"AIZ" (space) message & send to 7575

محرم الحرام

اللہ تبارک وتعالیٰ زمان ومکان کے خالق ہیں اور کسی بھی وقت یا کسی بھی حصے کو عظمت عطا فرما سکتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حج کی مناسبت سے ایامِ ذوالحجہ کو عظمت عطا فرمائی۔ اسی طرح رمضان المبارک میں روزے رکھے جاتے ہیں جس کی وجہ سے رمضان المبارک کا مہینہ مسلمانوں میں خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے محرم الحرام کو بھی فضیلت وعظمت عطا فرمائی کہ یہ ان چار مہینوں میں شامل ہے جن کو حرمت والے مہینے قرار دیا گیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ التوبہ کی آیت: 36 میں ارشاد فرماتے ہیں ''مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں بارہ ہی ہے‘ اُسی دن سے جب سے آسمان وزمین کو اس نے پیدا کیا ہے‘ اس میں سے چار حرمت وادب والے مہینے ہیں۔ یہی درست دین ہے‘ تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو اور تم تمام مشرکوں سے جہاد کرو جیسے کہ وہ تم سب سے لڑتے ہیں اور جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ متقیوں کے ساتھ ہے‘‘۔
حرمت والے مہینوں میں نیکی کا کام کرنے کا ثواب زیادہ اور گناہوں کے کام کا عتاب بھی زیادہ ہوتا ہے۔ قرآن مجید سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے محرم الحرام کو حرمت والا مہینہ بنایا جبکہ احادیث طیبہ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ نبی کریمﷺ رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت سے قبل محرم الحرام کی 10 تاریخ کا روزہ ضرور رکھا کرتے تھے۔ رمضان المبارک کے بعد محرم کے روزوں کی خصوصی اہمیت ہے۔ اس حوالے سے صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ''رمضان کے بعد سب سے افضل روزے اللہ کے مہینے محرم کے ہیں اور فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز رات کی نماز (تہجد) ہے‘‘۔ مسند احمد میں حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے نبی کریمﷺ اپنے صحابہ کو دس محرم کا روزہ رکھنے کا حکم دیتے‘ پھر جب ماہِ رمضان کے روزے فرض ہو گئے تو نبیﷺ ماہِ رمضان ہی کے روزے رکھنے لگے اور عاشورہ کا روزہ چھوڑ دیا‘ اب جو چاہے وہ روزہ رکھ لے اور جو چاہے نہ رکھے۔
محرم الحرام کی اہمیت جہاں کتاب وسنت سے واضح ہوتی ہے وہیں بہت سے اہم تاریخی واقعات کی نسبت بھی محرم الحرام کے ساتھ ہے ‘جن میں سے چند اہم واقعات درج ذیل ہیں:
1۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم سے نجات: اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کے ظلم سے محرم کے ماہِ مبارک کی 10 تاریخ کو نجات دلائی تھی۔ اسی خوشی میں یہود دس محرم کا روزہ رکھا کرتے تھے۔ نبی کریمﷺ نے مدینہ طیبہ میں آمد کے بعد اہلِ اسلام کو یہ تلقین کی کہ موسیٰ علیہ السلام پر ہمارا حق زیادہ ہے؛ چنانچہ ہمیں بھی اس دن روزہ رکھنا چاہیے۔ اس حوالے سے صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ''نبی کریمﷺ مدینہ میں تشریف لائے تو (دوسرے سال) آپﷺ نے یہودیوں کو دیکھا کہ وہ عاشورا کے دن روزہ رکھتے ہیں۔ آپﷺ نے ان سے اس کا سبب معلوم فرمایا تو انہوں نے بتایا کہ یہ ایک بابرکت دن ہے‘ اسی دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن (فرعون) سے نجات دلائی تھی۔ اس لیے موسیٰ علیہ السلام نے اس دن کا روزہ رکھا تھا۔ آپﷺ نے فرمایا: پھر موسیٰ علیہ السلام کے (شریکِ مسرت ہونے میں) ہم تم سے زیادہ مستحق ہیں؛ چنانچہ آپﷺ نے اس دن روزہ رکھا اور صحابہ کو بھی اس کا حکم دیا‘‘۔ تاہم نبی مہرباں حضرت محمد کریمﷺ نے یہود کی مخالفت کی وجہ سے اپنی حیاتِ مبارکہ کے آخری سال میں اس بات کا اعلان فرمایا کہ وہ آئندہ نو محرم کا روزہ رکھیں گے‘ جس پر اہلِ علم کا اختلاف ہوا کہ شاید آپﷺ 10 کے روزے کو 9 سے تبدیل کر رہے ہیں جبکہ بعض اہلِ علم نے اس نے یہ مطلب اخذ کیا کہ آپﷺ نے 10 کے روزے کو 9 کے ساتھ تبدیل نہیں فرمایا بلکہ 10 کے ساتھ 9 محرم کے روزے کو ملانے کا ارادہ ظاہر فرمایا۔ اس لیے بعض علماء فقط 9 محرم کے روزے کو کافی سمجھتے ہیں جبکہ جمہور 9 اور 10 محرم کے روزے کو ملا کر رکھنے کے قائل ہیں۔ اس روزے کی برکت سے اللہ تبارک وتعالیٰ گزشتہ ایک برس کے گناہوں کو معاف کر دیتے ہیں۔
2۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت: یکم محرم الحرام کو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت ہوئی۔ حضرت عمر فاروقؓ مسلمانوں کے عظیم خلیفہ تھے جنہوں نے نبی کریمﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں بھی اسلام کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو وقف کیے رکھا۔ آپﷺ کے وصال کے بعد سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے دور میں حضرت عمرؓ مشیرِ خاص کی حیثیت سے اسلام کی خدمت سر انجام دیتے رہے۔ بعد ازاں اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپؓ کو خلافت کی مسند عطا فرمائی۔ آپؓ نے اپنے دورِ خلافت میں اسلامی سلطنت کے پھیلائو میں نمایاں کردار ادا کیا اور قیصر وکسریٰ کی ہیبت کو مٹا کر ان طاقتور ممالک کے مقابلے میں اسلامی سلطنت کو دنیا کی عظیم ترین سلطنت کے طور پر متعارف کرایا۔ حضرت عمر فاروقؓ نے ریاستی نظم ونسق کے حوالے سے بے مثال کردار ادا کیا اور رعایا کے ہر فرد تک بنیادی سہولتوں کو پہنچایا۔ آپؓ نے جس انداز میں رعایا کی خدمت کی‘ وہ رہتی دنیا تک ایک مثال کی حیثیت رکھتا ہے۔ آپؓ زہد وتقویٰ اور للہیت کے انتہائی بلند مقام پر فائز ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپؓ کو شہادت کی خلعتِ فاخرہ عطا فرما کر آپؓ کے رتبے کو مزید بلند فرما دیا۔ مؤرخین کی کثیر تعداد کے مطابق آپؓ یکم محرم الحرام کو اس دنیائے فانی سے رخصت ہوئے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو نبی کریم ﷺ اورحضرت ابوبکرصدیقؓ کے پہلو میں دفن ہونے کی سعادت نصیب ہوئی۔ آپؓ کی سیرت وکردار تاقیامت مسلمانوں کے لیے ایک مثال کی حیثیت رکھتے ہیں۔
3۔سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت: نبی کریمﷺ کے اہلِ بیت میں سے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ ایک نمایاں اور بلند مقام رکھتے ہیں۔ آپؓ سیدنا علی المرتضیٰ اور حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہما کے لختِ جگر ہیں۔ آپؓ نبی کریمﷺ کی محبتوں کا مرکز ومحور رہے۔ نبی کریمﷺ نے سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو نوجوانانِ جنت کا سردار قرار دیا اور ساری زندگی آپؓ کے ساتھ محبت فرماتے رہے۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ زہد وتقویٰ اور للہیت کے اعتبار سے ایک انتہائی مثالی شخصیت ہیں۔ زندگی بھر کتاب وسنت پر عمل پیرا رہے اور زندگی کے آخری ایام بھی آپؓ نے زہد وتقویٰ اور للہیت میں گزارے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے محرم الحرام کی 10 تاریخ کو آپؓ کو شہادت کی خلعتِ فاخرہ عطا فرمائی اور آپؓ اس دنیا سے ایک مظلوم شہید کی حیثیت سے رخصت ہوئے۔ سیدنا حسینؓ اور آپؓ کے اہلِ خانہ کی مظلومانہ شہادت کی کسک آج بھی دنیا ئے اسلام کے ہر فرد کے دل میں موجود ہے۔ لوگ سیدنا حسنین کریمینؓ سے اس حد تک والہانہ محبت کرتے ہیں کہ اُن کے نام نامی پر اپنی اولاد کا نام رکھنا اپنے لیے باعثِ فخر وسعادت گردانتے ہیں۔
محرم الحرام کا مہینہ ہمیں ان عظیم شخصیات کی یاد دلاتا اور ہمیں اس بات کی تحریک دیتا ہے کہ اگر ہم حقیقت میں ان عظیم شخصیات سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں تو ہمیں ان کے سیرت وکردار سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جس انداز سے اثر ورسوخ کے مقابلے میں جدوجہد کی‘ حضرت عمر فاروقؓ نے جس اعتبار سے اسلام کی خدمت کی اور حضرت امام حسینؓ جس انداز سے تقویٰ‘ للہیت اور کتاب وسنت کے ساتھ تمسک والی زندگی گزارتے رہے‘ یقینا یہ اہلِ اسلام کیلئے بہت بڑی تحریک کا سبب ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں اپنے اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے‘ آمین!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں