اللہ کے رسولﷺ پر نازل ہونے والی آخری الہامی کتاب قرآن مجید کو دیکھیں‘ آپﷺ کے فرامین کو سامنے رکھیں تو یہ بات سمجھ آتی ہے کہ اصل اور افضل شہداء وہ ہیں جو اللہ کی راہ میں لڑتے ہوئے شہید ہوتے ہیں۔ حضورﷺ نے واضح طور پر فرمایا کہ اس طرح تو میری امت کے شہداء کم تعداد میں ہوں گے‘ چنانچہ آپﷺ کی احادیث شریف کے مطابق پانی میں ڈوبنے والا‘ آگ میں جلنے والا‘ اپنی عزت اور مال کی حفاظت میں مارا جانے والا بھی شہید ہے۔ اسی طرح زچگی میں مرنے والی عورت‘ طاعون جیسے وبائی امراض میں مرنے والے‘ شیطانی (جناتی) حملوں سے مرنے والے بھی شہداء ہیں۔ جی ہاں! معرکوں میں شہید ہونے والوں میں سے وہ شہداء مزید افضل ہوتے ہیں جو کارہائے نمایاں انجام دیتے ہیں۔
اللہ کے رسولﷺ کے حکم سے احد کی جنگ کا آغاز حضرت حمزہؓ اور حضرت علیؓ سے کیا تھا۔ اس جنگ میں حضرت حنظلہؓ‘ حضرت ابودجانہؓ‘ حضرت طلحہؓ اور دیگر جانثارانِ مصطفی نے جنگ کا ایسا پانسا پلٹا کر اللہ نے فتح سے نواز دیا۔ اس جنگ میں جو سب سے افضل ٹھہرے اور حضورﷺ کی نبوی زبان مبارک سے ''افضل الشہداء‘‘ قرار پائے وہ حضرت حمزہ ہیں۔ اس کی بڑی وجہ ان کے ساتھ مشرکین مکہ کی دشمنی ہے۔ اس قدر دشمنی کہ شہادت کے بعد ان کی نعش مبارک کے ساتھ بھی دشمنی کی گئی۔ قارئین کرام! سیلاب کے شہداء کی طرف ہم بعد میں آتے ہیں‘ پہلے ذرا حضرت حمزہؓ کے جسدِ خاکی کے ساتھ دشمنی اور عداوت کے مناظر ملاحظہ کر لیں۔
سیرت ابن اسحاق اور سیرت ابن ہشام کے حوالے سے ''دارالسلام سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد ششم‘‘ میں لکھا ہے: ''اُدھر جنگ ختم ہوئی اُدھر وحشی (نامی غلام) ہند بنت عتبہ کے پاس پہنچا اور کہنے لگا: اگر میں آپ کے باپ کے قاتل کو قتل کر دوں تو مجھے کیا ملے گا؟ (بدر کی جنگ میں سیدنا حمزہؓ نے عتبہ کو جہنم واصل کیا تھا)۔ وہ کہنے لگی کہ میں تمہیں اپنے قیمتی ملبوسات اور زیورات دوں گی۔وحشی ہند بنت عتبہ کو اس جگہ لے گیا جہاں اس نے حضرت حمزہؓ کو شہید کیا تھا۔ جب ہند نے سیدنا حمزہؓ کی لاش دیکھی تو خوش ہو گئی۔ ابن اسحاق کا بیان ہے کہ ہند بنت عتبہ اور اس کی دیگر کافر ساتھی عورتوں نے رسول اللہﷺ کے چچا حضرت حمزہؓ اور دیگر اصحاب کا مُثلہ کیا۔ ان ظالم عورتوں نے بہت سے صحابہ کرامؓ کے کان‘ ناک کاٹ کاٹ کر اپنے لیے پازیب‘ ہار اور بالیاں بنائیں۔ سیرت ابن ہشام میں ہے کہ ابوسفیان جب جنگ کے بعد اپنے مقتولین کو ڈھونڈ رہا تھا اس وقت اس کا گزر سیدنا حمزہؓ کے جسد کے قریب سے ہوا۔ ان کا مثلہ کیا جا چکا تھا۔ اس وقت اس نے انتہائی سنگدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے نیزے کی نوک سیدنا حمزہؓ کی باچھوں میں چبھو دی اور میت پر ضربیں لگانے لگا۔ مقتولین کا مُثلہ کرنا اور دشمنوں کا حلیہ بگاڑنا جاہلیت میں بھی معیوب سمجھا جاتا تھا۔ احابیش کے سردار حُلیس بن زَبَّان حارثی نے اسے جب یہ کرتے دیکھا تو اس بہیمانہ حرکت پر بڑی ناگواری کا اظہار کیا۔ وہ کہنے لگا: اے بنو کنانہ! ذرا اس قریش کے سردار کو تو دیکھو‘ یہ سورما اپنے عم زاد سے اس حالت میں لڑ رہا ہے کہ وہ مارا جا چکا ہے۔ اب یہ تو بدلہ لینے کی سکت بھی نہیں رکھتا مگر یہ قریشی سورما اسے ابھی تک ضربیں لگا رہا ہے۔ یہ سن کر ابوسفیان شرمندہ ہو گیا اور منت کرنے لگا کہ میری یہ حرکت کسی پر ظاہر نہ کرنا‘ بس مجھ سے ایک غلطی ہو گئی۔ واضح رہے کہ یہ ابوسفیان کے قبولِ اسلام سے پہلے کا واقعہ ہے۔ فتح مکہ کے موقع پر حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ اور ان کے اہلیہ نے اسلام قبول کر لیا تھا اور رسول اللہﷺ نے ان کے گھر کو دارالامن قرار دیا تھا۔
قارئین کرام! جنگ کے بعد حضورﷺ نے صحابہ کرامؓ سے پوچھا: مجھے میرے چچا جان کے کارنامے بتائو کس طرح انہوں نے معرکے انجام دیے۔ جی ہاں! کارنامے سماعت فرمائے۔ پھر جب جسدِ مبارک کی بے حالی کے دلدروز مناظر دیکھے تو فرمایا: خوش ہو جائو! میرے پاس جبریل آ گئے ہیں۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ سات آسمانوں میں رہنے والی مخلوقات میں لکھ دیا گیا ہے کہ حمزہؓ بن عبدالمطلب اللہ کے شیر ہیں اور اللہ کے رسولﷺ کے شیر ہیں۔ (شعب الایمان للبیھقی) شیخ البانیؒ صحیح الجامع میں حدیث لائے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا ''قیامت کے دن تمام شہیدوں کے سردار حمزہ ہوں گے‘‘۔ قارئین کرام! پاکستان کے اندر حالیہ سیلاب نے جو تباہی مچائی‘ گائوں کے گائوں صفحہ ہستی سے مٹ گئے‘ لاشوں کے اوپر کئی کئی فٹ پتھر‘ چٹانیں اور مٹی چڑھ گئی۔ جو لاشیں ملیں‘ کسی کا سر نہ تھا‘ کسی کی ٹانگیں نہ تھیں۔ بعض لاشیں کچلی ہوئی تھیں۔ ایسے مناظر گزشتہ چند برس سے دنیا بھر میں نظر آ رہے ہیں۔ امریکہ‘ یورپ اور مشرق بعید کے ملکوں میں۔ ماحولیاتی سائنسدان کہہ چکے ہیں کہ جنگوں میں مہلک بارود استعمال کرنے والے اس کے ذمہ دار ہیں۔ جب لڑائیاں تلواروں سے ہوتی تھیں اور حضرت حمزہؓ کی لاش مبارک کے ساتھ جاہلانہ ظلم ہوا تھا تو دشمن بھی ایسی حرکات کو ناپسند اور گھٹیا جانتے تھے۔ مگر بارود کے استعمال سے‘ سونامیوں کے ذریعے سے انسانیت تباہ ہو رہی ہے۔ بادل پھٹنے اور پتھریلے سیلابوں سے انسانیت کچلی جا رہی ہے۔ انسانیت کے اس مُثلے کے ذمہ دار وہ لوگ ہیں جنہوں نے جاپان پر دو ایٹم بم پھینکے۔ زمین کا درجہ حرارت گرم ہو گیا۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے بعد مشرق وسطیٰ کے مسلم ملکوں میں بارود باری کی انتہا کر دی۔ اب غزہ میں اسرائیل نے بارود پھینکنے کی انتہا کر دی ہے۔ اس سے گلیشیرز پگھل کر سیلاب کا باعث بن رہے ہیں۔
سویڈن کی 22 سالہ لڑکی گریٹا تھنبرگ (Greta Thunberg) جب آٹھ سال کی تھی تب سے وہ ماحولیات تحفظ کے لیے جدوجہد کر رہی ہے کہ فیکٹریوں‘ گاڑیوں اور ہوائی جہازوں کا دھواں ہماری زمین کو گرم کر رہا ہے۔ اب وہ بارودی جنگوں کی طرف متوجہ ہوئی ہے۔ اس نے امریکہ اور یورپ کو للکارا ہے کہ وہ اسرائیل کو جو بارود دے رہے ہیں وہ مظلوم فلسطینیوں کیلئے تو تباہی کا باعث بنا ہے‘ یہ پوری انسانیت کیلئے تباہی کا باعث ہے۔ اس کی تحریک اس قدر زور پکڑ چکی ہے کہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس لڑکی پر تنقید کرکے اہلِ یورپ کے غصے کو کم کرنے کی کوشش کی ہے مگر گریٹا ڈٹی ہوئی ہے۔ گزارش ہے کہ ہم سب انسان اپنے بڑے گھر ''کرہِ ارض‘‘ کی فکر کریں۔ درخت لگائیں‘ پودے لگائیں۔ یوکرین اور غزہ میں جنگ کو ختم ہونا چاہیے‘ یہ زمین تبھی بچے گی وگرنہ سب مارے جائیں گے۔
حضور کریمﷺ کے محبوب چچا جان کی لاش مبارک کے ساتھ روا ظلم کا دوسرا پہلو اُخروی ہے۔ اس شہادت کے چرچے اور پروٹوکول کے نظارے اور مناظر ساتوں آسمانوں کی مخلوقات میں اللہ تعالیٰ نے رکھے ہیں؛ چنانچہ آج جن لوگوں کے پیاروں کی لاشیں سیلابوں اور طوفانوں کے ذریعے مسخ ہو رہی ہیں‘ ان کے وارثوں کو حضرت حمزہؓ کی مبارک لاش کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔ اسی سے صبر آئے گا۔ حضرت حمزہؓ فردوس کے محلات میں ہیں۔ حضور کریمﷺ کے ساتھ جنت کے باغوں اور گلستان میں ہیں۔ حضورﷺ کا کلمہ پڑھنے والے‘ حضرت حمزہؓ سے محبت کرنے والے یقین کر لیں کہ ان کے پیاروں کے ساتھ جو ہوا‘ یہ صرف پانی میں ڈوبنے والے شہید نہیں ہیں بلکہ یہ پتھروں میں پسنے والے شہید بھی ہیں۔ پھر وہ کہ جو ورثاء لاشیں بھی نہ دیکھ سکے‘ وہ یقین کر لیں کہ ایسی مظلومانہ شہادتوں کے بعد ان کے پیارے جنت کے باغات میں ہیں‘ ان شاء اللہ۔ وہ دلاور جو خدمت کرتے ہوئے ہیلی کاپٹر کے گرنے سے یا ریسکیو کاموں کے دوران شہید ہوئے‘ یہ سب بلند وبالا شہادتوں والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی شہادتوں کو قبول کرکے انہیں جنت کے باغات عطا فرمائے۔ حضورﷺ کے فرمان کے مطابق بیماروں کی عیادت کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن عزت کا لباس پہنائے گا۔ سب خدمتگاروں کے لیے ایسی عزت کا خواستگار ہوں اپنے اللہ کے حضور!