اللہ تعالیٰ کی صناعی کا بہترین نمونہ انسان زمین پر اتارا گیا تو اسے رہائش کے لیے جگہ کی ضرورت تھی۔ جو انسان پہاڑی علاقوں میں رہتا تھا‘ اس نے پتھروں کی دیواریں بنا لیں۔ وہ انسان جو میدانی علاقوں میں آباد ہوا تھا‘ اس نے کچی اینٹوں کی دیواریں بنا لیں۔ انسان ترقی یافتہ ہوا تو پتھروں کی تراش خراش کرتے ہوئے دیواروں کو خوبصورت بنا لیا۔ میدانی انسان نے پہلے کچی اینٹوں کا سانچہ بنایا پھر انہی اینٹوں کو پختہ بنا لیا۔ آج یہ اینٹیں کئی اقسام کی ہیں۔ عمارتیں سو سو منزلہ ہیں۔ کنسٹرکشن کی انڈسٹری میں ایک انقلاب برپا ہو چکا ہے۔ حکمرانوں کی حکمرانی کی عظمت اسی شعبے سے وابستہ سمجھی جاتی ہے۔ پرانی کنسٹرکشن گزرے ہوئے حکمرانوں کا ورثہ بنتی جا رہی ہے جبکہ نئی کنسٹرکشن نئے حکمران کی عظمت کے نقوش نمایاں کرتی ہے۔
قرآنِ مجید آخری الہامی کتاب ہے جو اللہ کے آخری رسول حضرت محمد کریمﷺ پر نازل ہوئی ہے۔ یہ انسان کو باور کراتی ہے کہ اے اینٹوں سے بلڈنگ، کوٹھی، بنگلہ، مکان وغیرہ بنانے والے! کبھی سوچا ہے کہ تیرا جسم بھی اینٹوں سے بنایا گیا ہے۔ تیرا جسم ایک مکان ہے، کوٹھی ہے، بنگلہ ہے۔ کیا تجھے معلوم ہے کہ تیرا بنگلہ کیسی اینٹوں سے بنایا گیا ہے؟ جی ہاں! غور و فکر نہ کرنے والے انسان کو آخری کتاب قرآنِ مجید کچھ اس طرح جھنجھوڑ کر آگاہ کرتی ہے۔ فرمایا ''برباد کر دیا گیا انسان (کہ دنیا کی عمارتوں کے حسن میں گم ہو کر) اللہ کا کیسا انکاری بن گیا (کہ بھول بھی گیا) اسے کس شئے (سے) اللہ نے پیدا کیا۔ ایک پانی کی بوند سے اسے پیدا کیا۔ (اسی قطرے سے (اس کی تعمیر ہوتی رہی) اس کی تقدیر کو لکھ دیا گیا (کہ کون سا خلیہ گردے میں اور کون سا دماغ اور دل وغیرہ میں جا کر لگے گا، اور جب یہ تخلیق مکمل ہوئی تو) پھر دنیا میں آنے کا اس کا راستہ آسان کر دیا۔ پھر (بوڑھا کر کے) اسے قبر میں ڈال دیا۔ پھر جب بنانے والا اللہ چاہے گا‘ اسے دوبارہ اٹھا کھڑا کرے گا‘‘ (سورہ عبس:17تا22)
لوگو! ذرا غور کرو کہ کیا آج کی ترقی یافتہ دنیا میں امریکہ، چین، روس، یورپی طاقتیں، عرب ممالک وغیرہ میں سے کوئی ہے جس نے ایسی بلڈنگ بنائی ہو جو ایک ارب اینٹوں سے بنی ہو۔ بالکل بھی نہیں! انسانی جسم ایک ایسی بلڈنگ ہے جو ایک ارب نہیں بلکہ 100 کھرب اینٹوں سے بنائی گئی ہے۔ ان کھربوں اینٹوں میں سے ہر اینٹ ایک شاہکار ہے۔ اس اینٹ کو سیل (Cell) یا خلیہ کہا جاتا ہے۔ اس خلیے یا انسانی اینٹ کے اندر اتنا بڑا شہر آباد ہے کہ آج کی سائنس تخمینہ لگاتی ہے کہ اگر انسان کے اندر موجود سیلز کو انسان کے ہاتھوں سے بنے ہوئے شہر کی شکل دے دی جائے تو یہ نیو یارک، لندن، ٹوکیو، کراچی، کلکتہ اور لاہور جتنے بڑے شہر بن جائیں مگر کس قدر عظیم ہے اس اینٹ (سیل) کا خالق کہ اس نے 100کھرب اینٹوں کی ایسی بلڈنگ بنائی جو زندہ اور باشعور ہے۔ یہ زمین پر اینٹیں بناتی پھرتی ہیں اس کی جسامت عموماً ساڑھے پانچ سے چھ فٹ تک ہے۔ اس انسان کی اینٹ دو اینٹوں سے مل کر بنی۔ ایک مردانہ اینٹ تھی جو اپنے اندر مرد کے آبا ئو اجداد کی خصوصیات کو لیے ہوئے تھی۔ دوسری زنانہ اینٹ تھی جو عورت کے آبائو اجداد کی خصوصیات کو اپنے اندر سموئے ہوئے تھی۔ یہ دونوں اینٹیں ایک لیبارٹری میں ملا دی گئیں تو یکجا ہو گئیں۔ پھر دو، چار، آٹھ اور سولہ کے حساب سے بنتی چلی گئیں۔ اس بلڈنگ یا عمارت کا معمار ان اینٹوں کو جوڑتا چلا گیا۔ صرف 42 دنوں میں 100 کھرب اینٹیں اپنی اپنی جگہ پر پہنچ چکی تھیں یہ اس قدر تیزی اور خوبصورتی سے جوڑی گئیں کہ عمارت کے تمام شعبے اور حصّے مکمل ہو گئے۔ دل، گردے، معدہ، انتڑیاں، دماغ، جگر، کان، آنکھیں، زبان، ہونٹ، رخسار، بازو، ہاتھ، ٹانگیں، پاؤں، انگلیاں، ہڈیاں، ان کے اندر گودا، شریانیں، ان کے اندر دوڑنے والا خون، الغرض! سب کچھ مکمل ہو گیا۔ مکمل ہونے کے بعد فنشنگ ہونے میں اسے 9ماہ لگ گئے۔ یہ اب اپنی ماں کی گود میں تھا۔ سارا خاندان خوشیوں سے مٹھائی بانٹ رہا تھا۔
100کھرب اینٹوں یعنی خلیات میں سے ہر خلیے یا اینٹ میں ایک ''ڈی این اے‘‘ ہوتا ہے۔ اسے آسانی سے یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ جیسے اسلام آباد میں ایک سیکٹر ہوتا ہے یا لاہور اور کراچی جیسے شہروں میں ایک محلہ ہوتا ہے۔ اس ڈی این اے میں ایک بہت بڑی کتاب ہوتی ہے اس میں انسان کے تمام خواص پر مشتمل معلومات ہوتی ہیں۔ ان معلومات کی تعداد تین ارب ہوتی ہے۔ ان معلومات کو اگر ہم لکھنے بیٹھ جائیں تو کم از کم ایک ہزار جلدیں بن جائیں گی۔ ہر جلد اگر 10لاکھ الفاظ پر بھی مشتمل ہو تو ایسی کتاب کو کمپیوٹر پر کمپوز کرنے کے لیے لگ بھگ ایک سو سال لگیں گے۔ اللہ اللہ! یہ ایک خلیے یعنی ڈی این اے میں موجود ایک کتاب کا حال ہے تو جناب! ایک ہزار جلدیں کون کمپوز کرے گا۔ پھر 100 کھرب اینٹوں کے اندر جو ڈی این اے ہیں اس تعداد کے لحاظ سے کتابوں کا حساب لگایا جائے تو ہر ایک پاکستانی‘ ہر ایک شخص پر اس قدر کتابیں تیار ہو جائیں گی کہ ساری دنیا کتابوں سے بھر جائے گی تب اندازہ لگائیں کہ دنیا کے باقی آٹھ ارب انسان کہاں جائیں گے؟
اللہ تعالیٰ اپنی آخری کتاب میں مرد و عورت‘ دونوں کو مخاطب فرماتے ہیں تو ''النّاس‘‘ کا لفظ استعمال فرماتے ہیں۔ ہر انسان اپنے جسم کی سائنس یا علم سے اس قدر بے خبر ہے کہ اس کا علم نہ ہونے کے برابر ہے۔ بیالوجی کے ماہرین اور ڈاکٹرز جو کچھ جانتے ہیں وہ محض علم کے سمندروں کے شاید ایک قطرے کے برابر یا اس سے بھی کم ہو۔ اس لیے قرآنِ مجید نے انسان کو ''جَھُوْلاً‘‘ کہا ہے یعنی یہ جاہل اور نادان ہے۔
قارئین کرام! یہ مادی جسم کی باتیں ہیں۔ اگر ہم اس کے شعور پر غور کر دیں تو وہ تو انسان کی روح سے متعلق ہے۔ یعنی اصل انسان جس کو مخاطب کیا جاتا ہے‘ وہ انسان کی روح ہے۔ روح کا مسکن یا گھر جسم ہے۔ یہ جسم جب 42دنوں سے آگے بڑھ کر 43ویں اور 44ویں دن میں داخل ہوا تو آسمان سے فرشتہ آیا اور انسان کی روح کو اس جسم میں ڈال دیا جو اس کی قسمت میں اس کے خالق نے لکھ رکھا تھا۔ روح کو پیدا فرمانے والا بھی اللہ اور اس جسم کو بنانے والا بھی اللہ ہے۔ جب یہ مرے گا تو موت اسی کا نام ہے کہ ایک فرشتہ آئے گا اور اسے (روح کو) واپس لے جائے گا۔ جسم مٹی سے بنا تھا‘ وہ واپس مٹی یا قبر میں مٹی بن جائے گا۔ روح آسمان سے آئی تھی‘ وہ واپس آسمان میں چلی جائے گی۔ انسانی جسم کی بلڈنگ عارضی اور فانی ہے۔ اور یہ جسم اپنی راحت کے لیے زمین پر جو کچی‘ پکی اینٹوں کی عمارت بناتا ہے وہ بھی عارضی ہے‘ اسے بھی آخر کار مٹی میں واپس ہو کر مٹی بننا ہے۔ اصل انسان یعنی روحانی انسان کا المیہ یہ ہے کہ وہ سارا زور مٹی کی بنی ہوئی دو عمارتوں (اپنے جسم اور اپنے گھر) پر لگا دیتا ہے اور اپنے آپ کو یکسر نظر انداز کر دیتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو ''جَھُوْلاً‘‘ قرار دیا ہے۔
میرے ملک پاکستان میں اقتدار کی جو عمارتیں ہیں‘ ان میں ایوانِ صدر، وزیراعظم ہاؤس، قومی اسمبلی کا ایوان، سینیٹ کا ایوان، وزیراعلیٰ ہاؤس، وزیروں کے دفاتر، بیورو کریسی کے دفاتر بڑی کشش رکھتے ہیں۔ ان تک پہنچنے کے لیے جو لوگ جدوجہد کرتے ہیں وہ سیاستدان ہیں۔ بیورو کریسی بھی انہی کے ماتحت آ جاتی ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ ان ایوانوں کے بڑے بڑے دفاتر میں جو بھی پہلے دن داخل ہو‘ وہ وہاں اُس تختی کو ضرور پڑھے جس پر گزرے ہوئے لوگوں کے نام لکھے ہوتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر افراد قبروں میں ہوں گے اور تھوڑے بہت ایسے ہوں گے جو بڑھاپے کا شکار ہو کر گوشۂ گمنامی میں زندگی گزار رہے ہوں گے اور کسی بھی وقت قبر کے مہمان بن سکتے ہیں۔ پہلے دن کرسی پر بیٹھنے والے کو سمجھ لینا چاہیے کہ جس طرح تختی والے سابق ہوئے‘ عنقریب وہ بھی سابق ہونے والا ہے۔ وہ یہاں سے نکل کر اپنے محل نما گھر میں جائے گا‘ تب بھی وہ سابق ہو جائے گا۔ اپنے محل سے نکل کر قبر میں جائے گا‘ تب بھی وہ سابق ہے۔ سابق اور ایکس کا نام دفتر کی تختی میں لکھا جانے والا ہے۔ اس دفتر میں بیٹھ کر اس نے جو جو کیا‘ وہ تاریخ کا حصّہ بن کر انسانی زبانوں پر تو آئے گا۔ قلم کے ذریعے قرطاس پر لکھا بھی جائے گا مگر اصل تحریر وہ ہے کہ اصل انسان کو لینے والا (فرشتہ) جونہی آ کر اس کے سرہانے بیٹھے گا تو اس کی دنیا کی زندگی کی ساری کارکردگی کی تحریر اس کے سامنے آ جائے گی۔ ڈی این اے پر تحریر لکھنے والے معمار‘ انسان کے حقیقی خالق و مالک نے روح پر اعمال کی تحریر بھی لکھی ہے۔ یہ تحریر روح کی آنکھ تب پڑھے گی جب جسم کی آنکھ بند ہو جائے گی۔ حضورﷺ کا ایک فرمان صحیح بخاری میں روایت ہوا ہے کہ تب جنت کا محل بھی وہ آنکھ دیکھے گی۔ ساتھ ہی جہنم کا ٹھکانا بھی دیکھے گی۔ کہا جائے گا: تیرا ٹھکانہ تو جنت کا محل تھا مگر تیرا کردار تجھے جہنمی بنا گیا ہے۔ اس طرح کسی کا جہنم کا گھر کینسل کر کے اسے جنت کا گھر الاٹ کیا جائے گا۔