"AIZ" (space) message & send to 7575

ڈاکٹر بلال فلپس کے ساتھ ایک یادگار ملاقات

بعض لوگ دین اور اس کی تبلیغ کی نسبت سے معروف ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ یقینا خوش نصیب ہیں کہ جو اپنے وقت‘ وسائل‘ توانائیوں اور صلاحیتوں کو دین کی نشر واشاعت کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ ان عظیم لوگوں میں ڈاکٹر بلال فلپس کا نام سر فہرست ہے۔ ڈاکٹر بلال فلپس دنیا کے بڑے خطبا میں شمار ہوتے ہیں جو اپنے تحریری‘ تقریری اور تدریسی کام کی وجہ سے پوری دنیا میں پہچانے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر بلال فلپس ان دنوں پاکستان آئے ہوئے ہیں اور بہت سے مقامات پر ان کے پروگرام ہو چکے ہیں۔ قرآن وسنہ موومنٹ کے پلیٹ فارم سے ہم نے بھی انہیں مرکز قرآن وسنہ لارنس روڈ لاہور آمد کی دعوت دی۔ ڈاکٹر بلال فلپس سے سوشل میڈیا کے ذریعے پہلے بھی رابطہ رہ چکا ہے۔ انہوں نے اس دعوت کو قبول کر لیا اور 28 جون کو صبح 11 بجے مرکز قرآن وسنہ و جامعہ علامہ احسان الٰہی ظہیر میں آنے کی ہامی بھر لی۔ ہفتے کو صبح 10 بجے ہی قرآن وسنہ موومنٹ کے نمایاں ذمہ داران مرکز لارنس روڈ پر موجود تھے۔ انتظار کا ہر لمحہ طویل محسوس ہو رہا تھا۔ بے تابی اور بے چینی کے ساتھ سب کو اسلام کے عظیم داعی کا انتظار تھا۔
11 بجے ڈاکٹر بلال فلپس مرکز قرآن وسنہ پہنچے تو میں نے اپنے دوست احباب کے ہمراہ ان کا بھرپور استقبال کیا۔ شیخ الحدیث مولانا شفیق مدنی‘ ڈاکٹر حمزہ مدنی‘ ڈاکٹر انس نضر‘ انجینئر محمد عمران‘ ڈاکٹر حسن مدنی‘ شیخ الحدیث عبدالولی خان‘ قیم الٰہی ظہیر‘ ڈاکٹرشفیق الرحمن زاہد‘ مولانا ندیم ظہیر‘ شیخ الحدیث مولانا عبدالستار تونسوی‘ حافظ خضر حیات‘ پروفیسر کوثر زمان‘ عمر فاروق قدوسی‘ ابوبکر باجوہ‘ حافظ ساجد وکیل اور احمد قمر سمیت دیگر احباب اس موقع پر موجود تھے۔ ڈاکٹر بلال فلپس نے مرکز قرآن وسنہ موومنٹ کے ذمہ داران‘ علماء کرام‘ اساتذہ اور طلبہ سے فرداً فرداً ملاقات کی۔ وہ ایک بااخلاق اور متواضع شخصیت رکھتے ہیں۔
مرکز قرآن وسنہ کے وسیع ہال میں علماء اور اساتذہ وطلبہ ڈاکٹر صاحب کا خطاب سننے کیلئے بڑی تعداد میں جمع ہو چکے تھے۔ تقریب کا باقاعدہ آغاز ڈاکٹر حمزہ مدنی کی تلاوتِ قرآن مجید سے ہوا۔ ڈاکٹر صاحب کی پُرسوز تلاوت نے سامعین پر روحانی کیفیت طاری کر دی۔ میں نے ڈاکٹر بلال فلپس کے لیے خیر مقدمی کلمات کہے۔ اس کے بعد ڈاکٹر بلال فلپس نے ایک انتہائی مؤثر خطاب کیا۔ اپنے خطاب کے ذریعے انہوں نے لوگوں کی توجہ اس سمت مبذول کرائی کہ اللہ تبارک وتعالیٰ جب کسی کو ہدایت دیں تو دنیا میں اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے فضل بے پایاں سے ہر عہد میں لوگوں کو ہدایت نصیب فرماتے ہیں۔ ڈاکٹر بلال فلپس نے اس موقع پر اپنی آپ بیتی بیان کی کہ وہ جمیکا کے ایک مسیحی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ابھی وہ بچے ہی تھے کہ ان کے والدین اُن کے دیگر بہن بھائیوں کے ہمراہ کینیڈا منتقل ہو گئے۔ انہوں نے مسیحی گھرانے میں آنکھ کھولنے کی وجہ سے مسیحیوں سے یہ بات سن رکھی تھی کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام (نعوذ باللہ) خدا کے بیٹے ہیں لیکن یہ بات کبھی ان کی دل کی گہرائیوں میں نہیں اتر سکی۔ سکول اور کالج سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد جب وہ یونیورسٹی میں داخل ہوئے تو یونیورسٹی میں بہت سے یہودی اساتذہ سے ان کو تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا‘ جو یہود کے مذہبی نظریات کے فروغ سے کہیں بڑھ کر کارل مارکس کے فلسفے کی تائیدکرنے میں مصروف رہا کرتے تھے۔ مارکس اور اینجلز کے فلسفے نے ڈاکٹربلال فلپس کو بہت متاثر کیا۔ انہوں نے طبقاتی تقسیم کے خلاف کام کرنے والے کمیونسٹ فلسفے کو قبول کر لیا۔ ان کے نزدیک دولت اور وسائل کی مساوی تقسیم ایک اچھا قدم تھا۔ چنانچہ وہ خود بھی کمیونزم کے پرچار کرنے والے لوگوں میں شامل ہو گئے۔ کمیونزم کے پرچار کے دوران ہی اُن کے ذہن میں کئی مرتبہ یہ خیال ابھرا کہ کیا وجہ ہے سرمایہ دارانہ ممالک کے مقابلے میں کمیونسٹ ممالک کی مصنوعات کا معیار کمتر ہوتا ہے۔ اسی طرح ان کے ذہن میں یہ خیال بھی آتا کہ معاشی ترقی کے اعتبار سے بھی کمیونسٹ ریاستیں سرمایہ دارانہ ریاستوں سے پیچھے ہیں۔ روس کی مصنوعات کا معیار کسی بھی طور پر ان کے لیے تسلی بخش نہ تھا؛ چنانچہ انہوں نے دیگر نظریات اور مذاہب کا بھی مطالعہ شروع کر دیا۔ اس مطالعے کے دوران وہ بدھ مت‘ جین مت اور دیگر مذاہب کے مطالعے کی طرف بھی مائل رہے۔ انہوں نے محسوس کیا کہ ہر مذہب یا نظریے میں کچھ نہ کچھ خوبیاں اور بہت سی کمزوریاں موجود ہیں۔ اسلام کے بارے میں بہت سی کتب کے مطالعے نے ان کی توجہات کو اپنی طرف مبذول کرایا اور بتدریج وہ اس حقیقت کو بھانپ گئے کہ اسلام ہی دنیا کا واحد دین ہے جس میں تمام مذاہب کی خوبیاں مجتمع ہیں اور اس میں کسی بھی قسم کی کمزوری موجود نہیں ہے۔
1972ء میں ڈاکٹر بلال فلپس اسلام قبول کر چکے تھے۔ بعد ازاں انہوں نے ارکانِ اسلام کے متعلق معلومات حاصل کیں اور دین کے بارے میں مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے وہ مختلف ممالک سے آنے والے مسلمانوں کے ساتھ رابطے میں رہنے لگے۔ اس دوران اُن پر یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ مختلف ممالک کے مسلمان اسلام کے حوالے سے جو معلومات ان کو فراہم کرتے ہیں‘ ان میں سے اکثر کا تعلق اسلام کے بجائے ان کے آبائی ممالک کی رسوم ورواج اور ثقافت کے ساتھ ہوتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے خود گہرائی کے ساتھ اسلام کا مطالعہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ کچھ تحقیق کے بعد انہوں نے اسلام کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے مدینہ یونیورسٹی کا انتخاب کیا۔ 1975ء سے 1989ء تک وہ سعودی عرب میں مقیم رہے۔ اس دوران کنگ سعود یونیورسٹی ریاض سے ماسٹرز ڈگری حاصل کی اور بعد ازاں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔ ڈاکٹر بلال فلپس نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری انگلینڈ سے مکمل کی۔ انہوں نے مختلف ممالک میں دین کی تبلیغ اور اس کی نشر واشاعت کے لیے اسفار بھی کیے‘ کتابیں بھی تحریر کیں اور بین الاقوامی اوپن یونیورسٹی کی بنیاد بھی رکھی‘ جس سے اب تک چھ لاکھ طلبہ استفادہ کر چکے ہیں۔
ڈاکٹر بلال فلپس اپنے نظریات اور دین سے اپنی وابستگی کی وجہ سے بہت سی ابتلائوں کا نشانہ بنے اور ان کو کئی طرح کی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن ان کے پائے استقلال میں کسی قسم کی ڈگمگاہٹ پیدا نہیں ہوئی۔ یہ بات انہوں نے خود بتلائی کہ مدینہ یونیورسٹی میں قیام کے دوران علامہ احسان الٰہی ظہیرؒ کی کتب کا بھی انہوں نے مطالعہ کیا اور علامہ شہید کے سعودی عرب میں مختلف دوروں کے دوران ان سے ملاقات بھی کی۔ وہ ان کے لٹریچر سے بھی بہت متاثر ہوئے اور اس لٹریچر سے حاصل ہونے والی معلومات کی وجہ سے اسلام کے بارے میں ان کے تصورات میں مزید نکھار پیدا ہوا۔ ڈاکٹر بلال فلپس ذکر کر رہے تھے کہ یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی تقدیر کا حصہ تھا کہ وہ آج جامعہ علامہ احسان الٰہی ظہیر میں اساتذہ وطلبہ اور قرآن وسنہ موومنٹ کے رہنمائوں کے ساتھ محو گفتگو ہیں۔
ڈاکٹر بلال فلپس کی گفتگو میں سننے والوں کیلئے ایک سبق تھا کہ انسان اگر دین کے راستے پر چل نکلے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے لیے علم اور استدلال کے راستوں کو کھول دیتے ہیں۔ بعد ازاں ڈاکٹر صاحب نے میڈیا سے گفتگو کی اور ان کے اعزاز میں ظہرانے کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔ اس دوران قرآن وسنہ موومنٹ کے رہنمائوں اور علماء نے ان سے تفصیلی ملاقات کی۔ ڈاکٹر بلال فلپس کو علماء نے بڑے ذوق اور شوق کے ساتھ سنا‘ ان کی ساتھ مجلس کی اور بعد ازاں ان کو احترام سے رخصت کیا۔ ان کے رخصت ہونے کے بعد ہر شخص ان کی گفتگو اور ان کے طرزِ عمل سے متاثر نظر آ رہا تھا اور ہر ایک کے دل میں ان کیلئے محبت‘ عقیدت اور احترام کے جذبات موجزن تھے۔ یوں یہ تقریب اپنے جلو میں بہت سی خوبصورت یادوں کو لیے مکمل ہوئی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں