انسان اپنی زندگی میں مختلف ادوار سے گزرتا ہے۔ کبھی تنگدستی ہے تو کبھی خوشحالی۔ اسی طرح کبھی صحت ہوتی ہے تو کبھی بیماری۔ ہم اپنے گرد ونواح میں بہت سے لوگوں کو مختلف جسمانی اور ذہنی تکالیف میں مبتلا دیکھتے ہیں۔ ان تکالیف میں مبتلا افراد دیگر لوگوں کے مقابلے میں زندگی کی بہت سی نعمتوں اور لذتوں سے محروم رہ جاتے ہیں۔ بہت سے لوگ بیماریوں کی وجہ سے دکھ اور غم کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں اور اکثر اپنے خاندان اور دوستوں کیلئے بھی پریشانیوں کا سبب بن جاتے ہیں۔ طویل بیماری میں مبتلا افراد اپنی خوراک‘ وضع قطع اور گھر پر توجہ دینا چھوڑ دیتے ہیں۔ اسلام نے ہمیں مریضوں کے بہت سے حقوق بتلائے ہیں جن میں سے بعض اہم حقوق درج ذیل ہیں:
1۔ مریض کا علاج: مریض کا علاج کروانا سنت ہے۔ اس حوالے سے صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا ''اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسی بیماری نہیں اتاری جس کی دوا بھی نازل نہ کی ہو‘‘۔ اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہر بیماری قابلِ علاج ہے۔ مریض کا طبی علاج کروانا ضروری ہے تاہم روحانی طریقوں سے بھی اسکا علاج کرنا چاہیے۔
2۔ مریض کی عیادت: نبی کریمﷺ نے مریض کی عیادت کرنے کی تلقین کی ہے اور یہ بہت بڑے ثواب کا کام ہے۔ اس حوالے سے صحیح بخاری میں حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ''بھوکے کو کھانا کھلائو اور مریض کی عیادت یعنی مزاج پرسی کرو اور قیدی کو چھڑائو‘‘۔ صحیح مسلم میں حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ''جو شخص کسی مریض کی عیادت کرتا ہے وہ واپس آنے تک مسلسل جنت کی ایک روش پر رہتا ہے‘‘۔
3۔ مریض کا حوصلہ بڑھانا: جب انسان کسی مریض کے پاس جائے تو اس کا حوصلہ بڑھانا چاہیے‘ اس کو صبرکی تلقین کرنی چاہیے اور اس کو بیماری کے بدلے ملنے والے اجر وثواب سے آگاہ کرنا چاہیے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سے لوگ بیماری کے دوران شکوہ اور شکایت کرنا شروع کر دیتے ہیں جبکہ بہت سے لوگ بیماری کے دوران بھی اللہ کی حمد وثناء کرتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگ یقینا اللہ کی رحمتوں کے حقدار بن جاتے ہیں۔ اس حوالے سے موطا امام مالک میں عطاء بن یسارؒ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ''جب آدمی بیمار ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف دو فرشتے بھیجتے ہیں اور (ان سے) کہتے ہیں کہ دیکھو وہ (میرا مریض بندہ) اپنی بیمار پرسی کرنے والوں سے کیا کہتا ہے؟ چنانچہ اگر وہ بیمار جس وقت وہ (تیمارداری کرنے والے) آئیں (تو) اللہ کی حمد بیان کرے اور اس کی ثناء (تعریف) کرے تو وہ دونوں اس (حمد و ثناء) کو اللہ کی طرف اٹھا کر لے جاتے ہیں حالانکہ وہ (اللہ پہلے ہی سے سب کچھ) بہت خوب جاننے والا ہے؛ چنانچہ وہ فرماتا ہے: میرے بندے کے لیے مجھ پر (یہ عہد) ہے کہ اگر میں نے اسے (اس بیماری میں) فوت کر لیا تو اسے جنت میں داخل کروں گا اور اگر میں نے اسے شفا نصیب کی تو میں اسے اس کے گوشت کے بدلے بہترین گوشت اور اس کے خون کے بدلے بہترین خون عطا فرمائوں گا اور یہ (بھی مجھ پر عہد ہے) کہ میں اس (بیماری) سے اس کی برائیاں مٹا دوں گا‘‘۔
4۔ مریض کیلئے دعا اور اس کو دَم کرنا: نبی کریمﷺ مریضوں کے پاس تشریف لے جاتے تو ان کی بیماری کے ختم ہونے کی دعا فرماتے۔ اس موقع پر آپﷺ بہت سے دَم بھی کیا کرتے تھے بالخصوص صبح وشام معوذات (آخری تین قل) کا دَم کرنا آپﷺ کا معمول تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ دیگر بہت سی مسنون دعائیں بھی احادیث مبارکہ میں مذکور ہیں۔ صحیح بخاری میں حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ ''رسول اللہﷺ جب اپنے بستر پر آرام فرمانے کے لیے لیٹتے تو اپنی دونوں ہتھیلیوں پر سورہ اخلاص‘ سورۂ فلق اور سورۃ الناس پڑھ کر دم کرتے‘ پھر دونوں ہاتھوں کو اپنے چہرہ پر اور جسم کے جس حصہ تک ہاتھ پہنچ پاتے‘ پھیرتے۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ نے کہا کہ پھر جب آپﷺ بیمار ہوتے تو آپ مجھے اسی طرح کرنے کا حکم دیتے‘‘۔ اسی طرح احادیث مبارکہ سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ کئی مرتبہ انسان نظرِ بد کی وجہ سے بیمار ہو جاتا ہے۔ ایسی صورت میں بھی دَم کرنا چاہیے۔ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے حکم دیا ''نظرِ بد لگ جانے پر معوذتین (آخری دو قل) سے دَم کر لیا جائے‘‘۔
5۔ صفائی ستھرائی کا خیال رکھنا: مریض کے اردگرد ماحول کو صاف رکھنا‘ بیماری کے پھیلائو کو روکنے کے لیے اہم ہے۔ اسلام طہارت ونظافت کا دین ہے اور بیماری کے وقت اس کا خاص اہتمام ضروری ہے۔ 6۔ مناسب خوراک اور آرام کی فراہمی: مریض کو ایسی غذا دینی چاہیے جو آسانی سے ہضم ہو اور جسم کو توانائی دے۔ نیند اور آرام کیلئے مناسب ماحول مہیا کرنا بھی تیمارداری کا حصہ ہے۔ 7۔ مریض کی اجازت کے بغیر بیماری کا چرچا نہ کرنا: مریض کی بیماری کو بغیر اجازت دوسروں سے بیان کرنا غیر اخلاقی اور نجی معاملے کی خلاف ورزی ہے۔ اسلام نے فرد کی عزتِ نفس کا خاص خیال رکھنے کی تعلیم دی ہے۔
8۔ آخری وقت میں کلمہ طیبہ کی تلقین: جب مریض کی حالت نازک ہو جائے تو نرمی اور پیار سے اس کے کان میں ''لا الٰہ الا اللہ‘‘ کا ذکر کرنا چاہیے تاکہ وہ اس کلمے پر دنیا سے رخصت ہو۔ امام ترمذیؒ کہتے ہیں کہ یہ مستحب سمجھا جاتا ہے کہ مریض کو آخری وقت لا الٰہ الا اللہ کی تلقین کی جائے۔
جہاں علاج اور تیمارداری کے حوالے سے مذکورہ تدابیر کو اختیار کرنا چاہیے وہیں طب نبوی سے استفادہ کرتے ہوئے بعض اہم چیزوں کے ذریعے مریضوں کا علاج بھی کرنا چاہیے‘ جو درج ذیل ہیں:
1۔ شہد: اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ النحل کی آیت: 69 میں ارشاد فرمایا ''اس میں انسانوں کے لیے شفا ہے‘‘۔ 2۔ آبِ زم زم: آبِ زم زم میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے بیماریوں کیلئے شفا رکھی ہے۔ اس حوالے سے سلسلہ احادیث صحیحہ میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مرفوعاً مروی ہے کہ روئے زمین پر بہترین پانی آبِ زم زم ہے‘ اس میں کھانے کی قوت اور بیماری سے شفا ہے۔
3۔ عجوہ کھجور: عجوہ کھجور میں بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کی بہت سی بیماریوں کیلئے شفا رکھی ہے۔ اس حوالے سے صحیح بخاری میں حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ''جس شخص نے صبح کے وقت سات عجوہ کھجوریں کھا لیں اس دن اسے نہ زہر نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ جادو‘‘۔ 4۔ کلونجی: اللہ نے کلونجی کے دانوں میں بھی شفا رکھی ہے۔ اس حوالے سے صحیح بخاری میں سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا ''یہ کلونجی ہر بیماری کی دوا ہے سوائے سام کے۔ میں نے عرض کیا: سام کیا ہے؟ فرمایا: موت‘‘۔
5۔ تلبینہ: اللہ تبارک وتعالیٰ نے تلبینہ میں بھی انسانوں کے امراض بالخصوص غم کے علاج کو رکھا ہے۔ اس حوالے سے صحیح بخاری میں روایت ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہؓ بیمار اور میت کے سوگواروں کے لیے تلبینہ (روا‘ دودھ اور شہد ملا کر دلیہ) پکانے کا حکم دیتی تھیں اور فرماتی تھیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا کہ ''تلبینہ مریض کے دل کو سکون پہنچاتا ہے اور غم کو دور کرتا ہے‘‘ (کیونکہ اسے پینے کے بعد عموماً نیند آ جاتی ہے اور یہ زود ہضم بھی ہے)۔
اگر مذکورہ بالا تدابیر کو اختیار کر لیا جائے تو ان شاء اللہ مریضوں کو شفا مل سکتی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ تمام مریضوں کو شفائے کاملہ عطا فرمائے‘ آمین!