اللہ کے رسول‘ ہمارے حضور ﷺسرکارِ مدینہ ہیں۔ چودہ سو صحابہ کو ہمراہ لے کر مکہ کی طرف سفر اختیار کرتے ہیں۔عمرہ کرنے کا ارادہ فرماتے ہیں۔ جب حدیبیہ میں پہنچتے ہیں تو مکہ کے حکمرانوں کا پیغام ملتا ہے کہ مکہ میں داخل نہ ہونے دیں گے؛ چنانچہ دونوں جانب سفیروں کی سفارتکاری کا آغاز ہوتا ہے۔ حضورﷺکے سفیر مکہ جاتے ہیں جبکہ مکہ والوں کے سفیر حدیبیہ آتے ہیں‘ مذاکرات کے ادوار چلتے ہیں۔ آخر کار صلح نامہ تحریر کیا جاتا ہے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ حضورﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا: لکھو! یہ فیصلہ ہے جو محمد رسول اللہﷺ کی طرف سے ہے۔ اس پر قریش کی طرف سے سہیل بن عمرو بولا:اگر ہم مانتے ہوتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو آپ کے پیروکار بنتے ؛چنانچہ اپنا نام لکھیں اور اپنے باپ کا نام یعنی محمد بن عبداللہ لکھیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ جو محمد رسول اللہ لکھ چکے تھے۔ حضورﷺ نے انہیں حکم دیا کہ محمد بن عبداللہ لکھو اور محمد رسول اللہ مٹادو۔ حضرت علیؓ نے کہا: اللہ کی قسم! میں تو نہیں مٹائوں گا؛ چنانچہ حضور ﷺنے فرمایا: اچھا! مجھے بتائوکہاں لکھا ہوا ہے۔ آپ کو وہ جگہ دکھلائی گئی تو آپﷺ نے اسے مٹادیا اور محمد بن عبداللہ لکھوادیا(بخاری: 2731)۔ اللہ اللہ! امن اور صلح کی خاطر یہ ہے ریاست مدینہ کی عظیم سرکار‘ حضور عالیشان کا بلند اخلاقی کردار... جس کا اظہار ہوا ہے مکہ کے ان مشرکوں کے ساتھ جو حضور کے جانی دشمن تھے اور بتوں کے عبادت گزار تھے۔ اس صلح کے بعد ہمارے حضور ﷺواپس مدینہ منورہ تشریف لائے تو غیر ملکی سربراہان کو خطوط لکھ کر اسلام کی دعوت دی۔ پہلا خط مبارک ہرقل کو لکھا جو مسیحی تھا اور قسطنطنیہ کی سپر پاور کا حکمران تھا۔ اس خط کا آغاز اللہ کے نام سے ہوا۔پھر جو جملہ لکھا وہ یوں تھا: ''اللہ کے بندے اور اس کے رسول محمدﷺ کی جانب سے ہے۔ ہرقل کو بھیجا جا رہا ہے جو روم کا عظیم (آدمی یا بادشاہ) ہے۔‘‘(بخاری: 2941-7) یاد رہے! یہ آرتھوڈوکس مسیحی تھا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا کہتا تھا۔ اس سب کے باوجود ریاست مدینہ کے حکمران حضرت محمد کریمﷺ نے اس کے مقام کا پورا خیال رکھا۔ اس کی دینی اور دنیاوی سیاست کا پوری طرح دھیان رکھا۔ ہرقل صرف حکمران ہی نہ تھا وہ بہت بڑا مسیحی عالم بھی تھا۔ ریاست مدینہ کے حکمران ہمارے حضور کریمﷺ نے ساری انسانیت کو اپنی تحریر کے ذریعے یہ سبق ازبر کروایا کہ سیاسی اور مذہبی اختلاف کے باوجود تحریر اور تقریر میں احترام انتہائی ضروری ہے۔ اکرام لازم ہے۔ قلم کی حرمت اور زبان کے تقدس کا تقاضا ہے کہ بلند و بالا اخلاق سخت ترین دشمن کے ساتھ بھی زخمی نہیں ہونا چاہیے۔اسے صحت و سلامتی کے ساتھ قائم رہنا چاہیے۔
بت پرست مشرکوں اورحضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالی کا بیٹا کہنے والے مسیحی لوگوں کے ساتھ ہم نے اپنے حضور کریمﷺ کا اعلیٰ ترین اخلاقی رویہ ملاحظہ کیا۔ آیئے! اب یہودیوں کے ساتھ بیتنے والا ایک واقعہ بھی ملاحظہ ہو کہ یہ یہودی لوگ مدینہ منورہ کے باسی تھے‘ غیر مسلم بھی تھے اور حضور کی رعایا بھی تھے۔ صحیح مسلم‘ کتاب السلام میں اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کے مطابق یہویوں کا ایک وفد آیا‘ انہوں نے اللہ کے رسول سے ملاقات کے لیے اجازت چاہی۔ آپ نے اجازت دے دی۔ وہ آئے تو اللہ کے رسول کو مخاطب کرکے کہنے لگے السام علیکم (تم پر موت ہو)۔ میں نے فوراً جواب میں کہا : وعلیکم السام واللعن( یہ موت تم پر ہو اور لعنت بھی ہو)۔ اس پر اللہ کے رسولﷺ مجھ سے مخاطب ہوئے اور فرمانے لگے: اے عائشہ !اللہ تعالیٰ ہر کام میں نرم خوئی کو پسند کرتے ہیں۔ اس پر میں نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! ان لوگوں نے جو کہاوہ آپ نے سنا؟ آپؐ نے فرمایا: میں نے سنا اور میں نے کہہ نہیں دیا وعلیکم ‘بس اتنا کافی ہے۔
اللہ اللہ! ریاست مدینہ کے حکمران اپنے ایک اشارے سے ان بدتمیز یہودیوں کو سبق سکھا سکتے تھے کہ جو حکمران مدینہ کے گھر میں آکر بدتمیزی کر رہے ہیں مگر میرے حضور ؐکا اخلاق اس قدر بلند و بالا اور عالی شان ہے کہ آپ نے اپنی زوجہ محترمہ حضرت عائشہؓ کو ڈانٹتے ہوئے کہا: سخت جملے مت بولو۔ اگر سخت گوئی کا جواب دینا ہی ہے تو اسی قدر جواب دو جس قدر زیادتی کی گئی ہے۔ اضافہ نہ کرو۔ قارئین کرام! صحیح مسلم ہی کی اگلی روایت میں یہ ہیں وہ الفاظ جو امام مسلم بن حجاج اپنی صحیح کی کتاب السلام میں لائے ہیں۔ اللہ کی قسم! ریاست مدینہ کے عظیم حکمران حضور عالیشان کا اخلاق اس قدر عرش بریں کی بلندیوں کو چھو رہا ہے کہ گھر میں آئے محکوم اور غیر مسلم لوگ بدتمیزی کرتے ہیں تو ان کی بدتمیزی کا جواب معمولی سا آگے بڑھتا ہے تو حضور اپنی اہلیہ محترمہ کو ڈانتے ہیں مگر بدتمیزوں کو کچھ نہیں کہتے۔ ایسے تو نہیں اللہ تعالیٰ کے قرآن نے فرمایا! کیا شک ہے کہ اے میرے حبیب ! آپ بہر صورت عظیم اخلاق پر براجمان رہنے والے ہیں (القلم: 4)۔ حقیقت یہ ہے کہ حضور کے بلند و بالا اخلاق کی ہمارے جہان میں کوئی حد نہیں۔ انسانیت ایسی مثال لانے سے قاصر ہے۔
ایک نجی مجلس میں جناب محترم عمران خان صاحب کو آرمی چیف صاحب نے اچھے اخلاق کی جانب توجہ دلائی تو انہوں نے اس توجہ کو بھرے جلسے میں بیان کردیا۔ جناب چوہدری شجاعت حسین صاحب نے اس پر قرآن مجید کی سورۃ الحجرات کی جانب توجہ دلائی۔ ہم سمجھتے ہیں پوری قوم کو اس جانب توجہ دینی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں بلاشبہ مومن لوگ بھائی بھائی ہیں (اختلاف کی صورت میں) اپنے بھائیوں کے درمیان صلح کروا دو ‘اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے (الحجرات:10)۔جی ہاں! جناب عمران خان صاحب کا انکشاف بتا رہا تھا‘ قوم کو آگاہ کر رہا تھا کہ آرمی چیف صاحب حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اصلاح چاہتے ہیں مگر جب اصلاح کا وجود زخمی کردیا گیا تو چوہدری شجاعت حسین صاحب نے سورۃ الحجرات کی جس دوسری آیت کی جانب توجہ مبذول کروائی اس کا ترجمہ ملاحظہ ہو۔ مولا کریم فرماتے ہیں:اے ایمان والو! کوئی گروہ کسی دوسرے گروہ کا مذاق نہ اڑائے۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ جن کا وہ مذاق اڑا رہے ہیں وہ ان سے بہتر ہوں۔ اسی طرح خواتین بھی دوسری خواتین کا مذاق مت اڑائیں۔ ہو سکتا ہے وہ مذاق اڑانے والوں سے بہترہوں۔ اپنے لوگوں پر عیب جوئی مت کرو اور نہ ہی ایک دوسرے کو برے القاب سے پکارو۔ برا لقب تو ایمان کے بعد فاسق کا (لقب) ہے۔ (یاد رکھو) جس کسی نے (اس فاسقانہ رویے) سے توبہ نہ کی تو ایسے سب لوگ اصل ظالم ہیں (الحجرات:11)۔ اللہ کے بندو! یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ اگر بڑے اور لیڈر قسم کے لوگ ایسے کام شروع کردیں تو ان کے ماننے والے گلیوں بازاروں میں باہم برسرپیکار ہوجائیں گے۔ معاشرے میں افراتفری پھیل جائے گی۔ ملکی استحکام روٹھ جائے گا۔ امن اپنا منہ چھپالے گا اور یہی وہ ظلم ہے جو اصل ظلم ہے کہ معاشرے کی بنیادوں کو تباہ کردیا جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ چوہدری شجاعت حسین کے مشورے پر تمام سیاستدانوں کو عمل کرتے ہوئے پوری سورۃ الحجرات کا ترجمہ تفسیر کے ساتھ مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ ہماری سیاست اور سیاستدان باوقار رہیں۔ صحیح بخاری میں حضورﷺ کا ایک فرمان ہے جس کے مطابق اللہ اور اللہ کے رسول کو دو خصائل بڑے پسند ہیں۔ 1: خود داری۔ 2: وقار۔ یاد رہے! یہ بات حضورﷺ نے ایک عرب سردار حضرت اشج رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمائی تھی۔ اللہ کے حضور دعا ہے کہ ہمارے سیاسی سرداروں کو بھی یہ نعمت میسر آجائے۔
لوگو! قرآن کی ایک سورت ہے آخری پارے میں ہے۔ اس کا نام ہی ''ھْمَزۃَ‘‘ ہے۔ اس لفظ کے معنی و مفہوم میں اشارہ بازی‘ طعنہ زنی اور عیب جوئی شامل ہے۔ اس سورت کی پہلی آیت کا ترجمہ اور مفہوم ہی یہی ہے کہ ہر وہ شخص جو ایسی قباحتوں کا علمبردار ہے اس کے لیے ''ویل‘‘ ہے۔ یہ لفظ ہلاکت اور بربادی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ بعض محدثین نے جہنم کے ایک طبقے کا نام بھی ''ویل‘‘ بتایا ہے۔ لازم ہے کہ ہم میں سے ہر مسلمان ''ویل‘‘ سے بچنے کی کوشش کرے کہ اس کے ارتکاب سے دنیا میں بے وقار ہونا ہے تو آخرت میں رسوا ہونا ہے۔ اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت کی رسوائی سے ہم سب کو محفوظ فرمائے۔ (آمین)