مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے سعودی وزیر خارجہ سے ملاقات کے بعد میڈیا کو بتایاکہ وقت پڑنے پر پاکستان، سعودی عرب اور ایران کے مابین ثالث کا کردار ادا کر سکتا ہے۔ پاکستان عالم اسلام کا واحد ملک ہے جو ایٹمی قوت کا حامل ہے۔ اس کی فوج بھی اسلامی دنیا کی مانی ہوئی صف اول کی فوج ہے اور جنرل راحیل شریف کو دنیا بھرکے موجودہ جرنیلوں میں نمایاں بلکہ سرفہرست مقام حاصل ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ عسکری قوت کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے خلاف ذہانت و مہارت میں بھی پاکستان دنیا میں اول نمبرپر ہے۔ اس لحاظ سے ہمیں ثالثی میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے بلکہ کوشش کر کے ثالثی کے ٹائم کو قریب کرنا چاہئے۔ قریب کرنے کے لئے ہمیں ترکی کی مدد اور تعاون بھی حاصل کرنا چاہئے۔
پاکستان مشرق میں تو ترکی مغرب میں ایران کا پڑوسی ہے۔ دونوں طاقتور اور رسوخ کے حامل ممالک ہیں۔ طیب اردوان کی دانشوری کو دنیا نے تسلیم کر رکھا ہے جبکہ میاں نواز شریف کی طبیعت بھی بین الاقوامی اور قومی معاملات میں صلح کن ہے چنانچہ میری رائے میں میاں نواز شریف، رجب طیب اردوان اور جنرل راحیل شریف پر مبنی سہ رکنی ثالثی کمیٹی تشکیل دینی چاہئے۔ دیگر مسلمان ملکوں سے رابطہ کر کے انہیں بھی اعتماد میں لیا جائے اور اس کمیٹی کے لئے مسلم دنیا کے ملکوں کی تائید اور حمایت حاصل کی جائے تاکہ اس کمیٹی کی اہمیت اور معتبری مسلم ہو جائے۔
معزز ممبران کے سامنے اللہ کا یہ فرمان نگاہ میں رہنا چاہئے۔ فرمایا: ''اے ایمان والو اللہ کی خاطر سچ پر ڈٹ جانے والے بنے رہو۔ انصاف کی گواہی دینے والے بنو اور تمہیں بعض لوگوں کی دشمنی اس مقام تک نہ لے آئے کہ تم عدل نہ کر سکو۔ عدل ہی کرو، پرہیزگاری کے سب سے زیادہ قریب یہی عمل ہے لہٰذا اللہ سے ڈرتے رہو‘‘ (المائدہ: 8) اس پر اللہ کے رسولﷺ کے صحابہ کا عمل دشمنوں کے معاملے میں بھی کس قدر انصاف پر مبنی تھا کہ مخالف بھی عش عش کر اٹھے۔ ابن حبان اور ابو دائود میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن رواحہؓ جنہیں اللہ کے رسولﷺ نے خیبر کے یہود کی فصلوں اور پھلوں کا نگران بنا رکھا تھا۔ انہوں نے یہود کو مخاطب کر کے کہا کہ ہمارے پیارے نبیﷺ اور ہم مسلمانوں کے خلاف تمہارے جرائم اپنی جگہ پر، میری تم سے دشمنی اپنی جگہ پر لیکن تمہارے ساتھ عدل ہو گا۔ کوئی ناانصافی نہ ہو گی؛ چنانچہ ان کا عادلانہ رویہ دیکھ کر یہودی پکار اٹھے کہ ''بِھٰذَاقَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ‘‘ اسی عدل کی وجہ سے آسمان اور زمین قائم ہیں۔
سعودی عرب اور ایران کے مابین چپقلش کا جہاں سے آغاز ہوا وہ ایک شیعہ عالم شیخ نمر کا سعودیہ میں سر قلم کیا جانا ہے۔ اس پر ایران نے شدید ردعمل کا اظہار کیا‘یوں شیعہ سنی چپقلش نمایاں ہو کر سامنے آئی۔ ایران کا اس قدر شدید ردعمل اس لحاظ سے محل نظر تھا کہ سعودی عرب میں جن 47 افراد کو ریاست کے خلاف جرم اور دہشت گردی کے الزام میں عدالت کی طرف سے سزائے موت دی گئی، ان میں 40 سنی اور صرف 7 شیعہ تھے۔ ہم سمجھتے ہیں شیعہ سنی چپقلش کا احتجاج کے ذریعہ نمایاں ہونا کسی کے بھی مفاد میں نہیں لہٰذا اس سے مکمل اجتناب ضروری ہے اور کسی مرحلے پر بھی ایسے طرز عمل کا اظہار کسی بھی جانب سے نہیں ہونا چاہئے۔ کمیٹی کو مستقبل میں ایسے طرز عمل سے اجتناب کا مشورہ دینا چاہئے۔
شیخ نمر کی سزائے موت پر ایران کے ردعمل سے دنیا کو بظاہر یہ نظر آیا کہ ایران میں کسی سنی عالم کوکبھی سزائے موت نہیں دی گئی۔ کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو سنی اکثریت کے حامل ملکوں کی طرف سے بھی ماضی میں ایسا کوئی احتجاجی ردعمل ہوتا۔ چونکہ ردعمل نہیں ہوا اس لئے ایران کا دامن ایسے واقعات سے پاک ہے۔ حالانکہ حقائق کچھ اور ہیں، تاہم ہم سمجھتے ہیں کمیٹی کو پہلا کام یہ کرنا چاہئے کہ سعودی عرب میں جن شیعہ علماء کو موت کی سزا دی گئی ہے ان کی فہرست حاصل کرے۔ اسی طرح ایران میں جن سنی علماء کو قتل کیا گیا یا پھانسی دی گئی ہے ان کی بھی فہرست حاصل کرے۔ پھر ان علماء پر جو الزامات عائد کئے گئے ہیں‘ان کا عدل کے ساتھ جائزہ لیا جائے۔ سب سے بڑا ثبوت ان علماء کی تقریروں اور تحریروں سے حاصل کیا جائے۔ اگر محض مسلکی تعصب کی وجہ سے کسی کو قتل یا پھانسی دی گئی ہے تو ایسا کرنے والے ملک کو قصوروار گردانا جائے اور اگر بغاوت یا دہشت گردی کا معاملہ ثابت ہو تو مذکورہ ملک کو حق بجانب قرار دیا جائے۔ اس سے دو کام ہوں گے ہر ملک میں مقتول علماء کی تعداد بھی سامنے آ جائے گی اور ہر عالم کا کردار بھی سامنے آ جائے گا نیز عدالتوں کے فیصلوں سے جن علماء کو پھانسی وغیرہ کی سزائیں ہوئی ہیں ان کی فہرست الگ ہو اور ریاست نے ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے جن کو مارا ہے ان کی فہرست الگ بننی چاہئے۔ ایسا ہونے سے آئندہ کے لئے قتل کرنے کا دروازہ بند ہو جائے گا اور کشیدگی ختم ہو جائے گی۔ (ان شاء اللہ)
میں سمجھتا ہوں کہ شدید کشیدگی سے ہٹ کر جو تعلقات چلے آ رہے تھے ان کی وجہ یہ تھی کہ کوئی حکومت دوسری حکومت کے اقدامات پر احتجاج نہ کرتی تھی۔ اسے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت سمجھا جاتا تھا لہٰذا سطح کے نیچے لہریں تو موجود تھیں مگر سطح پر سکوت تھا۔ اب یہ سکوت شیخ نمر کی پھانسی پر احتجاج کی صورت میں ٹوٹ چکا ہے تو ثالثی کمیٹی اسی مسئلے کو بنیاد بنائے اور اسے دونوں ملکوں میں علماء کے قتل اور پھانسیوں کا جائزہ لینا چاہئے اور جس کا جتنا قصور ہے اس پر واضح بھی کرنا چاہئے اور آئندہ کے لئے ضابطہ اخلاق بھی مرتب کرنا چاہئے۔ خلاف ورزی پر کمیٹی کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ سعودی عرب میں شیعہ رہتے ہیں تو ایران میں بھی سنی رہائش پذیر ہیں۔
سعودیہ کے صوبہ قطیف میں شیعہ بڑی تعداد میں ہیں تو ایران کے علاقوں کردستان، بلوچستان، سیستان اور خوزستان میں سنی اکثریت میں ہیں۔ کمیٹی اس بات کا بھی جائزہ لے کہ سعودیہ میں حج کے دوران جو مظاہرے ہوئے یا ملک کے دیگر مقامات پر ہوئے۔ اسی طرح ایران کے علاقے آبادان وغیرہ میں مظاہرے ہوئے۔ ان کے پیچھے کس کس کی مداخلت ہے؟ اس مداخلت کے بھی ثبوت حاصل کئے جائیں اور پھر آئندہ کے لئے عدم مداخلت کا ضابطہ اخلاق طے کر دیا جائے باقی جہاں تک سعودیہ کا سفارتخانہ اور مشہد میں قونصلیٹ جلانے کا واقعہ ہے اس کی ساری دنیا نے مذمت کی ہے۔ خود ایران کو بھی اس کا احساس ہوا اور اس نے ذمہ داران کے بارے میں اقدامات کرنے کی بات کی ہے۔ ریاض سے جو ایرانی سفیر واپس اپنے ملک گئے ہیں انہوں نے بھی تہران ایئرپورٹ اترتے ہی اپنے ملک میں ہونے والے اس واقعہ کو ناپسندیدہ قرار دیا ہے۔ کمیٹی اس پر بھی بھرپور انداز میں سٹینڈ لے۔ہم سمجھتے ہیں ابتدائی طور پر اگر مذکورہ تین معاملات پر عدل کے ساتھ مصالحت کرا دی جائے اور سفارتی تعلقات بحال کرا دیئے جائیں تو اس کے بعد یمن اور شام جیسے گمبھیر مسائل بھی حل ہو سکتے ہیں۔ ہم اس سے پہلے حضرت حسنؓ کے کردار پر مشتمل کالم لکھ چکے ہیں۔ کمیٹی دونوں کے سامنے حضرت حسنؓ کے کردار کو پیش کر کے اخلاقی طور پر صلح کو یقینی بنا سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے سب کے لئے توفیق کی دعا ہے۔