موت ایک ایسی حقیقت ہے جس پہ دنیا کے تمام مذاہب اور مکاتبِ فکر کا اتفاق ہے۔ یہاں تک کہ جو لوگ ذاتِ باری تعالیٰ کے بارے میں شکوک وشبہات کا اظہار کرتے ہیں وہ بھی موت کا انکار نہیں کر پاتے۔ وہ اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اگر انہوں نے موت کا انکار کیا تو لوگ کسی بھی طور پر ان کی بات ماننے پر آمادہ وتیار نہیں ہوں گے۔ موت کے اس قدر یقینی ہونے کے باوجود کوئی بھی انسان اپنے لیے موت کو یقینی نہیں سمجھتا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم میں سے ہر شخص نے اپنے گرد ونواح میں بہت سے لوگوں کو دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے دیکھا ہے لیکن اس کے باوجود انسان نجانے یہ کیوں سمجھتا ہے کہ وہ موت سے بچ نکلے گا۔ بالعموم انسان دنیا میں ساٹھ، ستر یا اسی برس کی زندگی گزارنے کے بعد دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے اور یہ سلسلہ ہزاروں برس سے جاری ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ موت کے بعد آنے والی زندگی کی تیار ی کتنے انسان کر رہے ہیں۔
انسانوں کی بڑی تعداد موت کے بعد آنے والی زندگی کے بارے میں شکوک وشبہات کا شکار ہے۔ جو لوگ آسمانی کتابوں پر یقین رکھتے ہیں ان میں سے بھی ایک بڑی تعداد ایسی ہے کہ موت کے بعد زندہ ہو جانے کے بارے میں مختلف طرح کے شکوک میں مبتلا ہے۔ بہت سے انسان سمجھتے ہیں کہ شاید اس دنیا میں اپنی من مانی کرکے ہم دنیا سے رخصت ہو جائیں گے اور اس زندگی کے بعد کسی اور زندگی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ ان شکوک وشبہات کے ازالہ کے لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی ایسے واقعات بیان کیے ہیں جن میں اس دنیا میں رہتے ہوئے موت کے آجانے کے بعد دوبارہ زندگی حاصل ہوئی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ البقرہ میں حضرت عزیر علیہ السلام کے واقعہ کو بیان فرماتے ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کے سامنے موت کے بعد والی زندگی کی حقیقت کو واضح فرمایا۔
سورۃ البقرہ کی آیت: 259 میں ارشاد ہوا: ''کیا تو نے اس شخص کو نہیں دیکھا جو ایک شہر پر گزرا اور وہ (شہر) اپنی چھتوں پر گرا ہوا تھا۔ کہا: اسے اللہ مرنے کے بعد کیسے زندہ کرے گا؟ پھر اللہ نے اسے سو برس تک مار ڈالا، پھر اسے اٹھایا (اور) کہا: تُو یہاں کتنی دیر رہا؟ کہا: ایک دن یا اس سے کچھ کم رہا۔ فرمایا: بلکہ تُو سو برس رہا ہے اب تو اپنا کھانا اور پینا دیکھ وہ تو سڑا نہیں، اور اپنے گدھے کو دیکھ اور ہم نے تجھے لوگوں کے واسطے نمونہ (بنانا) چاہا ہے، اور ہڈیوں کی طرف دیکھ کہ ہم انہیں کس طرح ابھار کر جوڑ دیتے ہیں پھر ان پر گوشت پہناتے ہیں، پھر اس پر یہ حال ظاہر ہوا تو کہا: میں یقین کرتا ہو ں کہ بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اصحابِ کہف کا بھی ذکر کیا۔ یہ چند نوجوان تھے جو اپنے ایمان کو بچانے کے لیے غار میں پناہ گزین ہو گئے تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کو ایک طویل عرصہ سلانے کے بعد دوبارہ بیدار کیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس واقعے کو سورۃ الکہف کی آیات: 18 تا 20 میں یوں بیان فرماتے ہیں: ''اور تُو انہیں جاگتا ہوا خیال کرے گا حالانکہ وہ سو رہے ہیں، اور ہم انہیں دائیں بائیں پلٹتے رہتے ہیں، اور ان کا کتا چوکھٹ کی جگہ اپنے دونوں بازو پھیلائے بیٹھا ہے، اگر تم انہیں جھانک کر دیکھو تو الٹے پائوں بھاگ کھڑے ہو اور تم پر ان کی دہشت چھا جائے۔ اور اسی طرح ہم نے انہیں جگا دیا تاکہ ایک دوسرے سے پوچھیں، ان میں سے ایک نے کہا: تم کتنی دیر ٹھہرے ہو؟ انہوں نے کہا: ہم ایک دن یا دن سے (کچھ) کم ٹھہرے ہیں، کہا: تمہارا رب خوب جانتا ہے جتنی دیر تم ٹھہرے ہو، اب اپنے میں سے ایک کو یہ اپنا روپیہ دے کر اس شہر میں بھیجو پھر دیکھے کون سا کھانا ستھرا ہے پھر تمہارے پاس اس میں سے کھانا لائے اور نرمی سے جائے اور تمہارے متعلق کسی کو نہ بتائے۔ بے شک وہ لوگ اگر تمہاری اطلاع پائیں گے تو تمہیں سنگسار کر دیں گے یا اپنے دین میں لوٹالیں گے پھر تم کبھی فلاح نہیں پا سکو گے‘‘۔ اصحابِ کہف کا واقعہ اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے لیے انسانوں کو موت دینے کے بعد دوبارہ زندہ کرنا کچھ مشکل نہیں ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ البقرہ میں ایسے لوگوں کا ذکر کیا ہے جو موت کے خوف سے اپنے گھروں سے نکل پڑے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کو موت دے کر ان کو دوبارہ زندہ کر دیا۔ اللہ تعالیٰ اس واقعہ کو سورۃ البقرہ کی آیت: 243 میں بیان فرماتے ہیں: ''کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو موت کے ڈر سے اپنے گھروں سے نکلے جبکہ وہ ہزاروں تھے، پھر اللہ نے ان کو فرمایا کہ مر جائو، پھر انہیں (دوبارہ) زندہ کر دیا۔ بے شک اللہ لوگوں پر فضل کرنے والا ہے لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے‘‘۔
اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی ایک مرتبہ اللہ تبارک وتعالیٰ سے مردوں کو دوبارہ زندہ کرنے کے بارے استفسار کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے سامنے ذبح کئے گئے پرندوں کو دوبارہ زندہ کر دیا۔ اللہ تعالیٰ اس واقعے کو سورۃ البقرہ کی آیت: 260 میں یوں بیان فرماتے ہیں: ''اور یاد کر جب ابراہیم نے کہا: اے میرے پروردگار! مجھ کو دکھا کہ تو مردے کو کس طرح زندہ کرے گا، فرمایا کہ کیا تم یقین نہیں لاتے؟ کہا: کیوں نہیں لیکن اس واسطے چاہتا ہوں کہ میرے دل کو تسکین ہو جائے، فرمایا: تو چار پرندے اڑنے والے پکڑ پھر انہیں اپنے ساتھ مانوس کر لے (اور پھر انہیں ذبح کرنے کے بعد) ہر پہاڑ پر ان کے بدن کا ایک ایک ٹکڑا رکھ دے پھر ان کو بلا تیرے پاس جلدی سے آئیں گے، اور جان لے کہ بے شک اللہ زبردست حکمت والا ہے‘‘۔
یہ تمام واقعات اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے لیے مردوں کو دوبارہ زندہ کرنا کچھ مشکل نہیں۔ جواللہ تعالیٰ اس دنیا میں مر جانے والوں کو دوبارہ زندہ کر سکتے ہیں کیا وہ قیامت کے دن انسانوں کو دوبارہ زندہ نہیں کر سکتے؟
اللہ تبارک وتعالیٰ اسی حقیقت کو واضح کرتے ہوئے سورۃ القیامہ کی آیات: 3 تا 4 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''کیا انسان سمجھتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیاں جمع نہ کریں گے۔ ہاں ہم تو اس پر قادر ہیں کہ اس کی پور پور درست کر دیں‘‘۔ جب اللہ تبارک وتعالیٰ ہر چیز کو از سر نو زندہ کرنے پر قادر ہے تو ہمیں موت کے بعد کی زندگی کے لیے ابھی سے تیاری کرنی چاہیے۔
حقیقت میں جو شخص موت کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے آگ سے بچ کے جنت میں داخل ہوگیا وہی حقیقت میں کامیاب ہو گا۔ اللہ تعالیٰ اسی حقیقت کو سورۂ آل عمران کی آیت نمبر 185 میں یوں ارشاد فرماتے ہیں: ''ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے، اور تمہیں قیامت کے دن پورا پورا بدلہ ملے گا، پھر جو کوئی دوزخ سے دور رکھا گیا اور بہشت میں داخل کیا گیا سو وہ پورا کامیاب ہوا، اور دنیا کی زندگی سوائے دھوکے کی پونجی کے اور کچھ نہیں‘‘۔ اس آیت مبارکہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے کامیابی کی حقیقت کو نہایت احسن انداز سے واضح فرما دیا کہ ہمیں کل قیامت کے دن اپنے اعمال کی جزا ملنے والی ہے‘ تو جو شخص اس روز آگ سے بچ گیا وہی حقیقت میں کامیاب ہو گا۔
چنانچہ ہمیں چاہیے کہ ابھی سے موت کے بعد والی زندگی کی تیاری کریں اور اس میں کامیابی کے لیے تگ ودو کریں کہ حقیقی کامیابی اسی کو حاصل ہو گی جو اس زندگی میں عذاب سے بچ کر جنت کے باغات میں داخل ہو جائے گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو آخرت کی فکر اور اس کے لیے ابھی سے تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!