جزیرۃ العرب میں ''نجد‘‘ کا علاقہ بہت بڑا علاقہ ہے۔ دورِ نبوی میں اس علاقے میں مختلف بت پرست مشرک قبائل کی حکمرانیاں تھیں۔ ایک علاقے کا نام ''یمامہ‘‘ ہے۔ یہاں کا حکمران ''ثمامہ‘‘ تھا۔ نجد کے تمام علاقوں کے دلوں میں اسلام کے ساتھ دشمنی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ غزوۂ احزاب (غزوۂ خندق) کے موقع پر مکہ کے مشرکین کے ساتھ جن لوگوں نے عملی طور پر تعاون کیا‘ ان میں نجد کے مشرک قبائل کے لوگ بھی شامل تھے؛ چنانچہ مدینہ منورہ کا محاصرہ کرنے کے لیے یہ لوگ نجد کے مختلف علاقوں سے آئے تھے۔ جب یہ ناکام واپس لوٹے تو اللہ کے رسولﷺ نے ان قبائل کو باری باری سبق سکھانے کا فیصلہ کیا۔ حضور نبی کریمﷺ نے نجد کے ایک علاقے ''قرطاء‘‘ کے لیے مجاہدین صحابہ کرام کا ایک دستہ روانہ فرمایا۔ یہ دستہ 30 افراد پر مشتمل تھا۔ دستے کے کمانڈر حضرت محمد بن مسلمہؓ تھے۔ حضور کریمﷺ نے ہدایت نامہ جاری فرمایا کہ ''رات کو سفر کرو۔ دن کو چھپے رہو۔ رازداری کے ساتھ دشمن کے سر پر پہنچو اور کامیابی کے ساتھ حملہ کرو‘‘۔
یہ دستہ سات راتوں کا سفر طے کرکے ''قرطاء‘‘ کے قریب پہنچا۔ مجاہدین کے حملے سے دشمن کے دس افراد قتل ہوئے‘ باقی بھاگ کھڑے ہوئے۔ ان کے اونٹ‘ جو مال غنیمت بنے‘ ایک سو پچاس تھے۔ تین ہزار کے قریب بکریاں تھیں۔ یہ لوگ جو مدینہ منورہ کے محاصرے سے ناکام واپس لوٹے تھے‘ اب ان کے ایک قبیلے سے اس محاصرے کا بدلہ لے لیا گیا تھا۔ جب یہ جہادی دستہ واپس آرہا تھا اور یمامہ کے علاقے سے گزر رہا تھا تو یہاں کا حکمران ''ثمامہ‘‘ مل گیا۔ وہ اکیلا تھا‘ مجاہدین کے لشکر نے اسے گرفتار کر لیا۔ اس وقت اسلامی دستے کے کمانڈر سمیت مجاہدین کو یہ علم نہیں تھا کہ یہ ثمامہ ہے۔ انہوں نے دشمن قبیلے کا اہم فرد سمجھتے ہوئے اسے گرفتار کر لیا کہ یہاں کے لوگ بھی اسلام دشمنی میں مدینہ منورہ کا محاصرہ کرنے آئے تھے۔
اسلامی دستے کے مجاہدین مال غنیمت اور ایک قیدی کے ہمراہ چند دنوں کے سفر کے بعد خیریت کے ساتھ مدینہ منورہ پہنچ گئے۔ ثمامہ یہاں پہنچ کر مسلمان ہو گیا۔ کیسے ہوا؟ تفصیل ذرا بعد میں۔ فی الحال ثمامہ کی اسلام دشمنی ملاحظہ ہو کہ اس نے اپنی سابقہ دشمنی کا انکشاف حضورﷺ کے سامنے اس طرح کیا کہ ''زمین پر ایک ہی ایسا چہرہ تھا جس پر مجھے سب سے زیادہ غصہ آتا تھا‘ اے اللہ کے رسولﷺ! اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں وہ چہرہ آپ کا چہرہ تھا‘‘۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ آپﷺ کا چہرہ (مبارک) مجھے زمین پر موجود تمام چہروں سے کہیں زیادہ محبوب ہے۔ آپﷺ کا دین (اسلام) مجھے تمام ادیان میں سے سب سے بڑھ کر محبوب ہے۔ پہلے مجھے آپﷺ کے شہر (مدینہ) پر دنیاکے تمام شہروں کی نسبت سب سے بڑھ کر غصہ تھا۔ اب آپﷺ کا شہر مجھے تمام دنیا کے شہروں سے بڑھ کر محبوب ہے‘‘۔ (صحیح بخاری، صحیح مسلم)
قارئین کرام! اندازہ لگائیں کہ یمامہ کے حکمران ثمامہ کے دل میں حضورﷺ، آپ کے دین اسلام اور مدینہ منورہ کو لے کر کس قدر دشمنی تھی۔ اس دشمنی کی وجہ سے اس نے ہر اس شخص کا نقصان کیا جس نے اس علاقے میں حضورﷺ اور آپ کے دین کے بارے میں مثبت سوچ کا اظہار کیا۔ اس نے اپنے لوگوں کو احزاب کے موقع پر مدینہ منورہ کے محاصرے کے لیے بھی روانہ کیا۔ اب وہ مدینہ منورہ میں موجود تھا۔ اس شہر میں تھا جہاں اسلام کا نظام نافذ تھا اور اس عظیم‘ مہربان ہستی کی قید میں تھا جن کا نام نامی اور اسم گرامی حضرت محمد کریمﷺ ہے۔
ثمامہ کا قد لمبا تھا۔ کندھے چوڑے تھے۔ جسم دبلا پتلا تھا۔ آواز گرج دار تھی۔ بھاگ دوڑ میں پھرتیلا اور تیز تھا۔ گفتگو میں لہجہ صاف تھا۔ سفید لباس زیب تن کرتا تھا۔ چہرہ خوبصورتی لیے ہوئے تھا۔ نظر تیز تھی۔ حضرت محمد بن مسلمہؓ کو نہیں معلوم تھا کہ یہ حکمران ہے۔ ساتھیوں کو بھی معلوم نہیں تھا کہ یہ ثمامہ بن اثال ہے۔ جب یہ قیدی کی حیثیت سے سرکار مدینہ حضور کریمﷺ کے سامنے پیش کیا گیا تو آپﷺ نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ تم لوگوں نے کس کو پکڑا ہے؟ یہ تو ثمامہ بن اثال حنفی ہے۔ اس کی قید کو حسین و جمیل بنا دو۔ (ابن ہشام: 638/2 ) اللہ اللہ! لوگو! دیکھتے جائو۔ سرکار مدینہﷺ نے اپنے شدید ترین دشمن قیدی کے ساتھ کیسا رویہ اختیار کرنا شروع کر دیا۔
حضور نبی کریمﷺ فوراً اپنے گھر تشریف لے گئے اور فرمایا: کھانے میں سے جو کچھ بھی تمہارے پاس ہے اسے جمع کرو اور ثمامہ کی جانب بھیجو۔ آپﷺ نے مزید ارشاد فرمایا: میری اونٹنی کو ثمامہ کے لیے بھیج دو‘ وہ اس کا دودھ پیے گا۔ (ابن ہشام)
قارئین کرام! قید کو خوبصورت اور حسین و جمیل بنانے کا مطلب واضح ہے کہ ثمامہ کو ہمارے حضورﷺ کی ہدایات پر غسل کرایا گیا ہو گا۔ نئے کپڑے دیے گئے ہوں گے۔ خوشبو لگانے کے لیے ملی ہو گی۔ دستر خوان سجایا گیا ہو گا۔ خوبصورت ضیافت پر اسے بٹھایا گیا ہو گا۔ جی ہاں! یہ اس کے جسم کی مادی ضروریات تھیں۔ یہ فوراً پوری کی گئیں اور متواتر پوری کی جاتی رہیں۔ اب روحانی اور اسلامی ضروریات تھیں۔ ان کو پورا کرنا بھی لازم تھا۔ چنانچہ جناب ثمامہ کو مسجد نبوی کے ستون کے ساتھ باندھ دیا گیا۔ مقصد یہ تھا کہ مسجد میں مدینہ منورہ کے اسلامی معاشرے کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لے۔ معاشرے کے خوبصورت خدوخال کا جائزہ لے اور پھر آزادانہ فیصلہ کرے کہ وہ ایسے خدوخال اپنانا چاہتا ہے یا نہیں۔ اپنانا چاہتا ہے تو اس معاشرے کا ممبر بن جائے۔ نہیں چاہتا تو آزاد ہوکر واپس اپنے علاقے میں چلا جائے۔ اس لیے کہ دین میں جبر نہیں۔
جناب ثمامہ بن اثال جو نجد کے ''بنو حنیفہ‘‘ قبیلے سے تعلق رکھتے تھے‘ جب گرفتار ہوکر مدینہ منورہ آئے تو اس وقت ان کی عمر لگ بھگ 43 سال تھی۔ بھرپور جوان اور صحتمند تھے۔ اپنے قبیلے یمامہ کے حکمران تھے۔ مسجد نبوی کے ستون کے ساتھ بندھے ہوئے تھے۔ صحابہ کرام نے یقینا رسی لمبی باندھی ہو گی تاکہ چل پھر سکیں‘ صحابہ کرام کی علمی مجالس میں سے کسی مجلس میں بیٹھ سکیں۔ چہل قدمی کر سکیں۔ حضورﷺ کی نمازوں کا منظر بھی وہ ملاحظہ کر چکے ہوں گے کہ یہاں باندھنے کا یہی مقصد تھا۔
صحیح بخاری ''کتاب المغازی‘‘ میں مرقوم الفاظ کے مطابق: اب جو حضورﷺ تشریف لائے تو پوچھا: ماذا عندک یا ثمامہ؟ اے ثمامہ! تیرے پاس کیا ہے؟ اللہ اللہ! قیدی کے پاس دینے کو کیا ہوتا ہے؟ کچھ بھی تو نہیں۔ جب وہ آزاد ہو گا تو کچھ دے سکے گا۔ اب کیا دے گا؟ یمامہ کا حکمران یہی سمجھا کہ دولت دیتا ہوں؛ چنانچہ اس نے اپنا وقار بھی پیش نظر رکھا اور دولت کی پیشکش بھی کر دی۔ کہنے لگا: میرے پاس خیر (بھلائی) ہے۔ اگر آپ مجھے قتل کریں گے تو ایسے شخص کو قتل کریں گے جو خون والا ہے (یعنی اس کا بدلہ لینے والے موجود ہیں) اور اگر احسان فرما کر مجھے چھوڑ دیں گے تو ایک قدر دان پر احسان کریں گے۔ اگر آپ مال چاہتے ہیں تو فرمائیے آپ کو کتنا مال چاہیے؟ حضور کریمﷺ نے یہ جواب سنا تو ثمامہ کو اس کے حال پر چھوڑ دیا۔ دوسرے دن آپﷺ نے ثمامہ سے دوبارہ وہی سوال کیا اور ثمامہ نے بھی پہلے والا ہی جواب دیا۔ تیسرے دن بھی سوال و جواب یہی تھا۔ اب حضور کریمﷺ نے صحابہ کرام کو حکم فرمایا: اطلقوا ثمامہ۔ ثمامہ کو آزاد کر دو۔ ثمامہ کی روحانی اور اسلامی تربیت ہو چکی تھی۔ وہ مسجد نبوی سے نکلے۔ ایک صاف شفاف پانی کے تالاب پر گئے جو مسجد نبوی شریف کے قریب ہی تھا۔ وہاں غسل کیا اور واپس مسجد میں آئے اور حضور کریمﷺ کے سامنے ادب و احترام سے بیٹھ گئے اور کلمہ پڑھ کر اسلامی معاشرے کے ممبر بن گئے۔
لوگو! یہ تھا حضور کریمﷺ کا زمانہ‘ جو نبوت و رحمت کا زمانہ اور دور تھا۔ نہ بدلہ تھا۔ نہ دشمنوں سے انتقام تھا۔ پس رحم ہی رحم اور درگزر کا انداز تھا۔ واحد مقصد بس ایک تھا کہ ہر ایک کا سینہ اسلام کا حصار بن جائے۔ جب وہ دنیا سے جائے تو فردوس کا حقدار بن جائے۔ اس کے لیے فرشتوں کا سلام ہو اور رب کریم کا دیدار ہو۔ اللہ کے حضور دعا ہے کہ میرے دیس پاکستان‘ جو آج سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے‘ کے حکمرانوں کا کردار مدینے کی ریاست کا آئینہ دار ہو جائے۔