پاکستان ہم سب اہل پاکستان کا گھر ہے ۔ اس گھر کے سربراہ میاں محمد نواز شریف ہیں ۔ آئینی اور اخلاقی طور پر سب سے زیادہ فکر مند انہیں ہی ہونا چاہیے ۔ اپنے اللہ کے سامنے اور عوام کے سامنے سب سے زیادہ جوابدہی کا خوف انہیں ہی دامنگیر ہونا چاہیے ۔ اچھا گمان رکھتے ہوئے ہمیں یہی کہنا چاہیے کہ انہیں اس کا احساس ہے ۔ اپنے اس احساس کا اظہار انہوں نے کراچی میں اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں بھی کیا ہے۔ میاں صاحب کے بعد سب سے زیادہ جس شخصیت کو احساس ہونا چاہیے وہ جناب آصف علی زرداری ہیں، اس لیے کہ پیپلز پارٹی اپوزیشن پارٹی ہے اور سندھ میں حکمران بھی۔ ملک کے سب سے بڑے آئینی ادارے سینٹ کی چیئرمین شپ بھی اسی کے پاس ہے ۔ سندھ اور بطور خاص کراچی اور حیدر آباد میں دیکھیں تو دوسرے نمبر پر آئینی اور اخلاقی ذمہ داری ایم کیو ایم پر عائد ہوتی ہے کہ صوبے کی گورنر شپ ان کے پاس ہے اوردونوں شہروں میں پارلیمانی طاقت بھی ان کے پاس ہے ۔ ملک کے اندر امن وامان کی ذمہ داری پولیس پر عائد ہوتی ہے ۔ عدلیہ کا عدل وانصاف بھی اس کا ذمہ دار ہے ۔ انٹیلی جنس ادارے آئی بی ، ایف آئی اے اور سپیشل پرانچ بھی ذمہ دار ہیں ۔ یہ سب سول ادارے ہیں ۔ اب سوال یہ ہے کہ اس گھر کے سربراہ کچھ عرصہ قبل یوسف رضا گیلانی ہوا کرتے تھے اور اب جناب نواز شریف ہیں۔ ان دونوں سربراہوں کے دور میں ہمارا پیارا گھر اس سطح تک کیوں پہنچ گیا اور کیسے پہنچ گیا کہ دہشت گرد
ہر جانب دندنارہے تھے ۔ نہ مسجد محفوظ رہی اور نہ گرجا ، نہ مارکیٹ بچی اور نہ پاکستان کے کسی طبقے کے عوام وخواص کی زندگی ، نہ جان کی حرمت بچی اور نہ مال وآبروکی حفاظت ، عورتیں اور سکولوں میں معصوم بچے تک بھون ڈالے گئے ۔ آگ میں بھسم کر دئیے گئے ۔ بوریوں میں بند لاشوں کا معاملہ عام ہوگیا ۔ اغوا اور بھتہ خوری کا کلچر اس طرح پھیل گیا، جیسے اسے ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کر لیاگیا ہو۔ جب ایسے حالات بن گئے تو ہم اہلِ پاکستان کے پیارے گھر کے بارے میں گفتگو شروع ہوگئی کہ یہ بچ بھی پائے گا یا نہیں ...؟
صاف اور سامنے کی بات ہے کہ جو آئینی اور اخلاقی طور پر ذمہ دار تھے، وہ ناکام ہوگئے ۔ ذرا سوچیے!یہ ناکامی یونہی چلتی رہتی تو آج ہمارا گھر اور ہم گھر والے کہاں ہوتے ؟جی ہاں !ہم وہیں ہوتے جہاں آج افغانستان ، لیبیا ، عراق ، اور شام کے لوگ ہیں؛ چنانچہ کچھ لوگ آگے بڑھے۔ وہی آگے بڑھے جو ایسے مواقع پر ہمیشہ آگے بڑھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم ناکام ہوگئے ہو۔ اب ہم سارا کچھ خود ٹھیک کرتے ہیں۔ نئے آنے والے ٹھیک کرپاتے ہیں یا نہیں یا کتنا ٹھیک کرتے ہیں اور کس قدر خراب کرتے ہیں یہ ایک الگ موضوع ہے ۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس بار ان لوگوں نے ایسا نہیں کیا اور نہ کرکے بہت اچھا کیا ۔ ان لوگوں نے، جو پاکستان کی سرحدوں کے محافظ ہیں ، گھر کے سربراہ کو حالات کی سنگینی سے آگاہ کیا اور پھر سب نے رینجرز کو پولیس کے اختیارات دے دیئے جبکہ فوجی عدالتیں قائم کرکے ایک حد تک عدل کی ذمہ داری بھی فوج کے سپرد کر دی گئی ۔ اپیکس کمیٹی بھی قائم کر دی گئی جس کا مقصد یہ تھا کہ سول اور فوج کے لوگ مل کر شفافیت کے ساتھ ملک کے امن وامان کو بہتر کریں۔ لامحالہ یہ بندوبست محدود مدت کے لیے قائم کیاگیا تھا ۔ مستقل نہیں تھا ۔
اب فوج اور رینجرز نے دن رات ایک کردیا ۔ جوانوں نے قربانیوں کی تاریخ رقم کردی ۔ کراچی اور بلوچستان میں جوانوں کی لاشیں گریں اور وہاں کے باسیوں کو امن دے گئیں ۔ ملک کی تنصیات پر حملے ہوئے تو جوانوں نے دلیری کے ساتھ آگے بڑھ
کر اپنا خون پیش کیا اور یوں ملک میں 20کروڑ لوگوں نے امن کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا، یعنی فوج نے اپنے حصے کا کام کرکے دکھلا دیا ۔ اختیارات حاصل کیے تو ان اختیارات کا پھل قوم کے سامنے طشتری میں سجا کر رکھ دیا ۔ امن کی یہ طشتری اور رکابی ہر کسی کو نظر آرہی ہے۔ اس دوران سول حکمرانوں کا ایک فرض تھا کہ وہ عدلیہ کے نظام کو بہتر کرتے، استغاثہ کو مضبوط بنیاد فراہم کرتے، مجرم پراسیکیوشن کی کمزوری سے بچ کر نکلنے نہ پاتے ۔وہ اس پر قانون سازی کرتے پولیس کو غیر سیاسی کرتے ۔ اس کو بہتر سے بہتر بناتے۔ اگر کہیں ایک قدم اور آگے بڑھتے تو مجرموں کو سرعام پھانسی پر لٹکانے کا قانون بنادیتے اور سول و دہشت گردی کی عدالتوں سے سزا پانے والے دہشت گردوں کو سرعام لٹکادیتے، یعنی حکومتی اداروں کی جزوی ناکامی یا کمزوری کی وجہ سے جو اختیارات رینجرز اور فوج کے پاس گئے تھے، عوام کو نظر آتا کہ ان اختیارات کا حق اب سول اداروں نے ادا کرنا شروع کر دیا ہے لہٰذا اب فوج اور رینجرز کی ضرورت نہیں رہی ۔ اس پر کالم لکھے جاتے، حکومت کی تعریف ہوتی ۔ ہر ایک کی زبان پر ہوتا کہ حکومت نے اپنی کمزوریوں کو دور کر لیا ہے، اچھی حکمرانی کا نظارہ کروا دیا ہے، تو میاں صاحب کی حکومت اور سیاستدان بہت مضبوط ہو جاتے ۔ ہمارا پیارا گھر پاکستان مستحکم ہو جاتا اور گھر کا رکھوالاجسے، وزیر اعظم کہتے ہیں، وہ بے حد طاقتور ہو جاتا ۔
مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسا نہ ہو سکا۔ حکومت اچھی
حکمرانی قائم نہ کرسکی اور رینجرز کو اختیارات دینے کی اگلی مدت کے لیے بھی لیت ولعل سے کام لینے کا عمل شروع ہوگیا ۔
قومی منظر نامے پر سول حکمرانی مضبوط ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ بلدیاتی انتخابات نے بھی اس کی گواہی دے دی ہے ۔
امریکہ کے دورے نے بھی منظر واضح کردیا ہے ۔ سشما سوراج کی اسلام آباد آمداوراشرف غنی کی تشریف آوری نے بھی بہت کچھ پیغام دے دیا ہے ۔ تحریکِ انصاف اقتدار کا گوشت کھاتے کھاتے گھر کی دال پر ہی لڑائی میں مصروف ومشغول ہوگئی ہے ۔ معاملہ یہی رہا تو نظر یہ آرہا ہے کہ جنرل راحیل شریف اب اپنی مدت خوش اسلوبی سے پوری کریں گے ۔ مفاداتی جمود کا انداز برقرار رہے گا ۔ وہ جمود کہ جسے انگریزی میں ''سٹیٹس کو ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ اگلایعنی 2018ء کا الیکشن بھی میاں نواز شریف صاحب کروائیں گے ۔ موجودہ حکمران ہی حکمرانی کریں گے۔ شاید اس میں اتنی سی ترمیم ہوجائے کہ اے این پی بھی، جو پیچھے رہ گئی ہے، قافلے میںشامل ہوجائے ۔ اگر ایسا ہو گیا تو ''سٹیٹس کو‘‘ زندہ باد مگر سوال پھر یہی ہو گا کہ دہشت گردی کے خاتمے کی فکرکون کرے گا؟ آئینی اور اخلاقی ذمہ داری کا غم کون کھائے گا؟ یہاں تو امن وامان کی صورت حال یہ ہے کہ سلمان غنی، رانا عظیم اور انیق ناجی جیسے اثرورسوخ رکھنے والے صحافی سرعام ڈاکوئوں سے لٹتے ہیں۔ عوام کا کیا حال ہو گا ؟ ان سب کا غم کون کھائے گا۔ان کا پُرسان حال کون ہو گا۔ ہمارے گھر پاکستان کے ایک سابق رکھوالے یوسف رضا گیلانی کا لخت جگر علی حیدر دہشت گردوں کے پاس ہے ۔ نئے رکھوالے نے اس کا کیا کیا ہے ؟ کیا اس کو برآمد کروایا ہے ؟ پھر عوام کیاسوچیں کہ ان کے تحفظ کی فکر کون کرے گا ؟مجھے ڈر یہ ہے کہ ہمارے تحفظ کی فکر سے غفلت، دہشت گردی کے سدباب سے پہلو تہی اور اچھی حکمرانی سے مسلسل کوتاہی کہیں وہ دن نہ دکھلا دے کہ جہانگیر کرامت نہ سہی تو مشرفانہ گرفت، اور اب راحیل شریف کی شرافت نہ سہی، تو پھر آئندہ کسی اور کی کڑواہٹ مفادانی سیاست کے جمود کا مزہ کرکرا کردے؟