اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں سے ایک اہم اور نمایاں ترین صفاتی نام ''الخالق‘‘ ہے۔ تخلیق اور پیدائش اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات ازلی اور ابدی ہیں یعنی ان صفات کا ظہور ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ ہمیشہ ہوتا رہے گا سورۃ الرحمن میں ہے: ''آسمانوں اور زمین میں جو کوئی بھی ہے‘ اسی کے در کا سوالی ہے وہ ہر لمحہ اِک نئی شان میں ہے‘‘۔ ہماری اس کائنات کے ایک چھوٹے سے حصّے میں اربوں کھربوں مخلوقات وجود میں آ کر مٹ گئیں۔ اربوں‘ کھربوں نئی سے نئی وجود میں آ گئیں اور یہ سلسلہ کائنات کی تخلیق سے آج تک جاری ہے اور جب تک یہ کائنات باقی رہے گی تخلیق کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ فنا اور موت کا سلسلہ بھی جاری رہے گا۔ سائنسدانوں کی تحقیق کے مطابق ہماری یہ موجودہ کائنات 13.8 ارب سال سے موجود ہے۔ یہ پیدا ہوئی تھی۔ یہ وجود میں آئی تھی۔ یہ وجود میں آئی تو ٹائم یعنی وقت بھی اس کے ساتھ ہی وجود میں آیا یعنی وقت بھی ایک مخلوق ہے۔ ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ تقریباً چودہ ارب سال پہلے یہ کائنات وجود میں آئی تو اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے کوئی کائنات نہیں بنائی یا یہ کہ ہماری موجودہ کائنات کو اللہ تعالیٰ نے بنایا اور اسے بنانے کے بعد کیا اللہ تعالیٰ نے مزید کوئی کائنات نہیں بنائی؟ کتاب و سنت کے مطالعہ سے جواب ملتا ہے کہ ایسا بالکل نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ہر صفت ازلی اور ابدی ہے۔ وہ پیدا فرمانے والا ہے لہٰذا پیدائش یعنی مخلوقات کو پیدا کرنا اس کی صفت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں کہ ہماری اس کائنات کی پیدائش سے پہلے ''کُنْ‘‘ کا لفظ کتنی بار استعمال ہوا اور کس قدر اربوں‘ کھربوں کائناتیں وجود میں آ گئیں۔ پھر اس کائنات کی پیدائش کے بعد اللہ تعالیٰ نے کُنْ کہہ کر کس قدر مزید بے شمار کائناتیں بنا ڈالیں اور یہ سلسلہ تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جاری و ساری رہے گا۔
عربی لغت میں ''یوم‘‘ سے مراد وہ دن بھی ہے جو ہمارا دن ہے یعنی آج کا ایک دن اور اس دن کا دورانیہ (بشمول رات) 24گھنٹوں پر مشتمل ہے؛ تاہم اس سے مراد چھوٹے سے چھوٹا لمحہ بھی ہے۔ اس لمحے کے اندر اللہ تعالیٰ ہماری کائنات کے اندر بھی ہر لمحہ نئی شان میں جلوہ گر ہے اور بے شمار کائناتوں کی تخلیق اور ان کے اندر کی مخلوقات کے لیے بھی ہر دم اِک نئی شان میں ہے۔ اس آیت سے اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ واضح کر دیتے ہیں کہ ''اے دو گروہو (جنّات اور انسانو!) ہم جلد ہی تمہارے طرف متوجہ ہوتے ہیں (الرحمن:31) یعنی دیگر کائناتوں کی مخلوقات کے حساب کتاب ہو رہے ہیں۔ تمہارے حساب کتاب کا وقت بھی آیا چاہتا ہے۔ لہٰذا اصل بات یہ ہے کہ ہم اپنی تیاری کر لیں‘ یہ حساب کتاب تو ازل سے جاری ہیں‘ جاری رہیں گے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی تفسیر امام طبری نے معتبر سند کے ساتھ نقل کی ہے کہ قرآنِ مجید کے مذکورہ الفاظ بندوں کے لیے اشارہ ہیں وگرنہ ایسا نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ایک مشغولیت دوسرے کام سے روک رہی ہے۔ جی ہاں! ہمارا استدلال یہاں پر یہ ہے کہ اس مقام پر بے شمار کائناتوں کی لاتعداد مخلوقات کے حسابات بھی مراد ہیں۔
سائنسدانوں میں سے بہت سارے سائنسدان ایک عرصہ سے یہ مؤقف اپنائے ہوئے ہیں کہ یہاں ہماری ہی نہیں بلکہ بے شمار کائناتیں وجود رکھتی ہیں۔ روس کے چوٹی کے سائنسدان نہ صرف اس مؤقف کا اظہار کر چکے ہیں بلکہ ایک خالق کے وجود کو بھی ناگزیر قرار دے چکے ہیں۔ ایسے سائنس دان امریکہ اور یورپ سے بھی تعلق رکھتے ہیں؛ تاہم یہاں ایک ایسی خاتون سائنسدان کی ریسرچ کو ہی ہم موضوعِ سخن بنا رہے ہیں جس کی تحقیق تازہ ترین ہے۔ اس خاتون کا تعلق امریکہ کی یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا سے ہے۔ یہCosmologist میں پروفیسر ہیں۔ فزکس میں اسی طرح نظریاتی سائنسدان ہیں جس طرح سٹیفن ہاکنگ تھے۔ ان کا نام Laura Mersini Houghton ہے۔ یاد رہے سائنسی نظریہ یہ ہے کہ ایک عظیم دھماکے (بگ بینگ) سے جب ہماری کائنات وجود میں آئی تو تب سپیس (خلا) میں ایسی لہر (Wave) پیدا ہوئی جو ٹھنڈی ہونے کے بعد آج بھی کائنات کے ہر گوشے میں موجود ہے۔ یہ ثابت شدہ سائنسی حقیقت ہے۔ اس کا نقشہ بھی معروف ہے۔ان ویووز کو سائنسی زبان میںCosmic Background Waves کہتے ہیں۔ پروفیسر لارا کہتی ہیں کہ مذکورہ ویووز میں ہی ایک ایسی Wave ہے جسے وہ Wave Function کہتی ہیں کہ اس کا تعلق ''پچھلی کائنات‘‘ سے ہے۔ اس سے ہی دیگر چیزوں نے جنم لیا ہے یعنی کائنات سے کائنات جنم لے رہی ہے۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ اس کے پیچھے ایک سوچ کارفرما ہے۔ اللہ اللہ! اس سوچ سے مراد وہ ''کُنْ‘‘ ہی ہے کہ جس کے اندر مکمل منصوبہ بندی ہے۔
قرآنِ مجید واضح کرتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی شئے کو وجود بخشنے کا ارادہ کرتے ہیں تو کُنْ کہتے ہیں اور مذکورہ شئے وجود میں آ جاتی ہے۔ اسی لیے تمام سائنسدان اور ان کے سائنسی میگزینز ابتدائی کائنات کو ''نومولود بچے‘‘ سے تشبیہ دیتے ہیں۔ سورئہ اخلاص یہی سبق پڑھاتی ہے کہ ''اللہ ایک ہے۔ اللہ بے نیاز ہے۔ نہ اس سے کسی نے جنم لیا اور نہ ہی وہ کسی شئے سے جنم دیا گیا۔ اس کا ہمسر کوئی بھی نہیں‘‘۔ اسی طرح اللہ کے رسولﷺ سے جو اذکار ثابت ہیں ان میں سے ایک ذکر اس طرح ہے ''اے اللہ‘ اے رب ہمارے! تیرے ہی لیے حمد ہے اس قدر کہ جس سے تمام آسمان اور زمین بھر جائے اور جو ان کے درمیان ہے وہ بھی بھر جائے اور اس کے بعد جو شئے آپ چاہیں‘ وہ بھی بھر جائے‘‘ (مسلم: 477) قارئین کرام! غور فرمائیں کہ جب تمام آسمان اور زمین اور ان کے درمیان کے خلا وغیرہ سب کچھ اللہ کی حمد سے بھر جائیں گے تو اس کے بعد جو مزید بھرنے کی دعا ہے‘ اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مزید کائناتیں بھی ہیں۔ ان کو بھرنے کی دعا اللہ کے رسولﷺ اپنے کلمہ پڑھنے والوں کو سکھا رہے ہیں یعنی ہمارے حضور کریمﷺ کی حدیث شریف بھی اطلاع دے رہی ہے کہ یہاں کائناتیں اور بھی ہیں۔
ہمارے حضورﷺ پر وحی کا آغاز ہوا تو ''اِقْرأ‘‘ سے آغاز ہوا،یعنی پڑھو اپنے اس رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔ پیدا کیا انسان کو (جونک نما) خون کے لوتھڑے سے‘‘(سورۃ العلق) جی ہاں! پیغام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بے شمار کائناتیں پیدا فرمائیں۔ ان کائناتوں میں ایک کائنات کے اندر‘ ایک لمبے عرصے کے بعد انسان کو پیدا فرمایا۔ چونکہ قرآن کا آفاقی پیغام انسان کے لیے ہے اس لیے اس کی تخلیق کا ذکر فرمایا اور اس کی تخلیق کے ابتدائی تمام مراحل کو چھوڑ کر ''عَلَقَۃْ‘‘ سے آغاز کیا۔ جی ہاں! جب ''عَلَقَۃْ‘‘ سے پیچھے جائیں گے تو ایک گھٹیا سے پانی کی ایک بوند دکھائی دے گی۔ اس کے پیچھے ایک مرد اور ایک عورت دکھائی دیں گے۔ پھر ان دو کے ماں باپ‘ پیچھے جاتے چلے جائیں‘ حضرت آدم اور حضرت حوّا علیہما السلام تک بات جائے گی۔ ان کے پیچھے مٹی اور مٹی کے ساتھ ملا ہوا پانی‘ یعنی گارے تک بات جائے گی۔ اس مٹی کے پیچھے جائیں تو بات ستاروں تک جائے گی۔ ستاروں کے پیچھے اندھیروں میں پرورش پاتی کائنات دکھائی دے گی۔ اس کے پیچھے ''کُنْ فَیْکُوْن‘‘ کا آرڈر ہے۔ یہ آرڈر دینے والا خالق ہے۔ اس خالق نے ''لوحِ محفوظ‘‘ میں جس آخری کتاب کو آخری رسولِ گرامی حضرت محمد کریمﷺ پر نازل فرمایا تھا‘ اس کا آغاز اللہ کے پاک نام سے ہے۔ اور پھر انسان کو سبق پڑھایا کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے کا شکر یوں ادا کرے: ''اَلْحَمْدُ لِلّٰہ رَبِّ العَالَمِیْن‘‘ سب تعریف اس اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔ پیغام یہ ہے کہ انسانوں کا جہان، جنّات کا جہان، پرندوں کا جہان، مچھلیوں کا جہان۔ اور بے شمار جہان اسی زمین پر ہیں‘ سمندر میں ہیں۔ فضاؤں میں ہیں۔ یہ بھی شرح بالکل ٹھیک ہے مگر بات اس سے آگے کی بھی ہے کہ جہان تو بے شمار ہیں۔ اَن گنت اور لاتعداد ہیں۔ پروفیسر لارا کہتی ہے کہ ہمارا جہان یعنی کائنات دیگر کائناتوں کے مقابلے میں ریت کے ذرّہ کا انتہائی چھوٹا سا ٹکڑا ہے۔ لوگو! انسان باہم لڑ رہے ہیں اور لڑتے چلے جا رہے ہیں وہ جن چیزوں کو بڑا سمجھ کر لڑ رہے ہیں‘ ذرا ان کی حیثیت پر غور کریں اور پھر اپنے خالق کی بڑائی کو دیکھ لیں تو اللہ کی قسم! ایک ذرّے جیسے جہان میں زمین کے ایک ٹکڑے کی بادشاہت نامی شئے انتہائی حقیر ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی اور اپنے حبیبﷺ کی محبت عطا فرمائے، آمین!