"AHC" (space) message & send to 7575

غزہ بھوکا ہے اور تم…؟

اللہ تعالیٰ کی قدرت کا نظارہ نو ستمبر 2025ء کی رات کو اس وقت ظاہر ہوا جب امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہائوس میں بیٹھے پروگرام بناتے ہیں کہ جب سے ہم نے امریکی حکمرانی کی باگ ڈور سنبھالی ہے امریکہ پُرامن ہو گیا ہے۔ اس امن کو ثابت کرنے کیلئے ضروری ہے کہ وائٹ ہائوس کے پڑوس میں پُرتکلف کھانوں کے مرکز ''سی فوڈ ریسٹورنٹ‘‘ میں چلتے ہیں اور کھانا کھاتے ہیں۔ قافلہ تیار ہو جاتا ہے۔ نائب صدر جی ڈی وینس‘ وزیر خارجہ مارکو روبیو‘ وزیر دفاع پیٹی ہیگسیتھ بھی ساتھ ہو لیتے ہیں۔ وائٹ ہائوس کی انتظامیہ کے اہم آفیسرز بھی ہمراہ ہیں۔ ہوٹل کے سامنے جب یہ قافلہ پہنچتا ہے‘ سب نیچے اترتے ہیں تو ایک تنظیم کے چند کارکنان ان کا استقبال کرتے ہیں۔ اس تنظیم کا نام کوڈ پنک (Code Pink) ہے۔ امریکہ میں یہ بہت بڑی تنظیم ہے جو گراس روٹ لیول تک امریکہ میں متحرک ہے۔ واشنگٹن ڈی سی میں اس تنظیم کی سربراہ اولیویا ڈائینوسی (Olivia Dinucci) نامی خاتون ہے۔ یہ خاتون اور اس کے ساتھ بچوں‘ بوڑھوں اور خواتین نے سرپرائز دیتے ہوئے اپنے آپ کو اچانک صدر ٹرمپ اور اس کے ساتھیوں کے سامنے یوں ظاہر کیا کہ ان کے ہاتھوں میں فلسطین کے پرچم تھے۔ وہ نعرے لگا رہے تھے:
Stop terrorizing communities all over the world
''دنیا بھر کے معاشروں کو دہشت زدہ کرنا بند کرو‘‘۔ اس پر صدر ٹرمپ نے ان لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے جیل کی دھمکی دی تو سب نے نعرے لگائے: He is the hitler of our time۔ یہ تو ہمارے زمانے کا ہٹلر ہے۔ مذکورہ تنظیم جو امن اور انسانی حقوق کے تحفظ کی ذمہ دار ہے‘ اس نے ریسٹورنٹ کے اندر بھی اپنی موجودگی اور اہلِ غزہ کی نمائندگی کا بندوبست کر رکھا تھا؛ چنانچہ جونہی صدر صاحب اور ان کا قافلہ ریسٹورنٹ کے اندر داخل ہوا تو دوبارہ نعرے لگائے گئے کہ ٹرمپ ہمارے دور کا ہٹلر ہے اور پھر وہی نعرے لگانا شروع کر دیے جو باہر بھی لگ چکے تھے۔ ریسٹورنٹ کا ہال‘ اور باہر کا علاقہ ان نعروں سے گونج رہا تھا: Free Free Palestine۔یعنی فلسطین کو آزاد کرو۔ کچھ لوگ یہ نعرے بھی لگا رہے تھے: Free Free DC۔ یعنی ہمیں واشنگٹن ڈی سی بھی آزاد چاہیے۔ مطلب یہ کہ نیتن یاہو کے حق میں ظالمانہ تعاون نہ ہو بلکہ مظلوموں کا خیال کیا جائے۔ انسانیت کو امن اور خوراک دی جائے۔ اہلِ غزہ کو تحفظ دیا جائے۔
اگلا منظر یہ تھا کہ صدر ٹرمپ اور ان کا قافلہ طرح طرح کے پُرتکلف کھانوں سے سجے ہوئے میزوں کے سامنے کرسیوں پر بیٹھ چکے تھے۔ اس دوران پھر آوازیں بلند ہونا شروع ہوئیں: They feast while gaza starves۔ یہ لوگ پُرتعیش کھانے کھا رہے ہیں جبکہ غزہ بھوکا ہے۔ قارئین کرام! اندازہ لگائیں کہ یہ تنظیم کس قدر منظم اور باخبر ہے کہ اسے صدر ٹرمپ اور ان کی ٹیم کے مذکورہ ہوٹل میں کھانا کھانے کے شیڈول کا علم تھا؛ چنانچہ انہوں نے انتہائی منظم اور پُرامن احتجاج کیا۔ اس کی وڈیوز بھی بنائیں جو براہِ راست سوشل میڈیا پر شیئر کی گئیں۔ Common Dreams جیسے چینل پر یہ جملہ بھی آن ایئر ہوا کہ صدر ٹرمپ نے کہا کہ یہ کون لوگ ہیں جنہوں نے ان کا ڈنر خراب کردیا ہے۔ قارئین کرام! مجھے جب مذکورہ خبر کا پتا چلا تو میں نے اس حوالے سے تلاش شروع کر دی اور 'نیوز ویک‘ اور دیگر امریکی چینلز اور ویب سائٹس سے مذکورہ معلومات کو ایک ترتیب کے ساتھ آپ کے سامنے پیش کیا ہے۔
دنیا بھر کی انسانیت ظلم سے نفرت کرتی ہے اور انسانیت سے محبت کرتی ہے۔ انسانی حقوق پر کہاں کہاں پہنچ کر احتجاج کرتی ہے۔ ''تم لوگ پُرتکلف کھانے کھاتے ہو جبکہ غزہ بھوکا ہے‘‘۔ اللہ کی قسم! یہ جملہ ان سب لوگوں کے لیے باعثِ شرم ہے جو بہت کچھ کر سکتے ہیں مگر نہیں کر رہے۔ یا وہ لوگ کہ جو کچھ نہ کچھ کر سکتے ہیں مگر نہیں کر رہے۔ امریکہ کی اس گراس روٹ لیول کی تنظیم کو سلام کہ انہوں نے دنیا کی سب سے اونچی جگہ پر ایسا احتجاج کیا اور اہلِ دنیا تک پہنچایا کہ جس کا کوئی تصور نہیں کر سکتا تھا۔ بہرحال! صدر ٹرمپ کا یہ آخری جملہ کہ میرا کھانا خراب کر دیا۔ ہاں! صرف کانوں میں پہنچنے والے احتجاجی جملوں کی حد تک‘ وگرنہ کھانا تو سامنے پڑا ہے۔ اتنے میں سکیورٹی والے آ گئے اور ہوٹل انتظامیہ کے ساتھ مل کر انہوں نے سب مظاہرین کو پکڑا اور کہیں دور لے جا کر چھوڑ دیا مگر یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ اہلِ غزہ کو کھانا کب ملے گا؟
دنیا کے چالیس کے قریب ممالک اکٹھے ہو گئے۔ تقریباً ستر کے قریب بحری جہاز اور کشتیاں مل کر ایک قافلہ بناتی چلی جا رہی ہیں۔ اس کاروان کا نام ہے '' گلوبل صمود فلوٹیلا‘‘ یعنی عالمی سطح پر یہ ایک ایسا پختہ عزم قافلہ ہے جس کا آغاز یورپی ملک سپین سے ہوا ہے اور بیشتر کا اجتماع مراکش کی بندرگاہ سے ہوا ہے۔ اس قافلے میں دنیا کے تمام مذاہب اور اکثر ملکوں کے نامور لوگ شامل ہیں۔ یورپی ملکوں کے اداکار بھی ہیں۔ جنوبی افریقہ کو نسلی آزادی دلانے والے نیلسن منڈیلا کے پوتے منڈلا منڈیلا بھی ہیں۔ سویڈن کی انسانی حقوق کی عالمی کارکن گریٹا تھنبرگ بھی ہے۔ پرتگال کی سیاستدان ماریانا مورٹا گور بھی ہیں۔ اس کاروان کی ایک نمایاں شخصیت پاکستان کے سابق سینیٹر مشتاق احمد خان صاحب ہیں۔ وہ اپنے چار پاکستانی ساتھیوں کے وفد کے ساتھ اس کاروان کا حصہ ہیں۔ ان سب کا عزم یہ ہے کہ وہ دنیا بھر سے کھانا اور ضروریاتِ زندگی کا سامان لے کر غزہ کی بندرگاہ جا رہے ہیں۔ ویسے تو پچھلے دو برس سے ایسی درجن کے قریب کوششیں ہو چکی ہیں کہ اسرائیل کے غیر انسانی محاصرے کو توڑا جائے۔ ان میں سے تین‘ چار کوششیں ہی کامیاب ہوئی ہیں۔ ان کوششوں میں کئی لوگ شہید بھی ہوئے ہیں‘ زخمی بھی ہوئے ہیں‘ گرفتار بھی ہوئے ہیں۔ تاہم موجودہ قافلہ اب تک کا سب سے بڑا قافلہ ہے۔ سینیٹر مشتاق احمد صاحب اس عزم کا اظہار کر رہے تھے کہ وہ پہنچ کر رہیں گے ان شاء اللہ! وہ واضح کر رہے تھے کہ اس راہ میں قدم قدم پر موت موجود ہے مگر سب اہلِ قافلہ پُرعزم ہیں۔
یہ قافلہ بحیرۂ روم سے ہوتا ہوا اپنے بائیں جانب یورپ کے ملکوں سے اہلِ درد کو اپنے ساتھ ملاتا جا رہا ہے اور بائیں طرف سے شمالی افریقہ کے اہلِ درد کو ہمراہ لیتا ہوا سسلی اور مالٹا کے جزائر سے آگے بڑھتا ہوا غزہ کے قریب ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اہلِ غزہ ان کا استقبال کرنے کو بازو پھیلائے سراپا انتظار ہیں۔ اہلِ قافلہ پر تیونس کے قریب اسرائیلی ڈرونز کے حملے بھی ہو چکے ہیں۔ الحمدللہ! کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ اللہ تعالیٰ اس قافلے کو سلامت اپنی منزل پر پہنچائے۔ ایسی کوششوں کا رزلٹ یہ نکلا ہے کہ تازہ ترین سروے کے مطابق 60فیصد امریکی اہلِ غزہ کی حمایت میں آ گئے ہیں۔ جی ہاں! دنیا بھر کے وہ ملک کہ جہاں اسرائیل کی حمایت میں واضح اکثریت تھی‘ وہ اکثریت اب ختم ہو چکی ہے۔ یہ حمایت دنیا کے ہر ملک میں تیزی سے گرتی چلی جا رہی ہے۔ اس سے ظلم کی حامی حکمرانی پریشان ہے۔ قطر میں 55کے قریب مسلم حکمران اکٹھے ہوئے ہیں۔ بڑی اچھی اچھی اور دبنگ باتیں ہوئی ہیں۔ پاکستان واحد اسلامی ایٹمی پاور ہے‘ جو اس میٹنگ میں اہم ترین مقام کا حامل تھا۔ قطر پر حملے کے بعد مسلم ممالک اب اپنے مشترکہ دفاع کی جانب سنجیدگی سے بڑھتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو! لیکن اگر اس عالمی اسلامی سربراہی کانفرنس میں ''گلوبل صمود فوٹیلا‘‘ کی حمایت بھی کی جاتی‘ اور اس سے آگے بڑھ کر یو این کی چھتری فراہم کرکے اس کی حفاظت میں کچھ ملکوں کے دستے بھی شامل کرا دیے جاتے تو یوں یہ قافلہ زیادہ تیقن کے ساتھ غزہ پہنچ جاتا۔ وہاں اہلِ غزہ کو خوراک ملتی‘ عالمی انسانیت کا ایک پُرامن اجتماع غزہ میں خدمت کرتا تو اس کانفرنس کے جھومر میں یہ بہت بڑی نیک نامی ہوتی۔ اس نیک نامی کا بندوبست اب بھی ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے توفیق کا سوالی ہوں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں