اللہ تعالیٰ نے اہلِ اسلام کو خوشیوں اور مسرتوں سے لبریز جو تحفہ دیا ہے اس کا نام ''عید‘‘ ہے۔ قرآنِ مجید کی ''سورۃ البروج‘‘ میں اللہ تعالیٰ کی ایک صفت کا اظہار اس طرح ہوا ہے کہ ''بلاشبہ وہی ہے جو (مخلوقات) کا آغاز کرتا ہے اور (عدم میں لے جا کر) واپس پہلی حالت میں لاتا ہے‘‘۔ (آیت: 13) یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب میں جو لفظ استعمال فرمایا ہے وہ ''یعید‘‘ ہے۔ جی ہاں! عربی میں اس کا مادہ یا بنیادی روٹ ''عید‘‘ ہے۔ اسلامی اصطلاح میں ''عید‘‘ وہ جشن ہے جو پلٹ پلٹ کر ہر سال ایک مقررہ تاریخ کو آتا ہے۔ اہلِ اسلام اسے خوشی اور مسرت کے طور پر مناتے ہیں۔
عید کے بارے میں سمجھنا چاہیے کہ جب پوری انسانیت کو اوور ہالنگ کی ضرورت تھی۔ ناکارگی اور فرسودگی اس کا مقدر بن چکی تھی۔ نبیوں اور رسولوں کی الہامی تعلیمات سے منہ موڑ لیا گیا تھا۔ الہامی کتابوں میں تحریف ہو چکی تھی‘ جن عظیم رسولوں پر یہ کتابیں نازل ہوئی تھیں‘ ان کی اصل اور روشن زندگیاں انسانیت کی نظروں سے اوجھل ہو چکی تھیں تب زمانے نے کروٹ بدلی۔ ایک عظیم شخصیت صفحۂ ہستی پر نمودار ہوئی۔ انہیں قرآن مجید جیسی آخری کتاب سے نوازا گیا۔ اس عظیم شخصیت کا اسم گرامی حضرت محمد کریمﷺ ہے اور جو کتاب عطا فرمائی گئی اسے ''فرقانِ حمید‘‘ کا نام دیا گیا۔
یہ قرآنِ مجید جس مہینے میں عطا فرمایا گیا‘ رب رحمان نے فیصلہ فرمایا کہ ہر سال جب بھی یہ مہینہ آئے گا تو اہلِ اسلام روزے رکھیں گے؛ یعنی رمضان المبارک۔ اس ماہِ مبارک میں سحری اور افطاری کے کھانے خود بھی کھائیں گے اور اپنے اہلِ اسلام بھائیوں اور بہنوں کو بھی کھلائیں گے۔ اس مہینے کی راتوں کو قیام کریں گے۔ مکمل قرآنِ کریم سنیں گے اور سنائیں گے۔ اپنی زندگیوں کو قرآنِ پاک کی تعلیمات کے مطابق بنائیں گے۔ جھوٹ، حسد، کینہ پروری اور غیبتوں سے اپنی جان چھڑائیں گے۔ طعنہ زنی، بہتان طرازی اور عیب جوئی سے اپنے آپ کو بچائیں گے۔ اعلیٰ اخلاق اور گفتار و کردار میں نرمی کو اختیار کریں گے۔ ہر کسی کی خیر خواہی کے لیے اپنے جذبات کو قرآن اور صاحبِ قرآن حضور کریمﷺ کی سیرت پاک کے الہامی پانی سے سیراب کرتے رہیں گے۔ رمضان المبارک کا پورا مہینہ جب روحانی مشق کر لیں گے تو اگلے مہینے کا چاند جونہی دیکھیں گے‘ اس کی پہلی تاریخ اور پہلی تاریخ کی اوّلین صبح کو عید کا جشن منائیں گے۔ یہ جشن حضور نبی کریمﷺ کی نبوت و رسالت کا جشن ہے۔ نئی آخری الہامی کتاب یعنی قرآنِ مجید کے ملنے کا جشن ہے۔
اہلِ اسلام کو ''صدقۂ فطر‘‘ کی ادائیگی مبارک ہو کہ اس کا مقصد مساکین کو عید کے تہوار میں شامل کرنا ہے۔ صدقۂ فطر کے علاوہ کھلے دل کے ساتھ خرچ کرنا بھی مبارک ہو کہ اس ماہِ مبارک میں حضور کریمﷺ تیز آندھی کی طرح ضرورتمندوں میں خرچ فرماتے تھے تاکہ وہ پورے قد کاٹھ کے ساتھ مسلمانوں کے سالانہ جشن یعنی عید کی خوشیوں میں شریک ہو سکیں۔ جس صاحبِ مال نے ایسا کیا‘ اسے عید مبارک ہو! کہ اس نے سرکارِ مدینہ حضور کریمﷺ کی سنّت کو دل سے لگایا۔ نئے کپڑے اور خوشبوئیں لگانا مبارک ہو کہ زمین پر بسنے والی ہر آبادی، ہر شہر اور ہر قریہ خوشیوں، شادمانیوں اور طرح طرح کی خوشبوؤں سے مہک اٹھا ہے کہ انسانیت کی بلند و بالا قسمت اور مقدر کے کیا ہی کہنے کہ انہیں حضرت محمدﷺ اور ان کے لاثانی الہام و پیغام کے نگینے ملے ہیں۔ انہیں تکبیر و تحلیل اور تحمید کا ترانہ مبارک ہو کہ اہلِ اسلام کے مرد، عورتیں اور بچے اپنی بستیوں سے باہر نکل کر کھلے میدانوں کی جانب جا رہے ہیں۔ اللہ کی کبریائی اور حمد کا گیت بلند آواز سے گاتے اور گنگناتے جا رہے ہیں۔ اللہ اللہ! ساری زمین اللہ کی بڑائی اور اللہ کی حمد کے خوبصورت الفاظ سے بھر دی گئی ہے۔ شکر کے جذبات سے لبریز کر دی گئی ہے۔ اہلِ زمین کو گواہ بنا کر اس عزم کا اظہار کر دیا گیا ہے کہ اگلے گیارہ مہینے اہلِ اسلام اس طرح گزاریں گے کہ ان کے ہر فرد کا کردار ساری انسانیت کے لیے حق اور سچ، محبت اور مودّت، رحمت اور رافت، نرمی اور کشادگی کا آئینہ دار بن جائے گا۔ اس طرح کی عید‘ جو اہلِ اسلام منانے جا رہے ہیں‘ ان کو مبارک ہو کہ ایسی عید ساری زمین اور ساری انسانیت کے لیے برکتوں کا باعث ہے۔
لوگو! قرآن مجید کی ایک سورت ''الانبیاء‘‘ ہے۔ یعنی سارے نبیوں اور رسولوں نے ایک ایسے دن کی بھی اپنی اپنی قوم کو خبر دی ہے کہ وہ آنے والا ہے۔ مولا کریم فرماتے ہیں ''اس دن ہم آسمان کو اس طرح لپیٹ دیں گے جس طرح (کاتب) کتابوں کے صفحات کو لپیٹ دیتا ہے (کپڑے کا تھان ایک رول پر لپیٹ دیا جاتا ہے) جس طرح ہم نے (کائنات کی) پہلی پیدائش کا آغاز کیا تھا (اسے عدم میں لے جانے کے بعد) دوبارہ ''نعیدہٗ‘‘ (نئے سرے سے دہرائیں گے)۔ ہمارے ذمہ یہ وعدہ ہے۔ ہم (وعدوں کو) ہمیشہ پورا کرنے والے ہیں‘‘ (الانبیاء:104)۔جی ہاں! مذکورہ آیت میں عید کا لفظ دہرانے کے معنی میں آیا ہے؛ یعنی جس کسی نے دنیا میں حضور کریمﷺ کی دی ہوئی عید کا حق ادا کر دیا‘ قیامت کا دن اس کے لیے حقیقی عید کا دن بن جائے گا۔ کیسے؟ قرآنِ مجید کا پیغام ملاحظہ ہو۔
فرمایا ''ایسے لوگوں کو (قیامت کے دن کی) جو سب سے بڑی گھبراہٹ ہوگی۔ وہ گھبراہٹ ان لوگوں کو غم میں مبتلا نہ کر سکے گی۔ ایسے لوگوں کو (استقبال کرتے ہوئے) آگے سے وصول کرنے کے لیے فرشتے آئیں گے۔ وہ کہیں گے: جناب والا! یہ تو تمہارا وہ دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔ (یہ تو عید کا دن ہے) (الانبیاء:103)۔ قارئین کرام! اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ''ہم نے تو (داؤد علیہ السلام کو دی گئی کتاب) زبور میں بھی نصیحت کرتے ہوئے لکھ دیا تھا کہ (جنت کی) زمین کے وارث میرے نیک بندے بنیں گے۔ اس میں ان لوگوں کے لیے یقینا ایک پیغام ہے جو (پچھلی کتابوں کو چھوڑ کر اب قرآن کو اپناتے ہوئے) عبادت کرنے والے ہیں۔ اور (میرے حبیبؐ!) ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے سراسر رحمت بنا کر بھیجا ہے‘‘ (الانبیاء: 105تا107)
قارئین کرام! سورۃ الانبیاء کی آیت 107 کا ایک اور ترجمہ بھی مترجمین نے کیا ہے اور معروف مفسرِ قرآن حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ نے بھی یہی ترجمہ کیا ہے کہ ''ہم نے سا رے جہانوں پر رحم کرتے ہوئے آپﷺ کو بھیجا ہے‘‘۔ جی ہاں! ساری انسانیت پر جب اللہ تعالیٰ نے رحم کرنے کا فیصلہ فرمایا تو حضرت محمد کریمﷺ کو رسول بنا کر بھیجا۔ یعنی حضور کریمﷺ کی تشریف آوری کے بعد اب قیامت کا دن ہر اس شخص کے لیے عید کا دن اس وقت بنے گا جب وہ حضور کریمﷺ کو ختم المرسلین مان کر زندگی گزارے گا۔ قرآنِ مجید ملنے کا جشن بطورِ عید حضور کریمﷺ کی سنت کے مطابق منائے گا۔ وہی قیامت کے دن فرشتوں کو اپنے استقبال کے لیے آتا ہوا دیکھے گا۔ دنیا میں عید گاہ کے میدانوں میں بھی فرشتے نازل ہوتے ہیں۔ قیامت کے دن بھی فرشتے آگے سے آ کر استقبال کریں گے۔ ''سورۃ الانبیاء‘‘ میں یہ پیغام اس لیے دیا گیا ہے کہ سارے نبیوں اور رسولوں کا آخری پیغام یہی تھا کہ ختم المرسلین حضرت محمد کریمﷺ ہوں گے۔ اے اللہ کریم! ہم سب کے لیے مذکورہ عید مبارک فرما دے، آمین!