مجھے گاہے گاہے ایسے افراد سے ملنے کا موقع ملتا رہتا ہے جو مختلف قسم کے نفسیاتی عوارض کا شکار ہوتے ہیں۔ ان میں سے بعض لوگ بے چینی کا شکار ہوتے ہیں‘ کچھ بے خوابی میں مبتلا ہوتے ہیں‘ کئی غم میں ڈوبے ہوتے ہیں اور کئی مکمل مایوس ہو چکے ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ بالعموم زندگی کے معاملات میں دلچسپی نہیں لے پاتے اور اپنے روزمرہ امور کو انجام دینے سے قاصر ہو چکے ہوتے ہیں۔ میں نے زندگی میں ایسے لوگوں کو بھی دیکھا ہے جو اس حد تک مایوس ہو چکے ہوتے ہیں کہ وہ اپنی وضع قطع اور لباس کے حوالے سے بھی لاپروا ہو جاتے ہیں اور ہمہ وقت سوچوں میں کھوئے رہتے ہیں۔ ایسے افراد نہ صرف ذاتی حیثیت میں پریشانی اور الجھائو کا شکار ہوتے ہیں بلکہ ان کے خاندان کے لوگ اور ان کے وابستگان بھی ان کی اس حالت کی وجہ سے بے چینی اور پریشانی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایسے افراد کی وجہ سے خاندان کے لوگوں کو بھی بہت سی زحمتوں‘ تکالیف اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
نفسیاتی مسائل کے حل کیلئے دنیا بھر میں ذہنی امراض اور نفسیات کے ماہرین کام کر رہے ہیں۔ ماہرینِ ذہنی امراض وہ لوگ ہوتے ہیں جو میڈیکل سائنس سے وابستہ ہوتے اور دماغ کے کیمیائی اور برقی نظام کے توازن کو برقرار رکھنے کیلئے ادویات تجویز کرتے ہیں۔ یہ لوگ ایک عرصے سے نفسیاتی عوارض کے شکار لوگوں کے علاج اور معالجے میں مصروف ہیں اور مختلف ادویات اور ان کے اثرات پر تحقیقات کرتے رہتے ہیں۔ اس کیساتھ ساتھ دنیا بھر میں ماہرینِ نفسیات بھی موجود ہیں‘ جو ادویات کے بجائے مریض کے معاملات کا تجزیہ کرتے اور اس کیساتھ بات چیت‘ مشاورت‘ تھراپی اور علمِ نفسیات کی روشنی میں اس کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ماہرینِ نفسیات طبی علوم کے ماہر تو نہیں ہوتے لیکن علمِ نفسیات کے عمیق مطالعے کے بعد نفسیاتی گرہوں کو کھولنے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں۔ بہت سے لوگ ان دونوں اقسام کے معالجوں سے استفادہ کرنے کی وجہ سے زندگی کی دلچسپیوں کی طرف لوٹ آتے ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بہت سے لوگ نفسیاتی عوارض کے دوران علما سے رجوع کرتے اور کتاب وسنت کی روشنی میں اپنے معاملات کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس طرح میڈیکل سائنس کے ماہر معالج اور نفسیات دان انسانوں کے امراض کا علاج کرتے ہیں‘ اسی طرح کتاب وسنت میں بھی اس حوالے سے بہت مؤثر رہنمائی کی گئی ہے۔ کتاب وسنت کا مطالعہ کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انسان کے نفسیاتی عوارض کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں سے چند اہم وجوہات درج ذیل ہیں:
1۔ کسی بڑے صدمے کا پہنچنا: جب انسان کسی بڑے صدمے سے دوچار ہوتا ہے تو کئی مرتبہ صدمے کو برداشت نہ کر سکنے کی وجہ سے مختلف طرح کے نفسیاتی عوارض کا شکار ہو جاتا ہے۔ ہر انسان نفسیاتی اعتبار سے خوشگوار زندگی گزارنا چاہتا ہے مگر صدمے کی شدت کی وجہ سے کئی مرتبہ انسان کے اعصاب اس حد تک متاثر ہوتے ہیں کہ وہ نفسیاتی عوارض میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ 2۔ احساسِ گناہ :کئی مرتبہ انسان کسی بڑے گناہ کے ارتکاب کی وجہ سے احساسِ گناہ میں مبتلا ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے اس کا ضمیر اور شعور اس کو ملامت کرتا رہتا ہے۔ ضمیر اور شعور کی آواز کی وجہ سے جب انسان میں احساسِ گناہ بڑھتا ہے اور اس کو اپنے گناہ کی شدت اور سنگینی کا احساس ہوتا ہے تو اس میں مختلف طرح کے نفسیاتی عوارض پیدا ہونے لگتے ہیں۔
3۔ نظرِ بد کا لگ جانا: کئی مرتبہ انسان نظرِ بد کے لگ جانے کی وجہ سے نفسیاتی عوارض کا شکار ہو جاتا ہے۔ 4۔ شیطانی اثرات: کئی مرتبہ انسان پر شیطانی اثرات حملہ آور ہو جاتے ہیں اور یہ اَن دیکھے شیطانی اثرات انسان کو نفسیاتی طور پر مضطرب‘ بے چین اور مایوس کر دیتے ہیں۔ اکثر اوقات ان اثرات کی وجہ سے انسان خیالاتِ فاسدہ کا شکار ہو جاتا اور کئی مرتبہ قوتِ عمل سے محروم ہو جاتا ہے۔ اسی طرح بہت سے لوگ ان اثرات کی وجہ سے یادداشت اور حافظے کی کمزوری کا بھی شکار ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی یکسوئی متاثر ہوتی اور ان کو بے چینی اور احساسِ محرومی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 5۔ جادو ٹونے کے اثرات: کئی مرتبہ انسان پر عملیات اور جادو ٹونے کے اثرات بھی مرتب ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ مختلف طرح کے نفسیاتی عوارض کا شکار ہو جاتا ہے۔ بہت سے لوگ جادو کی حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے لیکن مستند روایات اور کتاب وسنت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جادو کئی مرتبہ مؤثر ہو جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں شوہر اور بیوی میں تفریق پیدا ہوتی اور جگری دوست ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے ہیں۔ اسی طرح کئی مرتبہ جادو ٹونے کے منفی اثرات کی وجہ سے انسان مختلف نفسیاتی ‘ ذہنی اور جسمانی تکالیف کا بھی شکار ہو جاتا ہے۔ جادوگر کئی مرتبہ عظیم ہستیوں پر بھی جادو کا وار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جلیل القدر انبیاء میں سے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور نبی کریمﷺ پر بھی جادو کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کو جادوگروں کے وار سے بچنے اور نکلنے کیلئے مختلف تدابیر بتلائیں اور یہی رہنمائی بعد میں آنے والے انسانوں کیلئے ایک مضبوط ڈھال کی حیثیت رکھتی ہے۔
جب ہم مذکورہ بالا اسباب پر غور کرتے ہیں اور اس حوالے سے کتاب وسنت میں حل تلاش کرتے ہیں تو نفسیاتی عوارض کا مقابلہ کرنے کیلئے بہت سی خوبصورت تدابیر ہمارے سامنے آتی ہیں‘ جن میں سے چند اہم تدابیر درج ذیل ہیں:
1۔ صبر: جب انسان کو کسی صدمے کا سامنا کرنا پڑے تو اس کو صبر کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور یہ حقیقت ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ ہر تکلیف‘ ہر مصیبت اللہ ہی کے حکم سے آتی ہے اور اس تکلیف سے نجات حاصل کرنے کیلئے ہمیں صبر کرنا چاہیے۔ جب انسان صبر کرتا ہے تو اس پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی رحمتوں کا نزول ہوتا ہے۔ قرآن مجید کے مطالعے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اور صبر کرنے والوں سے محبت کرتا ہے؛ چنانچہ صبر کی وجہ سے انسان صدمات کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ 2۔ دعا: جب انسان دعا کرتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ نہ صرف اس کے مصائب کو دور کر دیتے ہیں بلکہ اس میں مصائب کا مقابلہ کرنے کی استعداد بھی پیدا فرما دیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں بہت سے انبیاء کرام علیہم السلام کی خوبصورت دعائوں کا ذکر کیا ہے۔ حضرت یونس علیہ السلام کا غم اور حضرت ایوب علیہ السلام کی بیماری دعا ہی کی وجہ سے دور ہوئی۔ چنانچہ ہمیں اپنے مسائل کے حل کیلئے مادی اسباب کے ساتھ ساتھ دعا کا راستہ بھی اختیار کرنا چاہیے۔
3۔ توبہ واستغفار: جب انسان سے کسی گناہ کا ارتکاب ہو جائے تو اس کو پشیمانی کا اظہار کرتے ہوئے فوراً اللہ کی طرف رجوع کر کے توبہ کا طلبگار بن جانا چاہیے۔ توبہ کرنے کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ انسان کے گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں۔ اس کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ آئندہ گناہوں سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ 4۔ مسنون اذکار: نظرِ بد ‘شیطانی اثرات‘ عملیات اور جادو ٹونے سے نجات حاصل کرنے کیلئے قرآن و سنت میں مختلف اذکار تعلیم کیے گئے ہیں۔ اس حوالے سے آیت الکرسی‘ آخری تین قل شریف‘ سورۃ البقرہ کی متواتر تلاوت اور احادیث میں مذکور صبح وشام اور حفاظت کے دیگر اذکار کرنے چاہئیں۔ 5۔ توکل: انسان کو اپنی مصیبتوں کے دوران اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات پر کامل بھروسہ کرنا چاہیے۔ جو شخص اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات پر توکل کرتا ہے‘ اللہ تعالیٰ اس کیلئے کافی ہو جاتے ہیں۔
اگر مذکورہ بالا تدابیر کو اختیار کر لیا جائے تو اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے انسانوں کے مصائب اور مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ تمام بیماروں کو شفایاب فرمائے‘ آمین!