اللہ کے رسول حضرت محمد کریمﷺ کا ارشادِ گرامی ہے ''جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے ساتھ خیر اور بھلائی کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس بندے کو اس کی موت سے قبل استعمال کر لیتے ہیں۔ صحابہ کرام میں سے ایک شخص نے حضورﷺ سے پوچھا: اے اللہ کے رسولﷺ! بندے کے استعمال کا مطلب کیا ہے؟ فرمایا! بندے کی موت سے پہلے اللہ تعالیٰ اسے نیک اعمال پر لگا دیتے ہیں۔ پھر اسی (اچھے کردار) پر اس کی جان کو اپنے قبضے میں لے لیتے ہیں۔ (مسند احمد: 17349) قارئین کرام! اب ایک اور حدیث شریف ملاحظہ کیجیے۔ اسے امام بیہقی ''کتاب الذُّھد‘‘ میں لائے ہیں اور فرماتے ہیں کہ حدیث کی سند کی شرائط وہی ہیں جو امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں اختیار کی ہیں، امام بخاری نے اس حدیث کو اپنی کتاب ''تاریخِ کبیر‘‘ میں درج کیا ہے۔ حدیث شریف ملاحظہ ہو، حضورﷺ نے فرمایا ''جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے ساتھ بہتری اور اچھائی کرنے کا ارادہ فرماتے ہیں تو اس کے کردار کو شہد کی مٹھاس میں لت پت کر دیتے ہیں۔ حضورﷺ سے اس کا مطلب پوچھا گیا تو ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ اس بندے کی موت سے (کچھ عرصہ) پہلے ایسا کر دیتے ہیں کہ اس کے لیے نیک اعمال کے دروازے کھول دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ جتنے لوگ اس سے متعلق ہوتے ہیں وہ سب کے سب اس کے (خوبصورت رویوں) سے خوش ہو جاتے ہیں‘‘۔ (سلسلہ صحیحہ للالبانی: 1114)
قارئین کرام! ایک عام شخص جو اپنے گھر کا سربراہ ہے، اس کے انتہائی قریبی رشتہ دار، اڑوس پڑوس کے لوگ، دوست احباب کا اندازہ لگایا جائے تو چالیس پچاس کے لگ بھگ افراد بنتے ہیں یعنی ایک عام اور اوسط درجے کے شخص سے اگر مذکورہ تعداد میں لوگ خوش ہو جائیں تو امید رکھنی چاہیے کہ وہ جنتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارادہ اس کے بارے میں خیر اور بھلائی کا ہے۔ مسجد کا امام اور خطیب ہے، مدرسے اور سکول کا استاد ہے تو تعداد شاید کچھ بڑھ جائے گی۔ ذمہ داری میں اضافہ ہو جائے گا۔ مہتمم اور ہیڈ ماسٹر ہے، پرنسپل اور وائس چانسلر ہے تو دائرہ کار سینکڑوں بلکہ ہزاروں میں چلا جائے گا۔ فیکٹری اور مل کے مالک کے دائرہ کار کی بھی کیفیت یہی ہوگی۔ تھانیدار کے تھانے میں آبادی کتنی ہے، وہ اس سے خوش ہے یا ناراض؟ تھانیدار سے لے کر آئی جی، صوبائی وزیر داخلہ اور پھر پورے ملک کی داخلی نظام کے ذمہ داروں کو اپنے دائرہ کار میں انسانوں کی تعداد دیکھ لینا چاہیے۔ ہر وزیراعلیٰ کو اپنے صوبے کے عوام کی تعداد کو ذہن میں رکھ کر رات کو اپنا سر سرہانے پر رکھنا چاہیے۔ الغرض! ملک کے ہر ادارے سے متعلق آفیسرز کو اپنے ماتحت عملے اور اپنے دائرہ کار میں آنے والے انسانوں کی تعداد کو اپنے سامنے اس طرح رکھ کر زندگی گزارنا ہو گی کہ اگر وہ ابھی اس دنیا سے چلا جائے تو 22 کروڑ عوام اس سے خوش ہوں گے۔ ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوں گے کہ ان کا مسیحا انہیں چھوڑ کر بہت دور چلا گیا ہے۔ اگلے سفر پر اس کا استقبال کرنے والے فرشتے اس کو سلامیاں دے رہے ہوں گے؟ یہ ہے کامیابی اور اصل کامرانی۔۔۔۔ مگر اس کی اساس اپنے دائرۂ کار میں آنے والے لوگوں کی مسرت و شادمانی سے متصل ہے۔ عام آدمی کا دائرۂ کار چونکہ چالیس پچاس کے لگ بھگ افراد ہیں‘ اس لئے حضورﷺ کے فرمان کے مطابق‘ جس کے جنازے میں چالیس اہلِ ایمان نے اللہ کے ہاں اس کی بخشش کی سفارش کر دی‘ اللہ تعالیٰ ان کی سفارش کو قبول فرما لیں گے۔
بنیادی طور پر ہر گھر ایک یونٹ ہے جہاں میاں بیوی ہوتے ہیں‘ وہ اپنی اولاد کے ماں باپ ہوتے ہیں پھر گھر میں بہو کو بیاہ کر لاتے ہیں اور اپنی بیٹی اگلے گھر بھیج دیتے ہیں۔ آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ گھر کے مسائل میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ بعض گھروں میں ہلکی پھلکی لڑائی بعض میں تیز اور بعض میں شدید ترین صورت اختیار کر لیتی ہے۔ سمجھانے کے باوجود کوئی نہیں سمجھتا‘اس کا علاج صرف صبر ہے، خوبصورت بول اور اچھے رویے سے سمجھانا ہے۔ کوئی نہیں سمجھتا تو بہترین علاج صبر ہے۔ ہر انسان کے دماغ کا سافٹ ویئر مختلف ہے۔ برداشت اور حوصلہ ہی بہترین علاج ہیں۔ چند گھروں کا ایک خاندان بنتا ہے‘ خاندانوں کی برادری بنتی ہے۔ خاندان میں بھی لڑائیاں ہوتی ہیں اور برادری میں بھی۔ پارٹیاں اور جماعتیں بنتی ہیں ان میں بھی لڑائیاں ہوتی ہیں۔ ملکوں کی آپس میں بھی جنگیں ہوتی ہیں۔ کامیاب وہی ہے جو حوصلے اور صبر سے کام لیتا ہے۔ انہی لڑائیوں میں ہر انسان کی آزمائش ہو رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جنت اسی کو دینی ہے جو اس آزمائش میں کامیاب ہو گا اور کامیابی صبر کے ساتھ نتھی کر دی گئی ہے۔ قرآن مجید میں ایک سورت ہے‘ انتہائی چھوٹی سورت، اس کا نام ''العصر‘‘ ہے۔ اس کے شروع میں ''و‘‘ قسم کا ہے، ''والعصر‘‘۔ اللہ تعالیٰ زمانے کی قسم کھاتے ہیں۔ ثابت ہوا زمانہ، وقت اور ٹائم بھی مخلوق ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ جب مخلوق میں سے کسی مخلوق کی قسم کھاتے ہیں تو اس کی حقیقت سے آگاہی مقصود ہوتی ہے۔ اگلی آیت میں فرمایا: اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بہر صورت انسان گھاٹے میں ہے۔ یعنی اس کائنات کی عمر اور زمین کی عمر کو دیکھ لیا جائے‘ بے شمار انسان آئے اور اپنا کردار ادا کر کے زیر زمین چلے گئے۔ انسان کی اپنی عمر‘ جو عمومی طور پر حضورﷺ کے فرمان کے مطابق ساٹھ سے ستر سال کے درمیان ہے‘ بھی ہر لمحے خسارے اور گھاٹے کی نذر ہو رہی ہے۔ انسان کی کوشش کا بیشتر حصہ چونکہ زوال پذیر دنیا کی دولت اور چند روزہ اقتدار تک ہے اس لیے بنیادی طور پر وہ خسارے میں ہے۔ سارا وقت سیاسی چالبازیوں، دھوکا دہی اور فراڈ وغیرہ میں صرف کر رہا ہے لہٰذا خسارے میں ہے۔ اس سے کون محفوظ رہے گا؟ ارشاد فرمایا: ''وہی محفوظ رہے گا جو ایمان لائے گا اور عمل نیک کرے گا۔ باہمی معاملات میں حق (سچ) کی بات کرے گا اور صبر کے ساتھ وابستہ رہنے کی تلقین کرتا رہے گا‘‘۔ (سورۃ العصر) قارئین کرام! مذکورہ سورت کے بارے میں امام ادریس شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ انسان کی ہدایت کے لیے سورۃ العصر ہی کافی ہے۔ یاد رہے! اس سورۃ کا آغاز اور اختتام انتہائی قابلِ غور ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو نصیحت فرما رہے ہیں۔ اے میرے بندے! میں سارے زمانے کی قسم کھا رہا ہوں۔ اس زمانے (ٹائم اور وقت) میں تیری زندگی کا جو انتہائی مختصر سا وقت جو ساٹھ، ستر یا اسی سال ہے‘ وہ بھی شامل ہے ۔ اس مختصر سی عمر میں زندگی کے آخری لمحے تک ''با صبر‘‘ رہنا یعنی صبر کے ساتھ مضبوطی سے جمے رہنے کو اپنی منزل بنائے رکھنا۔ تُو خسارے اور گھاٹے سے بچ جائے گا۔ دنیا میں بھی صبر کا پھل کھائے گا۔ آخرت میں بھی اس کا پھل جنت اور ریشم کے لباس کی صورت میں پائے گا (بحوالہ الدھر:12)۔ حضور نبی کریمﷺ نے اپنی امت کے ہر فردکو دین کے ساتھ وابستہ رہنے اور لوگوں کے مظالم اور مصائب پر صبر کی تلقین کرتے ہوئے واضح کیا کہ میری تمہاری ملاقات حوضِ (کوثر) پر ہو گی۔ وہاں پر ملاقات تک تلقین و نصیحت پر کار بند رہنا۔ مزید فرمایا: وہاں سب سے پہلے جو لوگ آئیں گے وہ مہاجر فقیر ہوں گے، (ان کے لوگوں کے ساتھ معاملات کی اچھائی اور خوبی کا حال یہ ہو گا کہ ) ان کے ذمہ جو (دوسروں کا) حق ہوتا تھا سب چکا دیتے تھے اور ان کا اپنا حق جو (کسی پر) ہوتا تھا وہ پورا نہ لیتے تھے (بلکہ دنیا سے بے پروائی اور اللہ کی خوشنوی کی خاطر کچھ نہ کچھ) چھوڑ دیتے تھے۔ (الترغیب والترھیب) ایسے لوگوں کی ایک خوبی ''ابن ماجہ‘‘ میں صحیح سند کے ساتھ مذکورہے، حضور اکرمﷺ نے فرمایا ''جو جھگڑے میں پڑنے کے ڈر سے اپنا حق چھوڑ دے‘ میں اسے جنت میں محل لے کر دینے کا ذمہ اٹھاتا ہوں‘‘ یعنی یہ لوگ ایسے صاف دل، سلیم الفطرت ہوتے ہیں کہ دنیا کی خاطر جھگڑالو پن اور لغویات سے انتہائی نفرت کرتے ہوئے اپنا حق چھوڑ دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو قیامت کے دن حوضِ کوثر سے حضور کریمﷺ کے مبارک ہاتھوں سے جام اور جنت میں محل کی چابیاں حضور اکرمﷺ کے پاک اور معطر ہاتھوں سے ملیں گی۔ سبحان اللہ!
لوگو! جو کوئی جتنا بڑا بھی ایمان والا ہو، اسلام والا ہو‘ حاجی نمازی ہو مگر انسانوں کے ساتھ معاملات میں زیادتی کرنے والا ہو‘ لین دین میں ڈنڈی مارنے والا اور سختی کرنے والا ہو‘ اقتدار کی ہوس میں زبان پر قابو نہ رکھنے والا ہو‘ چالبازی اور جھوٹ اس کا وتیرہ ہو‘ تعلق داری کو کاٹ کھانے والا ہو‘ ایسے سب ایمان والوں کے بارے میں حضورﷺ نے فرمایا: ''(بعض) ایمان والے جہنم سے بچ جائیں گے تو جنت اور جہنم کے درمیان ایک (بہت بڑے) پُل پر روک لیے جائیں گے پھر دنیا میں انہوں نے باہم جو ظلم کیے ہوں گے ان کا بدلہ دلوایا جائے گا، یہاں تک کہ جب وہ (سزائیں پا کر) مہذب بنا دیے جائیں گے اور پاک صاف کر دیے جائیں گے تب انہیں جنت میں داخل ہونے کی اجازت دے دی جائے گی۔ (صحیح بخاری: 6535)
ثابت ہوا دنیا میں جو ایمان والا کڑوے مزاج کا ہو گا اور دیندار ہو کر بھی غیر مہذب اور تہذیبی آلودگی پھیلانے والا ہوگا اسے قیامت کے روز‘ جو50 ہزار سال کی مدت کا ہے‘ شاید اس لمبے ترین دن کے خاتمے تک‘ یا اس کے بعد بھی نہ جانے کتنا عرصہ پُل پر زیادتیوں کے بدلے میں گزارنا ہوگا اور بدلے کی سزا کو پانا ہوگا لہٰذا کامرانی اسی میں ہے کہ ایمان والا انسان میٹھا مومن بنے، کڑوا مسلمان نہ بنے۔