"AHC" (space) message & send to 7575

اہلِ غزہ … اہلِ فلوٹیلا

اللہ تعالیٰ نے نبوت ورسالت کا دروازہ بند کر دیا جب محمد رسول اللہﷺ کو ختم المرسلین اور خاتم النبیین بنانے کا فیصلہ صادر فرمایا۔ حضور کریمﷺ کے دستِ مبارک سے مدینہ منورہ میں جو مسجد بنی‘ وہ آخری نبوی مسجد قرار پائی۔ آخری رسولﷺ کو جو کتاب عطا فرمائی گئی‘ وہ آخری الہامی کتاب قرار دی گئی۔ آخری آسمانی کتاب یعنی قرآن مجید میں ایک مدنی سورت نازل ہے‘ جس کا نام ''النساء‘‘ ہے۔ اس کا معنی ہے خواتین۔ اِس وقت دنیا میں آٹھ ارب لوگ آباد ہیں‘ ان میں سے تقریباً نصف یعنی چار ارب خواتین ہیں۔ یاد رہے! قرآن مجید میں ایسی کوئی سورت نہیں جس کا معنی ''الرجال‘‘ یعنی مرد ہو۔ آخری الہامی کتاب میں خواتین کیلئے اس اعزاز کا سبب یہ نظر آتا ہے کہ ہر انسان‘ وہ مرد ہو یا عورت‘ اس کی پرورش کا پہلا جہان اس کی ماں کا شکم ہے۔ جی ہاں! خواتین کے نام سے ''النساء‘‘ سورت کی پہلی آیت ہی تمام انسانیت کو ایک بڑے خاندان کے بندھن میں باندھتی دکھائی دیتی ہے۔ رب العالمین ارشاد فرماتے ہیں ''اے انسانو! اپنے پرورش کرنے والے مالک (کی پکڑ) سے بچ کر رہو کہ جس نے تم کو ایک جان (آدم) سے پیدا کیا۔ انہی سے ان کے جوڑے (حوّا) کو پیدا فرمایا‘ پھر ان دونوں سے بہت سارے مرد اور خواتین کو (زمین میں) پھیلا دیا۔ انسانی رشتہ داری کے بارے میں اللہ سے ڈر کر رہو۔ اس حقیقت سے آگاہ رہو کہ اللہ تم پر (رشتے ناتے کے بارے میں) پوری طرح نگرانی کر رہا ہے‘‘۔ دنیا کی ہر عورت قرآن مجید کی ''سورۃ النساء‘‘ کا موضوع اور مخاطب ہے۔ یہ ہمہ گیریت اس لیے ہے کہ حضور نبی کریمﷺ ساری انسانیت کے رسول ہیں اور ایسے ہادی اور رہنما ہیں جو ''رحمۃ للعالمین‘‘ ہیں۔ لوگو! تمام انسانی رشتے لفظ ''النساء‘‘ سے بنتے ہیں۔ ان رشتوں کی حرمتوں اور عزتوں کا پاس لازمی اور فرض ہے وگرنہ انسانیت تباہ وبرباد ہو جائے گی۔
ماں اور بچہ‘ یہ دونوں انسانیت کا وہ حصہ ہیں جو انتہائی کمزور اور نازک ہے۔ یہ لازم وملزوم ہیں۔ اللہ کے آخری رسولﷺ نے اس نازک‘ کمزور اور محبوب حصے کو جنگی ماحول میں بھی مامون ومحفوظ قرار دیا ہے۔ آج کے زمانے میں پوری انسانیت کے مشترکہ ادارے (اقوام متحدہ) نے انسانیت کے نازک اور کمزور ترین حصے کو تحفظ دے رکھا ہے مگر کیا کیا جائے اسرائیل کے نیتن یاہو کی حکومت نے انسانیت کے اس کمزور ترین حصے کو برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ ماں اور بچہ جب مشترکہ وجود کے حامل تھے تو اسرائیلی فوجیوں نے ایک طے شدہ ظالمانہ پروگرام کے تحت مشترکہ وجود کو گولیوں سے اڑا دیا۔ گھروں میں گھس کر معصوم بچوں کے سامنے ماں باپ اور ماں باپ کے سامنے معصوم بچوں کو گولیوں سے چھلنی کیا۔ گھر گھر گھس کر خون کی حقیقی ہولی کھیلی گئی۔ مائوں اور بچوں کے اجسام میزائلوں کی زد میں آئے اور گوشت کے ٹکڑے فضائوں میں کئی کئی میٹر اچھل کر زمین پر گرے۔ ذرائع ابلاغ یہ مناظر دکھلاتے رہے مگر دنیا کی بے حس حکمرانیاں خاموش تماشائی کے کردار سے آگے نہ بڑھ سکیں۔ اقوام متحدہ کی موجودگی میں یہ سب ہوتا رہا۔ جب تاریخ انسانی اس کا جواب مانگے گی تو یو این کی بے بسی آج کے طاقتور ذمہ داران کے چہرے کو اپنے قلم کی سیاہی سے سیاہ کر دے گی۔ یہ کالک قیامت کے دن تک مٹنے نہ پائے گی۔ قیامت کا پچاس ہزار سال کا دن اس کالک اور سیاہی کو مزید سیاہ کر دے گا۔
لاکھوں مائیں اور بچے ہاتھوں میں پانی کی بوتلیں تھامے فرات اور نیل دریائوں کے درمیان پیاس سے مرتے رہے۔ دریائے اردن تو درمیان میں ہے۔ اس کی موجودگی میں پیاس سے ہلکان ہو ہو کر ان کے کمزور وناتواں وجود خشک درختوں کی طرح سوکھ گئے۔ وہ درختوں کے پتوں کو پانی کے بغیر لقمے بنانے کی کوشش میں اگلے جہان چلے گئے۔ غزہ کے صحرا میں چل چل کر منزل نہ ملی تو منہ میں ریت اور مٹی ڈالتے ہوئے ملَک الموت کے ہاتھوں اپنے رب کریم کے پاس چلے گئے۔ حالات ایسے ہوں اور مسلسل دو سالوں سے ہوں‘ بچوں کی لمبی قطاریں مصر اور اردن میں کھڑی کی کھڑی رہ جائیں تو پھر قرآن کی ''سورۃ النساء‘‘ کی انسانی رشتہ داری اپنے فطری جوش میں آ جائے۔ وہ بحیرۂ روم کی لہروں پر سوار ہو جائے ‘ کوئی چالیس چھوٹے بحری جہازوں اور کشتیوں پر دنیا بھر کی انسانیت سوار ہو جائے۔ ایشیا‘ یورپ‘ افریقہ‘ امریکہ اور آسٹریلیا وغیرہ کے مرد اور خواتین اس پر سوار ہو جائیں۔ ضروریاتِ زندگی کا سینکڑوں ٹن سامان اپنے ساتھ رکھ لیں۔ پانچ سو کے قریب اس قافلے میں ڈاکٹرز‘ سیاستدان‘ اہلِ علم‘ صحافی‘ اداکار وغیرہ موجود ہوں۔ پاک وطن کے جناب مشتاق احمد خان (سابق سینیٹر) اپنے ساتھیوں سمیت اس میں موجود ہوں‘ گریٹا تھنبرگ‘ سویڈن کی لڑکی‘ جو ماحولیات کو ٹھیک کرنے کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہے‘ وہ دوسری بار غزہ کے فلوٹیلا میں شامل ہے۔ بغیر اسلحہ کے یہ پُرامن قافلہ تھا۔ یو این کا قانون اس قافلے کو ضمانت دیتا ہے کہ یہ بھوکے اور کمزور مظلوم لوگوں کو خوراک‘ ادویات اور ضروریاتِ زندگی خشکی اور سمندری راستے سے پہنچا سکتے ہیں۔ اسرائیلی فوج نے حسبِ سابق اس قافلے پر دھاوا بول دیا۔
یہ قافلہ سپین اور مراکش کی بندرگاہوں سے روانہ ہوا تھا۔ 30دن تک سمندر کی لہروں پر چلتا رہا۔ غزہ کے لوگ‘ بوڑھے مرد‘ عورتیں اور بچے ایک ماہ کے انتظار کے بعد جب قافلے کو دور سے دیکھتے ہیں کہ فلسطین کے جھنڈوں کے جھرمٹ میں ان کے ساحل کی طرف جہاز بڑھتے آ رہے ہیں تو امیدوں کے پَر جونہی پرواز کے قابل ہونے لگے تو کیا دیکھتے ہیں کہ اسرائیلی بحریہ کے جہازوں میں سوار صہیونی فوج کے لوگ دھاوا بول دیتے ہیں۔ سب لوگوں کی کشتیوں اور فلوٹیلا پر قبضہ کر لیتے ہیں۔ لوگوں کو گرفتار کر لیتے ہیں۔ سب کو اشقلون (عسقلان) اور اشدود وغیرہ کی بندرگاہوں پر لے جاتے ہیں۔ قارئین کرام! عالمی قوانین کی دھجیاں اڑا کر کوئی ملک عالمی ادارے یو این کا ممبر کیسے رہ سکتا ہے؟
چند دن قبل اس ناجائز ریاست کا وزیراعظم یو این کی جنرل اسمبلی میں تقریر کرتا ہے تو ساری عالمی برادری ہال خالی کر دیتی ہے۔ اگلے مقرر‘ وزیراعظم پاکستان محمد شہباز شریف جب آتے ہیں تو عالمی ادارے کا ہال دوبارہ بھر جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے اسرائیل اور بھارت دو ایسے ملک ہیں جو اہلِ فلسطین اور اہلِ کشمیر پر ظلم کے حوالے سے انسانی برادری میں اچھوت بن چکے ہیں۔ نیتن یاہو نے موبائل لہراتے ہوئے انسانی برادری کو دھمکایا کہ یہ موبائل اسرائیل کی سرزمین کا حصہ ہے‘ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس طرح لبنان میں پیجر پھاڑے گئے تھے‘ اسی طرح مستقبل میں موبائل فون کو بھی کمانڈ دے کر بیٹری کو پھاڑ کر بم بنا دیا جائے گا۔ موبائل فون کی بیٹری پیجر کی بیٹری سے دس گنا بڑھ کر قوت کی حامل ہے۔ دنیا کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔ مظلوموں سے یکجہتی کا اظہار کرنے والی انسانیت خطرے میں ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری الہامی کتاب میں اپنے آخری رسولﷺ کے اسم گرامی کے نام سے ایک سورت نازل فرمائی۔ ارشاد گرامی ہے ''مستقبل قریب میں حقیقت بہرحال یہی سامنے آنے والی ہے کہ (دورنگی کے علمبردارو!) اگر تم لوگ( یا تمہارے جیسے لوگ) حکمران بن گئے تو تم زمین میں فساد مچا ڈالو گے اور اپنے رشتوں کو انتہائی بُرے طریقوں سے ٹکڑے ٹکڑے کر دو گے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے (صلہ رحمی اور حق بات سننے سے اللہ نے) انہیں بہرا کر دیا ہے جبکہ ان کی آنکھوں کو اندھا کر دیا ہے‘‘ (محمد: 22 تا 23)۔ آہ! غزہ کی بندرگاہ پر سراپا انتظار اہلِ فلسطین عالمی امداد کیلئے آنکھوں کی پلکیں بچھائے کھڑے تھے تو 45 ملکوں کے 500کے قریب کارکن جذباتی کیفیت میں تھے کہ روتے بچوں کو وہ گلے سے لگائیں گے‘ پانی پلائیں گے‘ کھانا دیں گے۔ گریٹا تھنبرگ جیسی بچیاں فلسطینی بہنوں اور مائوں کے آنسو پونچھیں گی مگر انسانیت کے دشمن درمیان میں دیوار بن گئے۔ اس دیوار کا انہدام بہرحال نوشتۂ تقدیر ہے‘ ان شاء اللہ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں