رمضان المبارک کے آخری عشرے (دس دنوں) میں‘ میں نے اپنے کالم کا جو عنوان رکھا ہے، اس کا پس منظر میرے پیارے حضورﷺ کی پاک سیرت کا ایک ایسا نورانی گوشہ ہے کہ جس سے آپ کے ان ناموں سے عفوو کرم کی دھنک اور قوسِ قزح بنتی ہے جن ناموں کا اللہ نے اپنے قرآن میں ذکر فرمایا ہے۔ یہ اسمائے گرامی ''رئوف‘‘ اور ''رحیم‘‘ ہیں۔ قارئین، آیئے! اب سیرت کا نورانی گوشہ ملاحظہ کرتے ہیں!
اللہ کے رسولﷺ اور مکہ کے قریشی سرداروں کے درمیان جناب ابو طالب ایک ڈھال تھے۔ وہ فوت ہو گئے اور یہ ڈھال ٹوٹ گئی۔ قریش کا ستانا بڑھ گیا، چند دن گزرے تھے کہ حضرت خدیجہؓ کا بھی انتقال ہو گیا۔ قریش کا ستانا مزید بڑھ گیا۔ حضرت خدیجہؓ کی وفات کو تین ماہ ہونے کو آئے تھے، حضورﷺ نے اب طائف جانے کا فیصلہ کیا کہ وہاں کے بڑے لوگوں کو اسلام کی دعوت دی جائے۔ وہ دعوت قبول کر لیں تو طائف جو ایک تجارتی مرکز بھی ہے۔ زراعت اور پھلوں سے لدا اہم شہر اور موسم کے لحاظ سے بھی خوشگوار ہے، اسے اسلامی جدوجہد کا مرکز بنا دیا جائے چنانچہ آپﷺ نے چاروں بیٹیوں کو الوداع کہا۔ حضرت زینبؓ شادی شدہ تھیں، وہ اپنے خالہ زاد ابو العاص بن ربیع کے گھر آباد تھیں۔ حضرت خدیجہؓ نے اپنے ہاتھوں ان کے ہاتھ پیلے کر دیئے تھے۔ باقی تین بیٹیاں حضرت ام کلثومؓ، حضرت رقیہؓ اور سب سے چھوٹی اپنے بابل کی پیاری فاطمہؓ کو اللہ کے رسولﷺ نے گھر میں چھوڑا اور اللہ کے دین کی دعوت کو چل کھڑے ہوئے۔ حضرت زیدؓ بن حارثہ کو ہمراہ لے لیا۔ مکہ والوں سے اپنے پروگرام اور اس سفر کو خفیہ رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ حضورﷺ نے سواری بھی نہ لی اور پیدل ہی چل دیئے۔ یوں 106 کلومیٹر کا سفر ہمارے حضورﷺ نے پیدل طے کیا اور طائف پہنچے۔ امام ابن سعد ''طبقات‘‘ میں لکھتے ہیں کہ حضورﷺ نے دس دن طائف میں قیام فرمایا۔ امام قسطلانی ''المواہب‘‘ میں لکھتے ہیں کہ طائف میں تشریف لانے اور واپس مکہ جانے میں 20دن لگ گئے یوں طائف کا سفر ایک مہینہ پر مشتمل تھا۔
طائف میں قیام کے دوران حضورﷺ صورتحال کا جائزہ لیتے رہے، ملاقاتیں کرتے رہے اور پھر بنوثقیف جو طائف کا صاحبِ اقتدار قبیلہ تھا اس کے سرداروں کے پاس پہنچے۔ یہ تین بھائی عبدیالیل، حبیب اور مسعود تھے۔ اللہ کے رسولﷺ نے ان کو اسلام کی دعوت دی اور بتایاکہ میں اللہ کا رسولﷺ ہوں، قریش کے بارے میں بھی بتلایا کہ انہوں نے نہ صرف توحید کی دعوت کو قبول نہیں کیا بلکہ ستانے کی حد کر دی ہے۔ آپﷺ کی گفتگو کو سننے کے بعد تینوں نے حضورﷺ کی دعوت کو ماننے سے انکار کر دیا۔ ان میں سے ایک انتہائی تکبر میں آ کر کہنے لگا، اگر اللہ نے آپ کو رسول بنایا ہے تو میں کعبے کا غلاف پھاڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دوں گا۔ دوسرا کہنے لگا، اللہ کو آپ کے علاوہ کوئی اور نہیں ملا جسے وہ رسول بناتا؟ تیسرا کہنے لگا، میں آپ سے کوئی بات ہی نہیں کروں گا۔ اللہ کے رسولﷺ نے تینوں کا جواب سنا اور یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے، تم نے اپنا جو کردار ادا کرنا تھا وہ کر چکے۔ اب صرف میری اتنی بات مان لو کہ میرے بارے میں (اس مجلس کے متعلق) بات اپنے تک ہی رہنے دو۔ آپﷺ نے یہ آخری بات اس لئے کی کہ اگر قریش کو اس کے بارے میں معلوم ہو گیا تو ان کا گھمنڈ اور ایذا رسانی مزید بڑھ جائے گی مگر ان تینوں بھائیوں نے یہ بات بھی نہ مانی بلکہ الٹا مذاق اڑایا اور اس مجلس کی روداد کو سارے ثقیف قبیلے میں پھیلا دیا (سیرت ابن ہشام) انہوں نے یہ بھی کہا کہ آپ کو آپ کے شہر مکہ والوں اور آپ کے لوگوں نے پسند نہیں کیا۔ آپ کے پیغام کو نہیں مانا تو ہمارے پاس چلے آئے۔ ہم اللہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ہم آپ کی نبوت کو نہ ماننے، آپ کی دعوت کو رد کرنے اور آپ کو نقصان پہنچانے میں اہل مکہ سے بھی بڑھ کر سخت ہیں (انساب الاشراف)
اور پھر ان ظالموں نے اپنے کہنے کے مطابق ہی کر ڈالا۔ انہوں نے اپنے نادانوں، شرپسندوں اور غلاموں کو حضورﷺ کے پیچھے لگا دیا۔ وہ آپ کو برا بھلا کہنے لگے۔ آپ پر آوازیں کسنے لگے۔ راستے میں دونوں جانب قطاریں بنا کر کھڑے ہو گئے۔ جب حضورﷺ یہاں سے گزرنے لگے تو انہوں نے پتھر مارنا شروع کر دیئے۔ یہ شرپسند حضورﷺ نبی کریم کے مبارک قدموں اور ٹانگوں پر پتھر مار رہے تھے۔ آپﷺ جونہی ایک قدم اٹھاتے، دوسرا آگے رکھتے تو یہ پتھر برساتے۔ اس کے ساتھ ہی آپﷺ کا مذاق اڑاتے (انساب الاشراف، دلائل النبوۃ) جب آپ کو شدید درد ہوتا تو تکلیف کے باعث زمین پر بیٹھ جاتے، شرپسند بازوئوں سے پکڑ کر دوبارہ کھڑا کر دیتے، آپ چلتے تو پھر پتھر مارتے اور وہ شرپسند آپ کی تکلیف کو دیکھ کر ہنستے، اس سے حضورﷺ کی پنڈلیاں اور پائوں مبارک لہولہان ہو گئے۔ نعلین مبارک خون میں لت پت ہو گئے۔ زیدؓ بن حارثہ اپنے آپ کو حضورﷺ کے آگے (دائیں بائیں آگے پیچھے) کر کے بچاتے تھے۔ اس طرح وہ بھی زخمی ہو گئے۔ (الطبقات، المواہب)
قارئین کرام! اندازہ لگائیں کہ ہمارے حضورﷺ کے پیچھے شرپسند لگاتار لگے رہے حتیٰ کہ آپﷺ ایک باغ میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔ یہ باغ ربیعہ کے دو بیٹوں عتبہ اور شیبہ کا تھا۔ یہ دونوں مکے کے سردار تھے اور یہاں طائف کے اندر اپنے باغ میں موجود تھے۔ طائف سے اس باغ کا فاصلہ پانچ کلومیٹر تھا۔ کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ ہمارے حضور رحمت دو عالمؐ نے اتنا لمبا فاصلہ اس قدر تکلیف میں گزارا۔ انگور کی ایک بیل کے سائے میں حضورﷺ بیٹھ گئے۔ شرپسند اب واپس چلے گئے تھے۔ امام ابو نُعیَم اور امام بیہقی لکھتے ہیں کہ عتبہ اور شیبہ کو حضورؐ سے جو دشمنی تھی اس کی بنا پر آپﷺ ان کے پاس نہیں گئے۔ جی ہاں! وہ پتھر دل بھی نہیں آئے، شرپسندوں کا شر بھی دیکھتے رہے، ہاں! البتہ اتنا کیا کہ اپنے غلام عداس کو ایک رکابی میں انگور دے کر روانہ کیا اور کہا کہ اس شخص (حضرت محمد کریمﷺ) کے پاس لے جائو اور ان سے کہو کہ تناول فرما لیں۔ مسیحی غلام عداس نے رکابی حضورﷺ کے سامنے رکھی تو آپﷺ نے بسم اللہ پڑھا اور انگور کھانے شروع کر دیئے۔ عداس کہنے لگا، یہاں کے لوگ تو کھانا کھاتے ہوئے ایسا جملہ نہیں بولتے۔ حضورؐ نے پوچھا تم کس شہر کے رہنے والے ہو؟ کہنے لگا عراق کے شہر نینویٰ کا رہنے والا ہوں، فرمایا، اچھا تم یونس بن متّٰی کے شہر کے باسی ہو۔ عداس حیران ہوا کہ آپ کو یونسؑ کا کیسے پتہ ہے؟ فرمایا، وہ نبی تھے، میں بھی رسول ہوں۔ اب آپﷺ نے اسے اسلام کی دعوت دی۔ اس نے حضورﷺ کا ہاتھ مبارک اور سر مبارک چوما اور مسلمان ہو گیا۔ (سیرت ابن ہشام)
اس کے بعد اللہ کے رسولﷺ یہاں سے نکل کھڑے ہوئے، اللہ کے حضور عرض کرنے لگے! اے اللہ! میں اپنی کمزوری، بے بسی اور لوگوں کے ہاں اپنی عزت کی زبوں حالی کا شکوہ آپ ہی سے کرتا ہوں۔ اے کمزوروں کے پروردگار، آپ میرے رب ہیں، مجھے کن کے سپرد کر رہے ہو...؟ الخ (سیرت ابن ہشام) صحیح بخاری اور مسلم میں ہے مدینہ کی زندگی میں حضرت عائشہؓ نے ایک بار حضورﷺ سے پوچھ لیا کہ احد میں جو تکلیف آئی (کہ حضورؐ کے دندان مبارک شہید ہو گئے، صحابہ 70 کی تعداد میں شہید ہوئے) اس سے بڑھ کر بھی کوئی تکلیف آپ پر آئی...؟ حضورؐ نے فرمایا، ہاں! اور پھر طائف کا پورا واقعہ بیان فرمایا اور آگے مزید بتلایا کہ میں دکھ اور غم میں مبتلا اپنی منزل کی جانب چلا جا رہا تھا کہ ''قرن الثعالب‘‘ پر جب پہنچا اور میں نے سر اٹھا کر آسمان کی جانب دیکھا تو ایک بادل مجھ پر سایہ فگن تھا۔اس میں جبریل کو دیکھا۔ انہوں نے مجھے مخاطب کیا اور کہا، اے محمد! آپ کی قوم نے آپ کو جو جو بولا اور جو سلوک کیا، اللہ نے سب سن لیا ہے اور اب اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کے فرشتے کو آپ کی خدمت میں متعین کر دیا ہے۔ آپ طائف والوں کے بارے میں جو چاہیں اس فرشتے کو حکم دے دیں۔ ساتھ ہی فرشتہ نمودار ہوا، اس نے مجھے مخاطب کیا، سلام کہا اور کہنے لگا میں پہاڑوں کا فرشتہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی خدمت میں ڈیوٹی لگا دی ہے۔ جو چاہیں مجھے حکم ارشاد فرمائیں۔ اگر چاہیں تو (مکہ کے) دونوں پہاڑوں (قعیقعان اور ابو قبیس) کے درمیان رکھ کر پیس ڈالوں۔ اس پر حضورﷺ نے کہا ''نہیں نہیں بالکل نہیں، مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی اولادوں سے ایسے لوگ نکالے گا جو ایک اللہ کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کچھ بھی شرک نہ کریں گے۔‘‘ تفسیر ابن ابی حاتم میں ہے کہ پہاڑوں کا فرشتہ یہ جواب سن کر پکار اٹھا کہ آپ واقعی انتہائی شفیق اور مہربان ہیں، تبھی تو آپ کے رب نے آپ کا نام رئوف اور رحیم رکھا ہے۔
قارئین کرام! یہ میرے حضورﷺ کا حلم، حوصلہ اور دل کی فریاد تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ثقیف قبیلے کو مسلمان کر دیا۔ مدینہ میں شاہ عرب کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ قبیلہ مسلمان ہوا، پھر ایک وقت آیا کہ حجاج بن یوسف ثقفی عراق کا گورنر بنا، اس کے بھتیجے محمدؒ بن قاسم رمضان المبارک میں دیبل کی بندرگاہ سے ملتان تک میرے حضورﷺ کی رسالت کا پرچم بلند کرتے آئے۔ پھر اللہ کی توحید اور میرے حضورﷺ کا نام مبارک ہند کی فضائوں میں گونجتا رہا، اذانوں میں بلند ہوتا رہا، حتیٰ کہ رمضان کے آخری دس دنوں کی طاق رات 27ویں کی شب کو پاکستان معرض وجود میں آیا۔ اسی لئے میں کہتا ہوں کہ اگر پہاڑوں کا فرشتہ طائف والوں کو تباہ کر دیتا تو محمدؒ بن قاسم کیسے یہاں آتے؟لہٰذا یہ میرے حضورﷺ کے حلم، حوصلے اور ثقیف قبیلے کے بارے میں دل کی نیک خواہش اور امید تھی کہ جس کی اللہ نے لاج رکھی اور آج ہم پاکستانی مسلمان ہیں، لہٰذا سمجھنا چاہئے کہ دعوت کی راہ ایک کٹھن اور جاں گسل راہ ہے مگر میرے حضورﷺ کی راہ یہی راہ ہے۔