وزیر دفاع اور وزیر پانی و بجلی جناب خواجہ آصف نے چند دن پہلے بھارت کے دفاع میں بیان دیتے ہوئے فرمایا ''ہماری تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ پاکستان میں سیلاب کا ذمہ دار بھارت نہیں، یہ محض بارشوں کا پانی تھا‘‘ ان کے بعد وزیر مملکت برائے پانی و بجلی عابد شیر علی نے بھی قومی اسمبلی کے فلور پر اسی طرح کے موقف کو دہرایا... یہ موقف اس وقت سامنے آئے جب سارے پاکستان کے لوگوں کا ذہن اس حقیقت پر مرتکز تھا کہ پاکستان میں سیلاب کی تباہی کا ذمہ دار بھارت ہے۔ سیلاب کے اثرات جیسے ہی ذرا مدھم پڑے تو ہمارے دونوں وزیروں نے جو سیلاب کی تباہی کے دوران خاموش رہے، اچانک بھارت کے دفاع میں بیانات دے دیئے۔ یوں انہوں نے حکومت کی پالیسی کا کھل کر اظہار کر دیا جس کا فائدہ بھارت نے اس طرح اٹھایا کہ اپنی بے گناہی کے لئے دونوں وزیروں کے بیانات کو اپنی ڈھال بنا لیا۔
اس ضمن میں ہم نے حقائق اکٹھے کئے تو معلوم ہوا کہ اس بار مقبوضہ کشمیر سے نکلنے والے تین دریائوں میں سیلاب آیا۔ یہ تین دریا جہلم، چناب اور راوی ہیں۔ پہلے ہم دریائے جہلم کے سیلاب کی بات کریں تو اس دریا کا آغاز مقبوضہ وادی کشمیر سے ہوتا ہے۔ وادی ایک پیالے کی شکل میں ہے جس کے اردگرد پہاڑ ہیں اور درمیان میں وادی ہے۔ اس وادی کی لمبائی لگ بھگ 80 کلومیٹر ہے جبکہ چوڑائی کہیں سے چالیس اور کہیں سے تیس کلومیٹر ہے۔ اس وادی کے پہاڑوں کا پانی بلندیوں سے پھسل کر ایک جھیل بناتا ہے جسے ''وولر‘‘ کہا جاتا ہے۔ اسی سے دریائے جہلم جو سرینگر شہر سے گزر کر آتا ہے آگے بڑھتا ہے۔ یہ جھیل دنیا میں تازہ پانی کی سب سے بڑی جھیل ہے۔
مقبوضہ وادی کے اوپر ایک اور دریا ''بہ‘‘ رہا ہے۔ بھارت اسے ''کشن گنگا‘‘ کہتا ہے۔ ہم اسے نیلم کہتے ہیں۔ بھارت نے اس دریا کے پانی کو کشن گنگا ڈیم کے ذریعے روکا اور پہاڑ میں 27کلومیٹر لمبی سرنگ کھود کر اس کا پانی بھی ''وولر جھیل‘‘ میں ڈال دیا۔ یاد رہے حالیہ بارشوں میں جب وولر جھیل کا پانی بہت زیادہ ہو گیا تو چونکہ وادی سے نکاس کا راستہ ایک ہی ہے اور وہ قدرتی پانی کے مطابق ہے لیکن جب بھارت کے ڈبل کئے ہوئے پانی کو یہ راستہ نکال نہ سکا تو پوری وادی پانی میں ڈوب گئی، خاص طور پر سری نگر کے نشیبی علاقے 22 فٹ تک پانی میں ڈوب گئے۔ بھارت نے ظلم کی یہ حد کی کہ کشمیریوں کو چڑھتے پانی کی بھی اطلاع نہیں دی۔ اس پر بھارتی سپریم کورٹ نے اپنا حکم سنایا ہے کہ جب حکومت کشمیریوں کو ڈوبنے اور مرنے سے بچا سکتی تھی تو اس نے ایسا کیوں نہ کیا۔ بھارت نے اب تک سیلاب زدہ کشمیریوں کو تڑپ تڑپ کر مرنے کے لئے چھوڑ رکھا ہے۔ بہرحال یہ سارا سیلابی پانی مل ملا کر جب آگے بڑھا تو مظفر آباد سے آگے ''منگلا ڈیم‘‘ میں آکر سٹور ہو گیا۔ وہاں سے وقفے وقفے سے زائد پانی چھوڑا گیا اور پاکستان دریائے جہلم کے سیلاب سے بچ گیا۔
اب ہم دریائے راوی کی بات کرتے ہیں۔ ''ہماچل پردیش‘‘ جو بھارت کی ریاست ہے، اس کے بلند پہاڑی سلسلے سے اس کا آغاز ہوتا ہے، چوٹی کے ایک جانب کا پانی راوی کی شکل اختیار کرتا ہے اور دوسری جانب کا پانی دریائے چناب کا نام حاصل کرتا ہے۔ دریائے راوی آگے بڑھتا ہے۔ اب پہاڑی علاقوں میں بھارت نے اس پر دو ڈیم بنائے ہیں، پہلے ''کامیرا ڈیم‘‘ ہے اور پھر ''رنجیت ساگر ڈیم‘‘ ہے۔ آخری ڈیم سے آگے جب راوی بڑھتا ہے تو 20کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے ''مادھو پور ہیڈ ورکس‘‘ تک آ جاتا ہے۔ یہاںسے بھارت نے نہریں نکال رکھی ہیں جو بھارت کے علاقوں کو سیراب کرتی ہیں۔ آگے دریا 45کلومیٹر تک مزید بھارت کے میدانی علاقے میں چلتا ہے اور پھر 80کلومیٹر تک پاک بھارت بارڈر کے ساتھ ساتھ کبھی اِدھر اور کبھی اُدھر چلتا ہے۔ بھارت نے یہاں باڑیں لگا کر اربوں روپیہ خرچ کر رکھا ہے۔ اب سیلاب تو راوی میں بھی آیا مگر بھارت نے اپنے دونوں ڈیموں میں پانی روک لیا اور وقفے وقفے سے اس قدر چھوڑا کہ سیلابی کیفیت پیدا نہ ہو کیونکہ اگر یہاں ریلے چھوڑے جاتے تو ڈیڑھ سو کلومیٹر کے قریب بھارت کا وسیع زرخیز علاقہ تباہ ہو جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ راوی جو نارنگ سے پاکستان میں داخل ہو کر لاہور کو چھو کر نکل جاتا ہے اس میں سیلاب نہ آیا۔ وجہ یہ تھی کہ وہ بھارت کے مفاد میں نہ تھا۔
اب آتے ہیں ہم چناب کی طرف... یہ ''ہماچل پردیش‘‘ کے دوسری جانب چلتا ہے۔ بھارت نے اس پر کئی ڈیم بنا رکھے ہیں۔ سب سے بڑا ڈیم ''بگلیہار ڈیم‘‘ ہے۔ اس میں 13کلومیٹر تک پانی سٹور کیا جاتا ہے۔ اس کے چار گیٹ ہیں، جہاں سے ایک ساتھ چھ لاکھ کیوسک پانی چھوڑا جا سکتا ہے... یاد رہے ایک مربع فٹ کے پائپ میں سے ایک سیکنڈ کے اندر جتنا پانی تیزی کے ساتھ گزرتا ہے اسے ایک کیوسک کہا جاتا ہے۔ یہ پانی کی پیمائش کا پیمانہ بنایا گیا ہے۔ اب اندازہ لگائیں کہ چھ لاکھ کیوسک کے اگر یکے بعد دیگرے ریلے چھوڑے جائیں تو آگے کیا بنے گا؟ جی ہاں! ہم آگے بڑھتے ہیں تو اس دریا پر جو سندھ طاس معاہدے کے مطابق پاکستان کادریا ہے اور بہتے پانی پر بھارت ڈیم بنا کر پانی سٹور نہیں کر سکتا۔ اس دریا کے بارے میں بھارت نے تو حد کر دی کہ یہاں پانی سٹور کرنے کے بعد اس نے آگے ایک اور ڈیم بنا دیا۔ اس کا نام ''سلال ڈیم‘‘ ہے۔ اس کے بارہ گیٹ ہیں اور یہاں سے آٹھ لاکھ کیوسک پانی کا ریلا چھوڑا جا سکتا ہے۔ یہاں ایک فنی سوال پیدا ہوتا ہے کہ سلال ڈیم کے بعد تو یہ پانی پاکستان میں داخل ہو گا لہٰذا 12گیٹ بنانے کا کیا مطلب ہے؟ صاف طور پر سمجھ میں آ رہا ہے کہ پیچھے پانی زیادہ سٹور کر لیا گیا اور بارہ گیٹ کھول کر آٹھ لاکھ کیوسک کے ریلے چھوڑے گئے تو چناب کا سیلاب آنے والے وقتوں میں پاکستان کے شہروں، قصبوں، دیہات اور فصلوں کو کچرا بنا کر رکھ دے گا۔
یہ دریائے چناب مقبوضہ جموں میں اب داخل ہوتا ہے اور بھارتی علاقے اکھنور سے ہوتے ہوئے پاکستان کے شہر سیالکوٹ کے قریب سے گزرتا ہے۔ یہ دریا بھارت کے پہاڑی علاقے سے نکل کر فوراً پاکستان کے میدانی علاقے میں چلنے لگ جاتا ہے۔ یوں اس پر پاکستان ڈیم نہیں بنا سکتا کہ ڈیم کے لئے درکار مناسب سائٹ ہی پاکستان کے پاس میسر نہیں لہٰذا پاکستان کا یہ کمزور پہلو ہے جس سے بھارت فائدہ اٹھا کر پاکستان کو سیلاب سے دوچار کرنے کی بہترین جارحانہ پوزیشن میں ہے۔ اس کے بعد یہ دریا ہیڈ مرالہ پر آتا ہے تو وہاں اس کا پانی نہروں کے ذریعے سے تقسیم کر دیا جاتا ہے۔
بتلانا ہم یہ چاہتے ہیں کہ سیلاب تو راوی اور جہلم میں بھی آیا مگر راوی میں سیلاب بھارت کے مفاد کے خلاف تھا اس لئے ہم بچ گئے۔ جہلم کا سیلاب منگلا نے روک لیا، اب چناب کا پانی ہمیں ڈبو گیا... یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ جمعہ کے دن سے پہلے ہیڈ مرالہ پر ساڑھے تین لاکھ کیوسک پانی تھا، رات کو ساڑھے سات لاکھ کیوسک ہو گیا اور ہفتے کی رات پونے آٹھ لاکھ کیوسک ہو گیا یعنی 24گھنٹے میں نارمل سے تین گنا بڑھ گیا۔ چھ ستمبر کو چھوڑے گئے ان ریلوں نے تباہی مچا دی۔ بھارت نے معاہدے کے مطابق ہمیں وقت سے پہلے باخبر بھی نہ کیا... وہ ہمیں ٹیلی میٹری سسٹم بھی نہیں لگانے دیتا کہ ہم ہماچل سے چلتے ہوئے دریائے چناب کو ہیڈ مرالہ تک مانیٹر کر سکیں۔ یہ صریحاً ناانصافی اور ہمیں ڈبونے کی بدنیتی ہے وگرنہ ٹیلی میٹری سسٹم کیوں نہیں لگانے دیتا؟ حالانکہ سندھ طاس معاہدے کی رو سے بھارت دریائوں میں پانی کے بہائو کا حساب دینے کا پابند ہے۔ مذکورہ سسٹم کے تحت انجینئرز بارشوں کا حساب لگا کر گھنٹے گھنٹے کے پانی کا حساب لگاتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اتنے لاکھ کیوسک فلاں فلاں علاقے میں ہو گا۔ اس حساب سے پانی کو آگے سے آگے منتقل کیا جاتا ہے اور یوں سیلاب سے بچا جاتا ہے۔ بھارت نے اپنے اس حساب سے ہمیں غافل کر رکھا ہے۔ ہمیں سسٹم لگانے نہیں دیتا لہٰذا اس بار ہمارے کسان تباہ ہو گئے، مونجی کی فصل برباد ہو گئی، 15ارب ڈالر کا ہمارا نقصان ہوا۔ میں سمجھتا ہوں سیالکوٹی وزیر پانی و بجلی کو بھارت سے 15ارب ڈالر کے ہرجانے کی بات کرنی چاہئے تھی اور ٹیلی میٹری سسٹم لگانے کی بات کرنی چاہئے تھی مگر ہائے افسوس! خواجہ آصف اپنے فرض کو ادا کرنے کے بجائے بھارت کا دفاع کرنے میں لگ گئے۔ اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔