''احسن الخالقین‘‘ نے زمین پر سات براعظم بنائے۔ ان سات براعظموں میں ایک براعظم کا نام ''ایشیا‘‘ ہے۔ ایشیا کے اندر ایک زمینی ٹکڑا ایسا ہے جسے ''برصغیر‘‘ کہا جاتا ہے۔ برطانوی حکمرانی کی نگرانی میں اس برصغیر کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا گیا‘ یعنی دو ملک بنا دیے گئے۔ برصغیر کے بطن سے ظاہر ہونے والے یہ دو ملک پاکستان اور بھارت تھے۔ 14 اگست 1947ء کو پاکستان وجود میں آیا جبکہ 15 اگست 1947ء کو بھارت وجود میں آیا۔ میڈیکل کی دنیا کا اصول یہ ہے کہ دو جڑواں بچوں میں سے جو بچہ پہلے وجود میں آ جائے‘ وہ بڑا بھائی ہوتا ہے جبکہ جو بچہ بعد میں پیدا ہو اسے چھوٹا بھائی کہا جاتا ہے۔ یوں پاکستان بڑا بھائی ہے جبکہ بھارت چھوٹا بھائی ہے۔ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ رقبے اور آبادی کے اعتبار سے چھوٹا بھائی بڑی جسامت کا حامل ہے جبکہ بڑا بھائی رقبے اور آبادی کے لحاظ سے ذرا پتلا مگر صحتمند اور تیز طرار ہے۔ حالیہ جنگ میں سارے جہان نے بڑے بھائی یعنی پاکستان کی تیز طرار فاتحانہ صلاحیت کا نظارہ دیکھ لیا؛ چنانچہ امن کی خواہشمند دنیا خواہش کر رہی ہے کہ دونوں بھائیوں کے مابین امن اور صلح ضروری ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ امن کو جو شے متاثر کر رہی ہے وہ کشمیر کا المیہ ہے۔ چھوٹے بھائی یعنی بھارت نے اپنی سیاسی جسامت کے بل بوتے پر مسلم اکثریتی علاقے جموں وکشمیر پر قبضہ کر لیا۔ بڑا بھائی اس قبضے کو چھڑوانے میں متواتر لگا ہوا ہے۔
چھوٹے بھائی نے اپنے بڑے بھائی کو اس کا حق لوٹانے کے بجائے پانچ اگست 2019ء کو کشمیر کا خصوصی درجہ اپنے آئین سے ختم کر دیا۔ حالانکہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور قراردادوں کے مطابق کشمیر کے تصفیے تک بھارت ایسا نہیں کر سکتا۔ مقبوضہ جموں کشمیر کی جو ریاست ہے اس کا ریاستی جھنڈا‘ اس کا آئین‘ اس کی سپریم کورٹ‘ وزیراعظم کا عہدہ‘ اور یہ بات کہ بھارت کے لوگ وہاں زمین نہیں خرید سکتے‘ یہ سب مراعات نریندر مودی کی حکومت نے ختم کر دیں۔ پاکستان نے آزاد کشمیر میں ایسی مراعات اور خصوصی حیثیت کو ختم نہیں کیا۔ بڑے بھائی کا چھوٹے بھائی کو پیغام یہ ہے کہ بھائی صاحب! آپ کے ظلم پر مبنی اقدامات سے مسئلہ کشمیر سلجھے گا نہیں بلکہ مزید الجھے گا اور اس الجھن کا نقصان پورے خطے کو ہوگا لہٰذا الجھن پیدا کرنے کے بجائے سلجھن کی طرف آئو تاکہ امن کے ساتھ مسئلہ کشمیر کا حل نکل سکے۔
ویسے تو آزادیٔ کشمیر کی تحریک ڈوگرہ راج ہی سے چل رہی ہے جبکہ برصغیر کی تقسیم کے بعد آزادیٔ کشمیر کی تحریک کا دوسرا دور شروع ہوا۔ تیسرا دور آج سے 35 سال قبل شروع ہوا۔ پیغام یہ ہے کہ ادوار رنگ بدلتے جائیں گے مگر تحریک ختم نہ ہو گی۔ میرے محترم صحافی دوست افتخار صاحب‘ جو مقبوضہ جموں وکشمیر پر گہری نظر رکھنے والے ہیں‘ مجھے بتا رہے تھے کہ 1989ء سے لے کر 2025ء تک کم از کم 96 ہزار 461 کشمیری شہید کیے جا چکے ہیں۔ جیلوں میں تشدد کر کے جو شہید کیے گئے‘ وہ 17 ہزار سے زائد ہیں جبکہ پونے دو لاکھ کشمیری جیلوں میں ہیں۔ یہ جو جیلوں میں ہیں‘ ان کی ایک بڑی تعداد کو تہاڑ جیل دہلی میں رکھا گیا ہے۔ راجستھان اور اترپردیش کے علاوہ مزید دور دراز علاقوں کی جیلوں میں رکھا گیا ہے۔ اندازہ لگائیں کہ ان قیدیوں کے لواحقین کیسے دور دراز علاقوں میں جا کر وکیل کرتے ہوں گے‘ مقدمات بھگتتے ہوں گے‘ وہاں رہائش رکھتے ہوں گے‘ کسی قدر سرمائے کا زیاں اور کیسے مشقت کے دن گزارتے ہوں گے۔ اسی طرح تحریک آزادیٔ کشمیر کی قیادت کے وہ لیڈر اور رہنما جو جیلوں میں تشدد‘ نظربندی اور طبی سہولتوں کی عدم فراہمی کے ساتھ شہید کر دیے گئے ان میں سید علی گیلانی کا نام سرفہرست ہے۔ ان کے بعد غلام نبی گندنہ‘ غلام محمد بھٹ‘ محمد اشرف صحرائی‘ ضیا مصطفی‘ مونی محمد‘ تبارک حسین‘ الطاف احمد شاہ اور بلال احمد کاچے کے نام اہم ہیں۔ پانچ اگست سے ایک دن پہلے آزادیٔ کشمیر کے نوجوان رہنما زاہد چوہان کو تشدد کرکے سرینگر کے قریب اسلام آباد (جس کو بھارت سرکار اننت ناگ کہتی ہے) کی جیل میں تشدد کرکے شہید کر دیا گیا۔ اس سے پیغام دیا گیا کہ پانچ اگست کو احتجاج کرنے والوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا جائے گا۔ نوجوان حریت پسند زاہد کے والد کو اس سے قبل 18 ستمبر 2023ء کو اسلام آباد (اننت ناگ) میں شہید کر دیا گیا تھا؛ یعنی اہلِ کشمیر کی طرف سے پیغام یہ ہے کہ نسلیں آگے بڑھتی رہیں گی مگر آزادی کی تحریک آزادی کی صبح میں سانس لے کر ہی دم لے گی۔
مقبوضہ کشمیر کی وہ قیادت جو سالہا سال سے جیلوں میں قید ہے ان میں سید شبیر شاہ‘ مسرت عالم اور یاسین ملک جیسی قدآور بین الاقوامی شناخت رکھنے والی شخصیات ہیں۔ یاسین ملک کی اہلیہ محترمہ مشعال ملک اپنی اکلوتی بیٹی کے ہمراہ پاکستان میں مظلوموں کے حق میں مختلف فورمز پر آواز بلند کرتی رہتی ہیں۔ ڈاکٹر طارق ڈار اور فاروق ڈار دو ایسے نام ہیں جو پسِ دیوارِ زنداں اس لیے ہیں کہ ان کا وجود اور بلند آہنگ آواز مودی کی حکمرانی کے لیے ناقابلِ برداشت ہو چکی تھی۔ پیر سید صلاح الدین کی جوانی جدوجہد آزادی میں اب پیرانہ سالی کو پہنچ چکی۔ ان کے دو بیٹوں کا جرم یہ ہے کہ وہ پیر صاحب کے فرزندانِ ارجمندان ہیں۔ یہ دونوں کئی سالوں سے جیلوں میں بند ہیں۔ دخترانِ ملت کی سربراہ محترمہ سیدہ آسیہ اندرابی سالوں سے جیل میں ہیں۔ وہ اس قدر بزرگ ہو چکی ہیں کہ جیل کی مشقتوں میں ویل چیئر پر ہیں۔ ان کے خاوند پروفیسر ڈاکٹر قاسم فکتو گزشتہ 34 برسوں سے جیل میں ہیں۔ جی ہاں! ناہیدہ نسرین اور فہمید صوفی جیسی خواتین رہنما بھی جیلوں میں ہیں۔ الغرض! خواتین کی ایک بڑی تعداد جیلوں میں ہے۔ جیلوں میں رہنے والے مرد اور خواتین کے لیے ایک المیہ یہ ہے کہ جب ان میں سے بیماروں کو عدالت کے حکم پر ہسپتال لے جانے کا حکم دیا جاتا ہے تو بیشتر کو ہسپتال لے جاتے ہوئے یا ہسپتال کے اندر ہی قتل کر دیا جاتا ہے۔
جس طرح اسرائیل کی حکومت دنیا بھر کے یہود کو اسرائیل میں لا کر بساتی ہے اور مقامی فلسطینیوں کو طرح طرح کے مظالم کے ذریعے ہجرت پر مجبور کرتی ہے‘ یہی سلسلہ مودی حکومت نے بھی مقبوضہ کشمیر میں شروع کر رکھا ہے؛ چنانچہ آرٹیکل 370 اور 35-A کی آئینی شقوں کو ختم کرنے کے بعد وہ متواتر انڈیا کے ہندو لوگوں کو ریاست جموں وکشمیر میں آباد کر رہی ہے۔ حیلوں بہانوں سے اہلِ کشمیر کے لکڑی کے مکانات کو آگ لگائی جاتی ہے۔ پہلگام واقعے کے بعد اٹھارہ سے زائد گھروں کو آگ لگا کر مکانات جلا دیے گئے ۔ یہاں غیر ریاستی لوگوں کو آباد کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ غیر ریاستی بھارتی ہندوئوں کو ملازمتیں دی جا رہی ہیں۔ سرکاری ٹھیکے بھی انہی کو دیے جا رہے ہیں۔ پھلوں کا بزنس‘ جو اہلِ کشمیر کا قدیمی کاروبار ہے‘ اسے تباہ کیا جا رہا ہے تاکہ بزنس کرنے والے لوگ یہاں سے نکل جائیں۔ باغات کو اونے پونے فروخت کر جائیں اور خریدیں گے تو لامحالہ غیر ریاستی لوگ خریدیں گے۔ ان کو خصوصی سہولتیں دی جاتی ہیں اور ان کا فروٹ انڈیا کی منڈیوں میں پہنچایا جاتا ہے۔ زراعت کی زمین بھی غیر ریاستی لوگوں کو دینے کی کوششیں تیزی سے جاری ہیں۔ اسی طرح وہ خواتین‘ جن کے شوہر مدتوں سے لاپتا ہیں اور جن کو نصف بیوہ کہا جاتا ہے‘ وہ سالہا سال سے سرینگر کے لال چوک میں کتبے اٹھا کر وقفے وقفے سے خاموش احتجاج کر رہی ہیں کہ ان کے خاوند اگر زندہ ہیں تو ان کی ملاقات کرائی جائے۔ اگر شہید ہو چکے ہیں‘ تو بھی انہیں کم از کم آگاہ تو کیا جائے۔ اب ان خواتین‘ جو ہزاروں کی تعداد میں ہیں‘ ان کو بیوہ کہا جائے یا کیا کہا جائے؟ ان کے بچوں کو یتیم کہا جائے یا کیا نام دیا جائے؟ الغرض! ان سب مظلوموں کا جرم یہ ہے کہ وہ بھارت کے بڑے بھائی یعنی پاکستان کی آزاد فضائوں میں سانس لینا چاہتے ہیں۔ اے اہلِ پاکستان! اگست کی آزاد فضائوں میں سانس لینے والے پاک وطن کے باسی کی حیثیت سے اہلِ کشمیر کو دعائوں میں ضرور یاد رکھنا۔
اک ذرا صبر کہ 'جبر‘ کے دن تھوڑے ہیں۔