے پروردگار! یہ اس لیے کہ وہ نماز قائم رکھیں‘ پس تو کچھ لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر دے اور انہیں پھلوں کی روزیاں عنایت فرما تاکہ یہ شکر گزاری کریں۔ اے ہمارے پروردگار! تُو خوب جانتا ہے جو ہم چھپائیں اور جو ظاہر کریں۔ زمین وآسمان کی کوئی چیز اللہ پر پوشیدہ نہیں۔ اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے اس بڑھاپے میں اسماعیل واسحاق (علیہما السلام) عطا فرمائے۔ کچھ شک نہیں کہ میرا پالنہار اللہ دعائوں کا سننے والا ہے‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ والدین کی اپنے بچوں کے لیے کی گئی دعائوں کوقبول ومنظور فرماتے ہیں اور اولاد کے مستقبل کے روشن ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
2۔ اولاد کو اچھے کاموں کی نصیحت: جہاں اولاد کے لیے دعا کرنی چاہیے وہیں اولاد کو ہمیشہ اچھے کاموں کی نصیحت بھی کرتے رہنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۂ لقمان میں حضرت لقمان کی ان نصیحتوں کا ذکر کیا جو انہوں نے اپنے بیٹے کوکی تھیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ لقمان کی آیات: 13 تا 19 میں اُن خوبصورت نصیحتوں کا ذکر کچھ یوں فرماتے ہیں ''اور جبکہ لقمان نے وعظ کہتے ہوئے اپنے لڑکے سے کہا کہ میرے پیارے بچے! اللہ کے ساتھ شریک نہ کرنا‘ بیشک شرک بڑا بھاری ظلم ہے۔ ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق نصیحت کی ہے‘ اس کی ماں نے دکھ پر دکھ اٹھا کر اسے حمل میں رکھا اور اس کی دودھ چھڑائی دو برس میں ہے کہ تو میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کر‘ (تم سب کو) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔ اور اگر وہ دونوں تجھ پر اس بات کا دبائو ڈالیں کہ تو میرے ساتھ شریک کرے جس کا تجھے علم نہ ہو تو تُو ان کا کہنا نہ ماننا‘ ہاں دنیا میں ان کے ساتھ اچھی طرح بسر کرنا اور اس راہ چلنا جو میری طرف جھکا ہوا ہو‘ تمہارا سب کا لوٹنا میری ہی طرف ہے‘ تم جو کچھ کرتے ہو اس سے پھر میں تمہیں خبردار کروں گا۔ پیارے بیٹے! اگر کوئی چیز رائی کے دانے کے برابر ہو پھر وہ (بھی) خواہ کسی چٹان میں ہو یا آسمانوں میں ہو یا زمین میں ہو اسے اللہ ضرور لائے گا‘ اللہ بڑا باریک بین اور خبردار ہے۔ اے میرے پیارے بیٹے! تُو نماز قائم رکھنا‘ اچھے کاموں کی نصیحت کرتے رہنا‘ برے کاموں سے منع کیا کرنا اور جو مصیبت تم پر آ جائے صبر کرنا (یقین مانو) کہ یہ بڑے تاکیدی کاموں میں سے ہے۔ لوگوں کے سامنے اپنے گال نہ پھلا اور زمین پر اترا کر نہ چل‘ کسی تکبر کرنے والے شیخی خورے کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا۔ اپنی رفتار میں میانہ روی اختیار کر‘ اور اپنی آواز پست کر‘ یقینا آوازوں میں سب سے بدتر آواز گدھوں کی آواز ہے‘‘۔
حضرت لقمان کی نصیحتوں پر غورکیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو عقیدے کی اصلاح کے حوالے سے نصیحتیں کی‘ والدین کی اطاعت کا سبق دیا‘ عبادات کی ادائیگی پر مداومت کی تلقین کی اور اس کے ساتھ ساتھ اخلاقِ رذیلہ سے بچنے کی بھی تلقین کی۔ گویا والدین کو اپنی اولاد کی اصلاح کے لیے ان کی ہر حوالے سے رہنمائی کرنی چاہیے اور دین ودنیا کے حوالے سے ان کی بہتری کے لیے مثبت انداز میں نصیحتیں کرتے رہنا چاہیے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کا بھی ذکر کیا کہ وہ اپنے اہلِ خانہ کو نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ مریم کی آیات: 54 تا 55 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اس کتاب میں اسماعیل کا واقعہ بھی بیان کیجیے‘ وہ بڑا ہی وعدے کا سچا تھا اور تھا بھی رسول اور نبی۔ وہ اپنے گھر والوں کو برابر نماز اور زکوٰۃ کاحکم دیتا تھا‘ اور تھا اپنے پروردگار کی بارگاہ میں پسندیدہ اور مقبول‘‘۔ انسان کو جہاں اپنی اولاد کو جوانی میں نصیحتیں کرتے رہنا چاہیے وہیں زندگی کے آخری ایام میں بھی اس کام سے غفلت نہیں برتنی چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت یعقوب علیہ السلام کی اس نصیحت کا ذکر کیا جو انہوں نے اپنے بچوں کو فرمائی تھی۔ اللہ تعالیٰ سورۃ البقرہ کی آیت: 133 میں ارشاد فرماتے ہیں ''کیا یعقوب کے انتقال کے وقت تم موجود تھے؟ جب انہوں نے اپنی اولاد کو کہا کہ میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے؟ تو سب نے جواب دیا کہ آپ کے معبود کی اور آپ کے آبائو اجداد ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق کے معبود کی جو معبود ایک ہی ہے اور ہم اسی کے فرمانبردار رہیں گے‘‘۔
3۔ اولادکیلئے اچھے رشتے کا انتخاب: اولاد کے لیے اچھے رشتے کا انتخاب یا اچھے رشتے کی توثیق کرنا بھی والدین کی ذمہ داری ہے۔ اگر انسان اپنے بچوں کے شریکِ زندگی میں کوئی بڑی خامی یا خلل دیکھے یا اس کو رشتے کے چنائو میں کوئی کمی کوتاہی نظر آئے تو اولاد کو بروقت نصیحت کر کے غلط رشتے سے بچنے کی تلقین کرنا بھی والدین کی ذمہ داری ہے۔ یہ بات حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی سے ثابت ہوتی ہے کہ جب انہوں نے اپنی بہو کو ناشکرا پایا توحضرت اسماعیل علیہ السلام کو اس کو چھوڑنے کی تلقین کی اور جب اپنی بہوکو صابر اور شاکر پایا تو اس کو برقرار رکھنے کی تلقین کی۔
4۔ اولاد کو خیر کے کاموں میں شریک کرنا: قرآن مجیدکے مطالعہ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ انسان کو فقط نصیحت ہی پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے بلکہ اولاد کو خیر کے کاموں میں اپنے ساتھ شامل بھی کرنا چاہیے۔ چنانچہ ابراہیم علیہ السلام کو جب اللہ تبارک وتعالیٰ نے قربانی کا حکم دیا تو آپ علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے سامنے اپنے خواب کو رکھا اور ان کو اس عمل صالح اور قربانی کے لیے آمادہ کیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الصافات کی آیت: 102 میں بیان فرماتے ہیں ''پھر جب وہ (بچہ) ان کے ساتھ دوڑ دھوپ (کی عمر) کو پہنچ گیا تو اس (ابراہیم) نے کہا: اے میرے بیٹے! میں خواب میں اپنے آپ کو تجھے ذبح کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ اب تو بتا کہ تیری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے جواب دیا کہ ابا جان! جو حکم ہوا ہے اسے بجا لائیے‘ ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں اس حقیقت کو بھی بیان فرما دیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو تعمیر بیت اللہ کے کام میں بھی اپنے ساتھ شریک کیا تھا۔ جب انبیاء کرام علیہم السلام کی سیرت پر چلتے ہوئے باپ اپنی اولاد کو اپنے ساتھ نیکی کے کام میں شریک کرتا ہے تو ان کی اصلاح کے امکانات مزید روشن ہو جاتے ہیں۔
اگر مذکورہ بالا تجاویز پر عمل کیا جائے تو انسان اپنی اولاد کی بطریق احسن اصلاح کر سکتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کی اولادوں کی اصلاح فرمائے اور ان کو دنیا وآخرت میں کامیاب کرے‘ آمین!