بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد ملک کا ایک نمایاں تعلیمی ادارہ ہے جو اپنی نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں کے سبب ممتاز حیثیت کا حامل ہے۔ دنیا بھر سے مختلف قومیتوں کے طلبہ یہاں تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں۔ اسلامی علوم وفنون کے ساتھ ساتھ یہاں دیگر مضامین بھی پڑھائے جاتے ہیں۔ اسلامی یونیورسٹی میں انتظامیہ کے تحت کئی اہم پروگراموں کا انعقاد کیا جاتا ہے جبکہ یونیورسٹی کے طلبہ بھی مختلف تقاریب کا انعقاد کرتے رہتے ہیں۔
چند روز قبل مجھ سے طا لب علم رہنمابلال ربانی نے رابطہ کیا۔ بلال ربانی ایک مستعد دینی رہنما ہیں جو اکثر دینی پروگراموں میں سٹیج کی زینت بنے نظر آتے ہیں۔ فلسطین سے متعلقہ پروگرام ہو یا ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے کوئی تقریب‘ عقیدہِ ختم نبوت سے متعلق اجلاس ہو یا دفاعِ صحابہ سے متعلق کوئی اجتماع‘ بلال ربانی ان اجتماعات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ جب انہوں نے مجھے آٹھ اکتوبر کو اسلامی یونیورسٹی میں منعقدہ ''رحمۃ للعالمین سیمینار‘‘ میں شرکت کی دعوت دی تو میں دیرینہ تعلق کی وجہ سے اس میں شرکت پر آمادہ ہو گیا۔ 8 اکتوبر کو مغرب کے بعد شروع ہونے والے اس سیمینار کا انعقاد یونیورسٹی ہاسٹلز کے سامنے ایک لان میں کیا گیا تھا۔ لان میں ایک خوبصورت مارکی نصب کی گئی تھی اور طلبہ کی بڑی تعداد میں شرکت کے پیش نظر خوبصورت پنڈال سجایا گیا تھا۔ اس سیمینار میں شرکت کے لیے جہاں یونیورسٹی کے اساتذہ وطلبہ بڑی تعداد میں موجود تھے وہیں مختلف سکالرز کو بھی خطاب کے لیے مدعو کیا گیا تھا جن میں قیصر احمد راجہ اور راجہ ضیاء الحق نمایاں تھے۔ یونیورسٹی کے طلبہ مقررین کے خطاب کو سننے کے لیے بڑے ذوق اور شوق سے تشریف لائے۔ وہ نبی کریمﷺ کی سیرت کے حوالے سے مقررین کی گفتگو سننے کے لیے بیتاب تھے۔ سیمینار میں ہر مقرر نے اپنے اپنے انداز میں بارگاہِ رسالت مآبﷺ میں گلدستہ ہائے عقیدت نچھاور کیے۔ اس موقع پر میں نے جن گزارشات کو طلبہ کے سامنے رکھا‘ ان کو کچھ ترامیم اور اضافے کے ساتھ قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں:
اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کی اعتقادی‘ عملی اور فکری رہنمائی کے لیے انبیاء کرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا جن کا سلسلہ نبی کریمﷺ کی ذاتِ اقدس پر مکمل ہوا۔ یہ انبیاء کرام علیہم السلام انسانوں کو اندھیروں کے راستے نکال کر روشنی کے راستے پہ چلاتے رہے۔ نبی کریمﷺ کی تعلیمات بھی انتہائی روشن اور سنہری ہیں‘ جنہوں نے انسانی تہذیب کو ترقی‘ اعتدال اور سکون کی شاہراہ پر گامزن کیا۔ نبی کریمﷺ کی سیرتِ مبارکہ کے بہت سے پہلو ایسے ہیں جن کے حوالے سے رہنمائی ہوتی رہتی ہے لیکن قرآن مجید کی وہ آفاقی تعلیمات اور آپﷺ کی سیرت کا وہ پہلو جو انسانیت کے لیے سراپا رحمت ہے‘ اس حوالے سے اہلِ علم کو خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ نبی کریمﷺ کی آفاقی تعلیمات جو آپﷺ نے اللہ کی کتاب کی روشنی میں انسانیت کے سامنے رکھیں‘ ان میں انسانیت کے لیے رحمت کا بیش بہا پیغام ہے۔ نبی کریمﷺ کے عطا کردہ رحمت بھرے نظام کے چند اہم پہلوئوں پر خصوصیت سے غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے۔
دنیا بھر کے جرم وسزا کے نظام میں کسی کے مجرم ثابت ہو جانے کے بعد اس کو سزا دی جاتی ہے لیکن نبی کریمﷺ نے فقط مجرم ثابت ہونے کے بعد سزا سنانے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اگر مجرم مجبور ہو تو اس کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی آیاتِ بیّنات کی روشنی میں معذور قرار دیا۔ اس حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ النور کی آیت: 33 میں ارشاد فرماتے ہیں ''تمہاری جو لونڈیاں پاک دامن رہنا چاہتی ہیں انہیں دنیا کی زندگی کے فائدے کی غرض سے بدکاری پر مجبور نہ کرو اور جو انہیں مجبور کر دے تو اللہ اس بنا پر کہ وہ مجبور کی گئی ہیں‘ بخش دینے والا اور مہربانی کرنے والا ہے‘‘۔ نبی کریمﷺ نے بنی نوع انسان کو قرآن مجید کی آیاتِ بینات کی روشنی میں یہ پیغام بھی دیا کہ سماجی زندگی میں اتار چڑھائو کے دوران انسان کو اپنی بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہیے۔ اگر رہنا ہو تو اچھے طریقے سے ساتھ رہنا چاہیے اور اگر علیحدگی اختیار کرنا ہو تو بھی احسان کے ساتھ علیحدگی کو اختیار کرنا چاہیے۔ کتاب وسنت کے مطابق اگرچہ طلاق ایک ناپسندیدہ عمل ہے لیکن پھر بھی اس کو اس لیے جائز قرار دے دیا گیا کہ کئی مرتبہ ایسی صورت پیدا ہو جاتی ہے کہ جب میاں بیوی کے اختلافات کو ختم کرنے کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی۔ ایسی صورت میں طلاق کے ذریعے مرد وزن میں ایک تفریق پیدا ہوتی اور دونوں کو نئی زندگی گزارنے کا موقع مل جاتا ہے۔ دنیا کے بہت سے مذاہب میں طلاق ایک ناجائز عمل ہے لیکن دنیا بھر کے سول قوانین میں اگر آج اس کو درجۂ قبولیت حاصل ہے تو اس کے پس منظر میں اسلامی تعلیمات کے گہرے اثرات موجود ہیں۔ اسلام دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جس نے دینی اعتبار سے اس عمل کو جائز قرار دیا۔
خاندانوں کی بنیاد محرم رشتے ہوا کرتے ہیں۔ ان رشتوں کی وجہ سے نئے خاندان معرضِ وجود میں آتے اور پرانے خاندانوں کو استحکام حاصل ہوتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کو نبی کریمﷺ کے قلبِ اطہر پر نازل فرمایا اور ان پر محرم رشتہ داروں کے حوالے سے بھی آیاتِ بینات کا نزول فرمایا۔ سورۃ النساء کی آیت: 23 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''حرام کی گئیں تم پر تمہاری مائیں اور تمہاری بیٹیاں اور تمہاری بہنیں‘ تمہاری پھوپھیاں اور تمہاری خالائیں اور تمہاری بھتیجیاں اور تمہاری بھانجیاں اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو اور تمہاری دودھ شریک بہنیں اور تمہاری ساس اور تمہاری وہ پرورش کردہ لڑکیاں جو تمہاری گود میں ہیں ان عورتوں سے‘ جن سے تم دخول کر چکے ہو‘ ہاں اگر تم نے ان سے جماع نہ کیا ہو تو تم پر کوئی گناہ نہیں اور تمہارے صلبی سگے بیٹوں کی بیویاں اور تمہارا دو بہنوں کا جمع کرنا‘ ہاں جو گزر چکا سو گزر چکا‘ یقینا اللہ بخشنے والا مہربان ہے‘‘۔ محرم رشتہ داروں سے متعلق ان تعلیمات نے نہ صرف یہ کہ مسلم سماج کی تشکیل میں نمایاں کردار ادا کیا بلکہ دنیا کے بہت سے دیگر سماج بھی ان تعلیمات سے مستفید ہوئے اور یوں خاندانی نظام کو استحکام حاصل ہوا۔
نبی کریمﷺ نے جنگ کے حوالے سے جو اصول مقرر کیے وہ یقینا جمیع انسانیت کے لیے رحمت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپﷺ نے دورانِ جنگ بوڑھوں‘ بچوں اور عورتوں کے قتل سے منع فرمایا اور خود بھی جب فاتح کی حیثیت سے مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو اس موقع پر مواخذہ کرنے کے بجائے عام معافی کا اعلان کر کے اس بات کو ثابت کر دیا کہ آپﷺ حقیقت میں عفو ودرگزر کی ایک عظیم مثال اور تمام جہانوں کے لیے رحمت ہیں۔ نبی کریمﷺ کی آفاقی تعلیمات کا ایک خوبصورت پہلو یہ ہے کہ آپﷺ نے دین اسلام کو کسی مخصوص علاقے یا قبیلے تک محدود نہیں رکھا بلکہ جمیع انسانیت کو ایمان وعمل کے راستے پر چلتے ہوئے دنیاوی اور اخروی نجات کے حصول کا حقدار قرار دیا۔ نبی کریمﷺ کی تعلیمات یقینا ہر عہد اور ہر علاقے کے انسان کے لیے رحمت کی حیثیت رکھتی ہیں۔ آپﷺ کا اسوہِ کامل اور سیرتِ طیبہ رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لیے فلاح کے حصول کا ایک عظیم ذریعہ ہے۔ نبی کریمﷺ کی سیرت مبارکہ سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے ہمیں آپﷺ کے پیغامِ رحمت کو عام کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کے نتیجے میں انسانیت ظلم‘ استبداد‘ انتقام اور جبر کے راستے پر چلنے کے بجائے رواداری‘ تحمل‘ پیار ومحبت اور عفو و درگزر کے راستے پر چلنے کے قابل ہو سکتی ہے۔
تقریب کے شرکا نے تمام مقررین کی باتوں کو خصوصی توجہ کے ساتھ سنا اور یوں یہ سیمینار اپنے جلو میں بہت سی خوبصورت یادوں کو لیے اختتام پذیر ہوا۔