اللہ کے رسولﷺ کی ایک حدیث شریف ہے‘ فضیلۃ الشیخ علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ اپنی کتاب میں اس سے متعلق باب کا عنوان باندھتے ہیں‘ ''کَمِیَّۃُ الْمَطَرِ فِیْ کُلِّ عَامٍ وَاحِدَۃٍ‘‘ (بارش کی مقدار ہر سال ایک ہی ہوتی ہے) مطلب جب سے زمین پر بارش ہو رہی ہے۔ پہلے سال جتنی ہوئی تھی‘ کروڑوں سالوں سے اسی مقدار میں ہو رہی ہے۔ اس میں ایک قطرے کی نہ کمی ہوئی ہے اور نہ زیادتی۔ عنوان کا دوسرا حصہ یوں لکھتے ہیں ''وَلٰکِنْ تَصْرِیْفَہٗ یَخْتَلِفْ‘‘ (مگر اس بارش کے برسنے کے مقامات مختلف ہوتے ہیں)۔ اس کے بعد علامہ البانی رحمہ اللہ حدیث شریف لائے ہیں‘ ملاحظہ ہو: ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ کوئی سال ایسا نہیں کہ اس میں کسی دوسرے سال کی نسبت بارش زیادہ ہو لیکن اللہ تعالیٰ اسے اپنی مخلوق کے درمیان مختلف جگہوں پر برساتے ہیں‘ جہاں چاہتے ہیں۔ اس کے بعد یہ آیت تلاوت فرمائی (ترجمہ:) ''بلاشبہ ہم ہی اس بارش کو ان کے درمیان مختلف جگہوں پر برساتے رہتے ہیں‘‘ [الفرقان: 5]۔ (سلسلہ احادیث صحیحہ :2461 )
قارئین کرام! بارش کے معاملے میں آج کی سائنس ہمیں یہی بتلاتی ہے کہ زمین پر موجود سمندروں‘ دریائوں‘ جھیلوں وغیرہ میں جس قدر پانی ہے، اسی کا ایک سائیکل یعنی گھمائو ہے کہ وہ بھاپ بن کر زمین سے اٹھتا ہے‘ فضا میں جاتا ہے‘ بادلوں کی شکل اختیار کرتا ہے‘ دوبارہ زمین پر برستا ہے اور زندگی کا باعث بنتا ہے۔ اس سائیکل یا گھمائو کو عربی زبان میں ''تصریف‘‘ کہا جاتا ہے۔ قرآنِ مجید نے بارش اور بارشی ہواؤں کے لیے ''تصریف‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ اللہ کے رسول حضرت محمدکریمﷺ نے اپنی حدیث شریف میں بھی یہی لفظ استعمال فرمایا۔ ساڑھے چودہ سو سال قبل اللہ کے رسولﷺ نے ایک ایسی حقیقت کا انکشاف کیا کہ جس کی مکمل تفصیل آج کی سائنس بھی بیان کرنے سے قاصر رہی۔ 'بارش ہر سال ایک ہی مقدار میں ہوتی ہے‘ یہ ہے وہ حقیقت جو کروڑوں سالوں سے ہونے والی بارش کے ماضی کو بھی اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ حال کی صورتحال بھی یہی ہے اور آئندہ قیامت تک یہی اصول چلے گا۔ یہ اصول بتایا ہے اس ہستیؐ نے کہ جو آخری رسول ہیں اور وہ جو بتاتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی اور الہام سے بتاتے ہیں۔
آیئے! اب اگلی حدیث شریف ملاحظہ کرتے ہیں۔ مندرجہ بالا حدیث شریف کی تائید میں شیخ ناصر الدین البانی ایک اور حدیث شریف لائے ہیں۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا''رات اور دن کی کوئی گھڑی ایسی نہیں کہ جس میں آسمان سے بارش نہ برسے‘ اللہ تعالیٰ جہاں چاہتے ہیں اس بارش کو تصریف کرکے لے جاتے ہیں۔ کوئی سال دوسرے سال سے حکم میں مختلف نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے (بارش کے) اس رزق کو تقسیم فرما رکھا ہے۔ اسے دنیاوی آسمان میں رکھا ہے۔ اس پیمائش میں رکھا ہے کہ اس سے ہر سال ''بکیل معلوم‘‘ (معلوم پیمائش اور معلوم وزن) کے ساتھ نازل ہوتی ہے۔ جب انسانوں کی کوئی قوم گناہوں کا ارتکاب کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ اسے دوسروں کی جانب لے جاتے ہیں اور جب سارے ہی نافرمانی پر لگ جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اسے جنگلوں اور سمندروں کی جانب لے جاتے ہیں‘‘۔ (سلسلہ احادیث صحیحہ) قارئین کرام! دن رات میں کوئی ایسی گھڑی یا ٹائم نہیں کہ جس میں آسمان سے بارش نہ برس رہی ہو، حضورکریمﷺ نے اس جملے میں ٹائم کے لیے جو لفظ استعمال فرمایا وہ ''الساعۃ‘‘ ہے۔ یہ لفظ ٹائم بتانے والے آلے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور ٹائم کے چھوٹے اور بڑے حصے کے شمار کے لیے بھی ہوتا ہے۔ رات اور دن کے سیاق و سباق میں اس لفظ کا مطلب یہ ہے کہ ہر سیکنڈ بلکہ اس سے بھی کم وقت میں‘ ہمہ وقت زمین پر بار ش ہوتی رہتی ہے۔
ہمارا زمانہ مصنوعی سیاروں یعنی سیٹلائٹ کا زمانہ ہے جو زمین کے مدار میں گردش کے لیے چھوڑے جاتے ہیں۔ ان سیٹلائٹس سے پتا چلا کہ زمین کے مختلف حصوں میں ہمہ وقت بارش ہوتی رہتی ہے‘ برفباری ہوتی رہتی ہے‘ اولے پڑتے رہتے ہیں۔ کوئی لمحہ ایسا نہیں ہوتا کہ جس میں زمین کے کسی نہ کسی حصے میں بارش نہ ہورہی ہو۔ سمندر ، پہاڑ، جنگل، میدان اور صحرا وغیرہ‘ غرض ہر جگہ بارش ہوتی ہے۔ سبحان اللہ ! اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب اور خلیل حضرت محمد کریمﷺ کو بتایا او رحضور کریمﷺنے اپنی امت کو آگاہ فرمایا۔
اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں فرماتے ہیں: انزلہ بعلمہ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے الہام کو اپنے علم کے ساتھ اتارا ہے۔ اس الہام میں قرآنِ مجید بھی ہے اور حدیث شریف بھی۔ آیت الکرسی میں ارشاد فرمایا''وہ لوگ اس (اللہ) کے علم میں سے کسی شئے کا بھی احاطہ نہیں کر سکتے مگر جتنا اللہ تعالیٰ چاہے‘‘ جی ہاں! اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین کے مدار میں سیٹلائٹس بھیجنے کا علم دیا‘ اس سے ایک حد تک موسموں کو معلوم کرنے کا علم بھی مل گیا۔ اس علم سے واضح ہوگیا کہ اللہ کے رسول حضرت محمد کریمﷺ سچے اور آخری رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے بتائے علم سے بولتے اور کلام فرماتے ہیں۔ اب جو موسمی حالات کا علم ہے‘ یہ اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے۔ انسان اسے انسانیت کے فائدے کے لیے استعمال کریں اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کریں۔ اگر وہ اس میں کوتاہی کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے ہاں مجرم ہیں۔ ذمہ داریوں کا حساب اللہ تعالیٰ کو دینا پڑے گا۔
مری کی برفباری میں جو لوگ فوت ہوئے؛ معصوم بچے، عورتیں او رمرد حضرات جو اپنے اللہ سے جا ملے‘ ہم اللہ کریم سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ان کو جنت الفردوس کی مہمان نوازی کے شرف سے مشرف فرمائیں‘ ان کے لواحقین کو صبرِ جمیل کی نعمت عطا فرمائیں۔ باقی مری کے وہ چند لوگ جنہوں نے برف پھینک کر پھسلن بنائی اور گاڑی کو دھکا لگانے کے چار‘ پانچ ہزار وصول کیے، 5 ہزار کے کمرے کا 50 ہزار لیا اور عورتوں کے زیور تک اتروا لیے‘ ایسے انسانیت سے گرے ہوئے لوگوں کو سزا مل رہی ہے اور ملنی بھی چاہیے۔ مری کے وہ لوگ بھی قابل تحسین ہیں جنہوں نے سیاحوں کے لیے اچھا کردار ادا کیا۔ پاک فوج کے جوانوں نے اور رفاہی تنظیموں کے لوگوں نے اپنی اپنی بساط کے مطابق جو کردار ادا کیا‘ اللہ تعالیٰ ان سب کو اجرِ عظیم عطا فرمائے۔ محترم عمران خان وزیر اعظم پاکستان کی خدمت میں ان کی اپنی تقریروں کے بہت سارے حوالہ جات دیے جا سکتے ہیں جن میں ایک حوالہ بار بار دہرایا گیا اور وہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی حکمرانی کا حوالہ ہے، انہوں نے فرمایا تھا کہ اگر فرات کے کنارے کوئی جانور بھی پیاس سے مر گیا تو عمر اپنے اللہ کے سامنے جوابدہ ہے۔ گزارش ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ کی سلطنت تو پاکستان سے 25‘ 30 گنا بڑی تھی‘ وہ دور بھی کافی قدیم اور روایتی تھا‘ اس کے باوجود وہاں مری جیسا کوئی سانحہ نہیں ہوا۔ بنی گالا سے مری کا فاصلہ ایک گھنٹے سے بھی کم کا ہے‘ ہیلی کاپٹروں سے تو یہ چند منٹس کی بات ہے۔ موسم کی پیشگوئی موجود تھی‘ سیاحوں کی لوکیشن معلوم تھی‘ حکمرانی کے کارندے موجود تھے‘ اس کے باوجود‘ جانور نہیں‘ انسان اپنی جانوں سے چلے گئے۔ مری میں بعض انسان جانور بن گئے‘ ان کی حیوانیت کی وجہ سے انسانیت مر گئی۔ مری میں مری ہوئی انسانیت کیا آئندہ کے لیے زندہ ہوسکے گی؟ محترم وزیراعظم صاحب کے سوچنے اور اللہ تعالیٰ کے حضور جوابدہی کے خوف سے کانپنے کی باتیں ہیں۔
حضرت عمر فاروقؓ جوانی میں پہلوان اور قدآور تھے۔ چھ فٹ سے بھی نکلتا ہوا قد تھا‘صحت مند تھے مگر حکمرانی کے بوجھ سے اس قدر کانپ گئے تھے کہ دس سالہ حکمرانی کے بعد اپنے آپ کو جسمانی اعتبار سے کمزور خیال کرنے لگے تھے۔ حج سے واپسی پر ریت کے ایک ٹیلے پر قبر جیسی جگہ بنا کر لیٹ گئے او راپنے رب کریم کے سامنے عرض کرنے لگے: مولا کریم! میں تیری مخلوق اور تیرے حبیبؐ کی امت کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے بوڑھا ہوگیا ہوں‘ کندھے کمزور ہوگئے‘ مجھے اپنے رسولﷺ کے شہر میں شہادت دے۔ اللہ اللہ! حضرت عمرؓ کی عمر تو ابھی 63 سال تھی‘ وہ قیصر و کسریٰ کی سلطنتوں کے فاتح تھے۔ چاہیے تو یہ تھاکہ مزید زندگی مانگتے مگر ان کے سامنے بہشت تھی‘ خلدِبریں تھی۔ ہمارے سامنے زمین، زمین اور زمین ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے‘آمین!