ملک بھر میں بہت سے مدارس گرمیوں کی چھٹیوں میں طلبہ کی تعلیم وتربیت کے حوالے سے خصوصی اہتمام کرتے ہیں۔ ان میں مختلف طرح کے کورسز کرائے جاتے ہیں جن کا مقصد طلبہ کو دینی تعلیمات سے آگاہ کرنا ہوتا ہے‘ اس طرح ان کے ایمان وعمل کو بھی تقویت ملتی ہے۔ 20 جولائی کو مرکز صدیق حسن کے مہتمم قاری حمزہ سیف نے مجھ سے رابطہ کیا کہ مرکز میں بچوں کیلئے سمر کورس کا اہتمام کیا گیا تھا جس کی تکمیل پر طلبہ سے امتحان لیے گئے‘ تقسیمِ انعامات کے موقع پر مجھے بھی خطاب کی دعوت دی گئی۔20 جولائی کو عصر کی نماز کے بعد شروع ہونے والے اس پروگرام کی نقابت کے فرائض خود قاری حمزہ سیف نے انجام دیے۔ مجھ سے قبل برادرِ عزیز ابوبکر قدوسی نے خطاب کیا اور اولاد کی تربیت کے حوالے سے والدین اور اساتذہ کی ذمہ داریوں پر سیر حاصل گفتگو کی۔ اس کے بعد ادارے کے سربراہ خالد شاہ صاحب نے تقریب سے خطاب کیا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ مرکز کو ایک قرآن کالج میں تبدیل کرنے کی کوششیں کی جائیں گی۔
22 تاریخ کو ظہر کی نماز سے قبل جامعہ رحمانیہ میں ایک پُروقار تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ تقریب کے میزبان معروف سکالر ڈاکٹر حمزہ مدنی تھے۔ مولانا عبدالرشید تونسوی‘ مولانا خاور رشید بٹ‘ ڈاکٹر شفیق الرحمن زاہد اور دیگر جید علماء نے اس تقریب میں شرکت کی۔ میں نے ان دونوں تقاریب میں علم کی فضیلت اور اولاد کی تربیت کے حوالے سے جن گزارشات کو سامعین کے سامنے رکھا‘ ان کو کچھ کمی بیشی اور ترامیم کے ساتھ قارئین کے بھی سامنے رکھنا چاہتا ہوں:
علم اللہ تبارک وتعالیٰ کی بہت بڑی عطا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۂ زمر کی آیت: 9 میں ارشاد فرمایا ''کیا علم والے اور بے علم برابر ہیں؟‘‘ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۂ فاطرکی آیت: 28 میں علماء کی شان بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ''اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں دو انبیاء کرام علیہما السلام کا ذکر فرمایا جن کو حکومت و اقتدار سمیت بہت سی دنیاوی نعمتوں سے نواز رکھا تھا‘ البتہ سورۂ نمل کی آیت: 15 میں ان کو ملنے والی علم کی نعمت کا خصوصی ذکر فرمایا۔ ''اور ہم نے یقینا دائود اور سلیمان کو علم دے رکھا تھا اور دونوں نے کہا: تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں اپنے بہت سے ایمان دار بندوں پر فضیلت عطا فرمائی ہے‘‘۔ ان آیاتِ مبارکہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انسانوں کے درمیان فضیلت کے اسباب میں ایک بڑا سبب علم ہے۔ علم کی وجہ سے انسان کا ایمان اور عمل ترقی کرتا ہے۔ مدارس کے طلبہ اس لحاظ سے خوش نصیب ہیں کہ یہ علمِ دین کے حصول کیلئے اپنے آپ کو وقف کیے رکھتے ہیں اور فراغت کے بعد بھی بالعموم علم کی نشر واشاعت ہی کیلئے وقف رہتے ہیں۔ اس کارِ خیر کو جاری رکھنے کیلئے والدین کی سرپرستی وتربیت نہایت ضروری ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں تین ایسی شخصیات کا ذکر کیا کہ جنہوں نے بطور والد اپنی اولاد کی تربیت پر خصوصی توجہ دی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد کی ولادت سے قبل ہی نیک اولاد کی دعا مانگی۔ بعد ازاں بھی آپ علیہ السلام ہمہ وقت اپنی اولاد کیلئے دعائیں مانگتے رہے‘ جن کا ذکر اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۂ ابراہیم کی آیات: 35 تا 41 میں کیا ہے۔ ارشاد ہوا ''(ابراہیم کی یہ دعا بھی یاد کرو) جب انہوں نے کہا کہ اے میرے پروردگار! اس شہر (مکہ) کو امن والا بنا دے اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے پناہ دے۔ اے میرے پالنے والے معبود! انہوں نے بہت سے لوگوں کو راہ سے بھٹکا دیا ہے۔ پس میری فرمانبرداری کرنے والا میرا ہے اور جو میری نافرمانی کرے تو تُو بہت ہی معاف اور کرم فرمانے والا ہے۔ اے ہمارے پروردگار! میں نے اپنی کچھ اولاد اس بے کھیتی کی وادی میں تیرے حرمت والے گھر کے پاس بسائی ہے۔ اے ہمارے پروردگار! یہ اس لیے کہ وہ نماز قائم رکھیں‘ پس تو کچھ لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر دے اور انہیں پھلوں کی روزیاں عنایت فرما تاکہ یہ شکر گزاری کریں۔ اے ہمارے پروردگار! تُو خوب جانتا ہے جو ہم چھپائیں اور جو ظاہر کریں۔ زمین وآسمان کی کوئی چیز اللہ پر پوشیدہ نہیں۔ اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے اس بڑھاپے میں اسماعیل واسحاق (علیہما السلام) عطا فرمائے۔ کچھ شک نہیں کہ میرا پالنہار اللہ دعائوں کا سننے والا ہے۔ اے میرے پالنے والے! مجھے نماز کا پابند رکھ اور میری اولاد سے بھی‘ اے ہمارے رب! میری دعا قبول فرما۔ اے ہمارے پروردگار! مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو بھی بخش اور دیگر مومنوں کو بھی بخش جس دن حساب ہونے لگے‘‘۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک بہترین والد کی ذمہ داری نبھاتے ہوئے اپنے بیٹوں کو ہمیشہ خیر کے کاموں میں اپنے ساتھ شریک کیا۔ جب آپ علیہ السلام کو خواب میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کا منظر دکھلایا گیا تو آپ نے اس مسئلے میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی رائے کو بھی شامل کیا اور تعمیرِ بیت اللہ کے عظیم کام میں بھی اپنے بیٹے کو اپنے ہمراہ رکھا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کی سورۂ لقمان میں حضرت لقمان کے کردار کا ذکر کیا کہ وہ اپنے بیٹے کی تعلیم وتربیت کے حوالے سے کوشاں رہتے اور اس کو ہمیشہ اچھے کاموں کی نصیحت کیا کرتے تھے۔ اللہ تبارک وتعالی سورۂ لقمان کی آیات: 13 تا 19 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اور جبکہ لقمان نے وعظ کہتے ہوئے اپنے لڑکے سے کہا کہ میرے پیارے بچے! اللہ کے ساتھ شریک نہ کرنا‘ بیشک شرک بڑا بھاری ظلم ہے۔ ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق نصیحت کی ہے‘ اس کی ماں نے دکھ پر دکھ اٹھا کر اسے حمل میں رکھا اور اس کی دودھ چھڑائی دو برس میں ہے کہ تُو میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کر‘ (تم سب کو) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔ اور اگر وہ دونوں تجھ پر اس بات کا دبائو ڈالیں کہ تو میرے ساتھ شریک کرے جس کا تجھے علم نہ ہو تو تُو ان کا کہنا نہ ماننا‘ ہاں دنیا میں ان کے ساتھ اچھی طرح بسر کرنا اور اس راہ چلنا جو میری طرف جھکا ہوا ہو‘ تمہارا سب کا لوٹنا میری ہی طرف ہے‘ تم جو کچھ کرتے ہو اس سے پھر میں تمہیں خبردار کروں گا۔ پیارے بیٹے! اگر کوئی چیز رائی کے دانے کے برابر ہو پھر وہ (بھی) خواہ کسی چٹان میں ہو یا آسمانوں میں ہو یا زمین میں ہو اسے اللہ ضرور لائے گا‘ اللہ بڑا باریک بین اور خبردار ہے۔ اے میرے پیارے بیٹے! تُو نماز قائم رکھنا‘ اچھے کاموں کی نصیحت کرتے رہنا‘ برے کاموں سے منع کیا کرنا اور جو مصیبت تم پر آ جائے (اس پر) صبر کرنا (یقین مانو) کہ یہ بڑے تاکیدی کاموں میں سے ہے۔ لوگوں کے سامنے اپنے گال نہ پھلا اور زمین پر اترا کر نہ چل‘ کسی تکبر کرنے والے شیخی خورے کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا۔ اپنی رفتار میں میانہ روی اختیار کر‘ اور اپنی آواز پست کر‘ یقینا آوازوں میں سب سے بدتر آواز گدھوں کی آواز ہے‘‘۔
اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت یعقوب علیہ السلام کا بھی ذکر کیا جو اپنی اولاد کو دین پر چلانے کے حوالے سے انتہائی متفکر تھے اور آخری وقت تک اپنی اولاد کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی کا سبق پڑھاتے رہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس حقیقت کو سورۃ البقرہ کی آیت: 133 میں کچھ یوں بیان فرماتے ہیں ''کیا یعقوب کے انتقال کے وقت تم موجود تھے؟ جب انہوں نے اپنی اولاد کو کہا کہ میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے؟ تو سب نے جواب دیا کہ آپ کے معبود کی اور آپ کے آبائو اجداد ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق کے معبود کی‘ جو معبود ایک ہی ہے اور ہم اسی کے فرمانبردار رہیں گے‘‘۔ چنانچہ اساتذہ کے ساتھ والدین کو بھی اولاد کی تربیت کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو نبھانا چاہیے۔میرے خطاب کے بعد طلبہ کے درمیان اسناد اور انعامات تقسیم کیے گئے۔ یوں یہ علمی اور پُروقار تقاریب اپنے جلو میں بہت سی خوبصورت یادوں کو لیے مکمل ہوئیں۔