اللہ تعالیٰ نے اڑنے والا ایک پتنگا بنایا۔ ایک لازوال شاہکار بنایا‘ ہمارے ہاں اسے مکھی کہا جاتا ہے۔ انگریزی میں اسے Bee کہا جاتا ہے۔ اسی کی قسم شہد کی مکھی ہے‘ جسے انگریزی میں Honeybee کہتے ہیں۔ اس کا چھتہ ایک ریاست کی مانند ہوتا ہے مگر یہ ایسی ریاست ہے جسے حیاتیاتی سائنسدانوں نے کالونی (colony) قرار دیا ہے۔ اس کا مطلب ایسی نیو سٹیٹ (نو آبادی) ہے جسے اپنے ملک سے باہر قائم کیا جائے‘ جیسا کہ انگریزوں نے اپنے ملک سے باہر ہندوستان اور دیگر کئی علاقوں میں اپنی حکمرانیاں یعنی کالونیاں بنائیں۔ شہد کی مکھیاں بھی اسی طرح انسانی گھروں‘ باغات‘ جنگلات اور پہاڑوں میں اپنے چھتے بناتی ہیں۔ سائنسدانوں نے اس کالونی کی تعریف اس طرح کی ہے:
The honeybee colony is a highly social unit with individuals working together for the benefit of the whole.
یہ کالونی ایک بہت بڑا سماجی معاشرہ ہے جو ایک ایک فرد (مکھی) کے ساتھ جڑا ہوا ہے‘ اس میں ہر فرد اکٹھا ہو کر سب کے فائدے کیلئے مل کرکام کرتا ہے۔
لوگو! ہم انسان اپنے آپ کو اشرف المخلوقات سمجھتے ہیں۔ خود کو دانش وعقل کا محور خیال کرتے ہیں۔ میری مراد ہم آج کے انسان‘ اور اہلِ پاکستان ہیں۔ اب ہم شہد کی مکھیوں کی جو کالونی ہے اس کا ایک جائزہ لیں گے اور اس کے بعد اپنے وطن عزیز کی حکمرانی کا جائزہ لیں گے اور دیکھیں گے کہ دونوں میں سے بہترین نظام کس کا ہے۔
شہد کی ریاست کے شہری صبح سویرے کام کاج کیلئے نکلے تو پھلوں پھولوں کا رس چوس کر واپس آنے لگے۔ یہ جونہی اپنی ریاست کی حدود میں داخل ہوتے تو پولیس کے دستے انہیں چھوئے بغیر جانچ لیتے کہ کون صحیح ہے اور کون غلط ہے؟ ایک شہری ایسا تھا جو قدرے مدہوشی کی حالت میں تھا۔ پولیس نے اسے فوراً گرفتار کر لیا۔ انہوں نے اپنے نظام کے تحت تفتیش کی تو پتا چلا کہ انگور کا رس چوستے ہوئے اس نے ایسے پرانے انگور کا رس چوسا جو صحت کیلئے موزوں نہ تھا۔ مزید یہ کہ اس میں نشے کا مواد بھی تھا۔ جب ثابت ہو گیا تو جج نے فیصلہ سنایا کہ اس کے ایک پَر کو اکھاڑ دیا جائے۔ یہ سزا سنا دی گئی تاکہ باقیوں کیلئے عبرت ہو۔ ایسے ہی کسی جرم میں ایک ٹانگ بھی کاٹ دی جاتی ہے۔ ٹانگ کاٹنے کی سزا کی وڈیو بھی آ چکی ہے۔ اس وڈیو پر تبصرہ کرتے ہوئے حیاتیاتی سائنسدانوں کے الفاظ ملاحظہ ہوں:
It is indeed a highly organized society where each bee has specialized roles that contribute to the colony's overall health and survival.
حقیقت یہ ہے کہ شہد کی مکھیوں کی جو حکمرانی ہے اسے انتہائی اعلیٰ پیمانے پر قائم کیا گیا ہے (یعنی سفارش‘ رشوت‘ اقربا پروری اور ظالمانہ ہتھکنڈوں سے یہ پاک ہے) یہاں ایسا نظام چل رہا ہے کہ ہر شہری کی ایک خصوصی ذمہ داری ہے جس کا فائدہ تمام شہریوں کو پہنچتا ہے اور بخوبی پہنچتا ہے اور یہی کردار ریاست کے تحفظ کا ضامن ہے۔
جی ہاں! اب ہم انسانوں کی بستی پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ کوئٹہ ہمارے صوبہ بلوچستان کا دارالحکومت ہے۔ یہاں سے کوئی 37 کلومیٹر کے فاصلے پر حنہ نامی تھانہ ہے۔ وہیں قریب یا کچھ دور ایک بستی ہے جہاں لوگ گاڑیاں لے کر کھڑے ہیں۔ ایک چالیس سالہ خاتون ان سے ذرا فاصلے پر کھڑی ہے۔ اس کے ہاتھ میں قرآن مجید ہے۔ وہ کہتی ہے: مجھے صرف گولی مارنے کا حکم ہے‘ گولی مار دو مگر میرے قریب کوئی نہ آئے۔ کوئی ایک شخص آگے بڑھتا ہے اور اس سے قرآن مجید لے لیتا ہے اور پھر چادر میں لپٹی اس خاتون کو سات گولیاں مار دی جاتی ہیں۔ اس خاتون کا نام بانو بی بی ہے‘ جس کے پانچ بچے ہیں۔ بڑے بیٹے کی عمر 17سال ہے۔ اس کے ساتھ ایک مرد ہے۔ احسان نامی اس شخص کی عمر 35 سال ہے۔ اس کے چار بچے ہیں۔ اسے نو گولیاں ماری جاتی ہیں۔ دونوں پر جو الزام تھا اس کا فیصلہ ایک جرگے نے سنایا تھا اور اسی کے حکم پر دونوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا۔ عورت پر رحم یوں کیا گیا کہ اسے دو گولیاں کم ماری گئیں۔ وہ لوگ جو اس سانحہ کی سنگینی کو نظر انداز کر رہے ہیں‘ انہیں ایسے عالیشان سماج کی اس خوبی کو اجاگر کرنے کیلئے سوشل میڈیا پر دھوم مچانی چاہیے؟ اس پر انا اللہ وانا الیہ راجعون ہی پڑھ سکتا ہوں۔ اللہ کی پناہ ان پتھر دل لوگوں سے جو مذکورہ واقعے پر غمگین نہیں ہیں۔
میرے وطن عزیز میں 2023ء میں غیرت کے نام پر 490 قتل ہوئے۔ 2024ء میں 392 خواتین قتل ہوئی ہیں۔ 2025ء میں اب تک 60 قتل ہو چکے ہیں۔ ہمارے عدالتی نظام میں ایسے مقدمات میں سزا کی شرح ایک فیصد سے بھی کم‘ یعنی صفر اعشاریہ پانچ فیصد ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہم انسانوں کی حکمرانی‘ شہد کی مکھیوں نامی پتنگوں کی حکمرانی کے مقابلے میں 99 فیصد سے بھی بڑھ کر ناکام اور خراب ہے۔ آئیے! اب قیامت کا ایک منظر ملاحظہ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے ''(اے انسانو!) زمین میں چلنے والا ہر جاندار اور اپنے دو پروں کے ساتھ اڑنے والا ہر پرندہ (پتنگا وغیرہ) تمہاری ہی طرح امتیں ہیں‘ ہم نے اپنی کتاب میں کسی چیز کی کمی نہیں رہنے دی۔ وقت آنے والا ہے یہ سب اپنے رب کے سامنے اکٹھے کرکے حاضر کر دیے جائیں گے‘‘ (الانعام: 28)۔
اللہ اللہ! شہد کی مکھیاں کوئی 124 ملین سالوں سے زمین پر اپنی ریاستیں قائم کر رہی ہیں۔ ہر ریاست کی ایک ملکہ ہے۔ ان حکمرانوں کی تعداد قیامت کے دن اربوں کھربوں میں ہو گی۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ تمام حکمران عدل و انصاف کی بنا پر کامیاب ہو جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان سے خوش ہو جائیں گے۔ زمین پر ہم انسانوں کی آبادکاری کوئی بیس تیس ہزار سال قبل ہوئی۔ انسانوں کے حکمران بھی کروڑوں کی تعداد میں ایک جانب کھڑے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ پوچھیں گے کہ اے انسانو! تمہارے نظام حکومت میں عدل کا کیا حال ہے؟ جی ہاں! شہد کی مکھیوں کی حکمرانی میں عدل کے تقاضے پورے ہوتے ہیں جبکہ انسانوں کی حکمرانیوں میں لاتعداد مقدمات اللہ تعالیٰ کے سامنے آئیں گے‘ جن میں پاکستان میں وقوع پذیر ہونے والا مقدمہ بھی شامل ہو گا کہ نان سٹیٹ ایکٹرز پنچایتوں‘ جرگوں کے نام پر خود ہی پولیس‘ خود ہی استغاثہ‘ خود ہی عدلیہ اور خود ہی جلاد بن جاتے ہیں۔ ڈیڑھ ماہ بعد ایک وڈیو کے ذریعے یہ واقعہ سامنے آتا ہے تو ہزار مصلحتیں حکمرانی کے پیروں کی بیڑیاں اور ہاتھوں کی ہتھکڑیاں بن جاتی ہیں۔ رسولﷺ اسی لیے تو رحمت دوعالم ہیں۔ صدقے قربان! ہمارے حضور عالیشانﷺ نے صرف دس برس میں انسانیت کو جکڑنے والی زنجیروں اور جکڑ بندیوں کو توڑ ڈالا تھا۔ ہم 78 سالہ جکڑ بندیوں سے کب آزاد ہو کر عادلانہ سسٹم میں زندگی گزاریں گے؟
اللہ کا عرش بھی کانپ اٹھا ہوگا کہ ایک مسلم خاتون ہاتھ میں قرآن پکڑے زبانِ حال سے فریاد کر رہی ہے کہ مجھے جو مارا جا رہا ہے کیا یہ قرآن کے نظام کے مطابق ہے؟ مجھے جو سمجھ آئی ہے اسے جو فکر لاحق ہوئی وہ اپنے جسم اور ستر کی فکر تھی کہ اس نام نہاد غیرت مند معاشرے کے لوگوں نے مجھے پتھر مارنے شروع کردیے تو مری بے بسی کی تصویریں دنیا دیکھے گی۔ تب میری شرم و حیا کا کیا بنے گا؟ اسی لیے وہ گویا قرآن کا واسطہ دے کر کہہ رہی تھی کہ مجھے پتھر مارنے کو آگے نہ بڑھنا‘گولی مار دو اور قصہ ختم۔ باقی مقدمہ قرآن نازل کرنے والے اور جس رحمت دو عالمﷺ پر یہ نازل ہوا‘ ان کے سامنے قیامت کو چلے گا۔ اے میرے پاک وطن کے بے خبر حکمرانو! آؤ! ہم سب اس دن کا انتظار کرتے ہیں۔