عاپ کی کامیابی سے کیاسیکھا جا سکتا ہے؟

نئی دہلی کی ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں عام آدمی پارٹی(عاپ) کی غیرمعمولی کامیابی نے بھارت میں ہر ایک کو حیران کر رکھا ہے۔ عاپ کی کامیابی کے بھارتی سیاست پر تو اثرات پڑیں گے ہی، پاکستانی سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کے لئے بھی اس میںاہم سبق پوشیدہ ہیں۔ عاپ کے کامیاب تجربے (Success Model) سے ہمارے ہاں بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
ایک نہایت دلچسپ بات جو دیکھنے میں آئی وہ بھارتی انتخابی نظام کی موجودہ جدید اور جمہوری شکل ہے۔ پاکستان کی طرح بھارت میں بھی الیکشن ایک پیچیدہ آرٹ کا درجہ رکھتا تھا، سیاسی جماعتیں متفق تھیں کہ انتخاب جیتنے کے لئے اچھی انتخابی مہم چلانا، ووٹروں کو متحرک کرنا ایک الگ کام ہے اور الیکشن والے دن کی کارکردگی بالکل الگ اور زیادہ اہم کام ہے۔ کئی اچھے امیدوار اپنی نیک نامی، شہرت اور ووٹروں کی حمایت کے باوجود الیکشن ڈے کے لئے مطلوبہ وسائل اور تربیت یافتہ پولنگ ایجنٹ نہ ہونے کے باعث ہار جاتے تھے، دھاندلی کی شکایات عام تھیں۔ جعلی ووٹر لسٹیں، فرضی پولنگ اسٹیشن، ایک ووٹر سے بار بارووٹ ڈلوانا، انتخابی عملے سے ملی بھگت اور پولیس میں اثرورسوخ جیسے حربے عام تھے ۔ اسی لئے سیاسی جماعتیں روایتی مضبوط امیدواروں (electables)کو ترجیح دیتی رہیں کہ کچھ کام سیاسی جماعت دکھائے اور باقی امیدوار اپنے زور بازو سے کر گزرے۔
پچھلے چند برسوں کے دوران بھارت میںانقلاب برپا ہوگیا۔ سب سے بڑا کام ووٹنگ میں بائیو میٹرک سسٹم لانے سے ہوگیا۔ جعلی ووٹر لسٹوں اور ایک ووٹر کا دوچار بار ووٹ ڈالنا سب بے معنی ہوگیا۔ اب وہاں ووٹر اپنی باری پر بائیومیٹرک مشین پر انگوٹھا رکھتا ہے، مشین اسے شناخت کرلیتی ہے کہ یہ فلاں ابن فلاں اس حلقے کا ووٹر ہے اور اس نے پہلے ووٹ نہیں ڈالا، اس نے جسے ووٹ ڈالا، وہ بھی ریکارڈ ہوگیا۔ اس سسٹم سے دھاندلی اور جعلی ووٹوں کا خاتمہ ہوگیا۔ بھارتی سیاست میں جس انقلاب اور تبدیلی کی ضرورت تھی، بائیومیٹرک انتخابات نے اس کا راستہ ہموار کر دیا۔ عام آدمی پارٹی روایتی نظام میں کسی بھی طرح کامیاب نہیں ہوسکتی تھی کیونکہ اس کے پاس مضبوط امیدوار تھے نہ ہی پیسے کی ریل پیل۔ ان کے متوسط اور نچلے طبقے کے امیدواروں نے اپنا تمام تر زور ووٹروں کو متحرک کرنے، ان میں شعور پیداکرنے، تبدیلی کی خاطر ووٹ ڈالنے اور الیکشن والے دن پولنگ اسٹیشن جا کر ووٹ کاسٹ کرنے کے لئے لگا دیا۔ یہ محنت ثمر آور ہوئی۔ دہلی کے انتخابات میں ٹرن آئوٹ 67 فیصد رہا، بعض حلقوں میں تو یہ ستر فیصد سے بھی تجاوز کر گیا۔ شفاف انتخابات نے ان سب کی محنت کو کامیاب بنایا اور بھارتی سیاست کا ٹرننگ پوائنٹ آگیا۔ پاکستانی سیاست میں بھی کوئی بڑی تبدیلی لانے سے پہلے انتخابی نظام کو بدلنا پڑے گا۔ بائیومیٹرک انتخابات کے سوا کوئی اور آپشن نہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں شناختی کارڈ بائیومیٹرک کے بغیر نہیں مل سکتے، پاسپورٹ کا تو تصور تک نہیں، اب موبائل سم تک بائیو میٹرک پر ملے گی، مگر جب ووٹ بائیو میٹرک کے ذریعے ڈالنے کی بات آتی ہے تو ہماری بیشتر سیاسی جماعتیں اور روایتی سیاستدان اکٹھے ہوجاتے ہیں۔ وہ دانستہ فول پروف ووٹنگ سسٹم کو آنے ہی نہیں دیتے، مختلف تکنیکی اعتراض کرکے اسے لٹکا دیتے ہیں۔ تین صوبائی حکومتوں سے تو ایک فیصد بھی امید نہیں؛ البتہ خیبر پختون خوا کی حکومت کو بائیومیٹرک کے لئے آخری حد تک جانا چاہیے۔ صوبے میں ہونے والا ہر ضمنی انتخاب بائیومیٹرک طریقے سے ہونا چاہیے، بلدیاتی انتخابات کے لئے یہی طریقہ اپنانا چاہیے، اگر وسائل کی کمی ہے اور بائیومیٹرک مشینیں کم ہوں تو بلدیاتی انتخابات مرحلہ وار کرا لئے جائیں۔ پانچ پانچ ، سات سات اضلاع میں ہفتے ہفتے کے وقفے سے ہوسکتے ہیں، اس میں کوئی آئینی رکاوٹ نہیں۔ پاکستانی سیاست میں تبدیلی کی خواہش مند جماعتوں، حلقوں اور لوگوں کو بائیومیٹرک کے لئے کھڑا ہونا پڑے گا۔ اور کوئی راستہ نہیں۔
عام آدمی پارٹی نے بھارتی لوئر مڈل کلاس اور پڑھی لکھی اپر مڈل کلاس کو خاص طور پر ٹارگٹ کیا۔انہیں بتایا کہ تبدیلی کس طرح آ سکتی ہے، اس کے کیا عوامل ہیں اور ان کی ٹھوس بنیادیں کیا ہیں؟ مسائل کے انبار تلے دبی لوئر کلاس کے لئے بھی انہوں نے امید پیدا کی ، رشوت، بدعنوانی اور ظالم انتظامیہ سے تنگ سائیکل رکشہ والے، خوانچہ فروش، ریڑھی والے اور کچی آبادیوں میں کیڑے مکوڑوں کی سی زندگی گزارنے والوں کے لئے ایک واضح روڈ میپ دیا۔عاپ نے پچھلی بار کرپشن کے خلاف نعرہ لگایا تھا، جسے کامیابی ہوئی ،مگر وہ کافی نہیں
تھی۔ اس بار انہوںنے ایک جامع پلان بنایا۔ کرپشن ، انتظامی ظلم و ستم کے خاتمے کے ساتھ انہوں نے نوجوانوں کے لئے تعلیمی وظائف، مفت انٹرنیٹ، گینگ ریپ کے خطرات سے دوچار خواتین کے لئے حفاظتی اقدامات کی یقین دہانی، سستی بجلی، مفت پانی جیسے نعرے بھی اپنے ایجنڈے میں شامل کئے۔ یہ کوشش کامیاب رہی۔ پاکستان میں بھی تبدیلی کے لئے ان تمام طبقات کو ٹارگٹ کرنا ہوگا۔ عاپ نے اپنا انحصار ایسے نوجوان اور متحرک امیدواروں پر کیا، جن کا دامن صاف تھا۔ پاکستانی سیاسی جماعتوں کو بھی یہ رسک لینا ہوگا۔ روایتی امیدواروں کی جگہ غیر روایتی، پڑھے لکھے نوجوانوں کولانا پڑے گا۔صرف کرپشن کے خاتمے کا نعرہ کافی نہیں، مختلف طبقات کے مسائل کے خاتمے کوبھی ایجنڈے میں شامل کرنا ہوگا۔
عام آدمی پارٹی کے لیڈر اروند کجری وال کی کرشماتی شخصیت نے اس کامیابی میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔وہ عاپ کا چہرہ بن چکے ہیں، لوگوں نے انہیں دیکھا اور ان کے کہنے پر ووٹ ڈال کر یہ انقلاب بپا کیا۔ اروند کجری وال کی ذاتی کریڈیبلٹی شاندار ہے، ان پر کوئی دھبا نہیں۔ سیاسی غلطیاں ان سے ہوئیں، پچھلی بار صرف انچاس دن کے بعد انہوں نے استعفا دے دیا، جس کا بڑا منفی اثر پڑا۔ کجری وال کی ضد اور بسا اوقات اپنی مرضی سے کئے جانے والے فیصلوں کا بھی ذکر ہوتا ہے، ان کے کئی ساتھی اسی وجہ سے الگ ہوگئے۔ اروند کجری وال کی خوبی مگر ووٹروں کے دلوں میں گھر کر گئی کہ انہوں نے اپنی غلطیوں پر اصرار نہیں کیا۔ استعفا دینے پر بارہا جلسوں ، ریلیوں میں
لوگوں سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی۔ غلط فیصلوں پر اصرار نہیںکیا۔ ان کے مخالفین انہیں دھرنا ایکسپرٹ کہتے رہے، نریندر مودی اور بی جے پی کے دوسرے لیڈر کجری وال کو اعلانیہ ضدی، ناتجربہ کار اور یو ٹرن لینے والا کہتے رہے۔ عوام نے ان سب الزامات کو مسترد کر دیا۔ ووٹروں نے کجری وال کی دیانت داری، کمٹمنٹ ، اخلاص اور کچھ کر گزرنے کے عزم کو سراہا اور سپورٹ کیا۔ پاکستانی سیاست میں اگر کوئی سیاستدان کجری وال سے مماثلت رکھتا ہے تو وہ عمران خان ہے۔ جو الزامات کجری وال پر لگتے رہے، وہی آج کل عمران خان پر بھی لگ رہے ہیں۔ عمران خان بھی اپنی کمٹمنٹ ، تبدیلی کے لئے عزم اور غلطیوں کو نہ دہرا کر کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔
دہلی کے انتخابات سے بھارت میں پرانے سٹائل کی روایتی سیاست کے دفن ہونے، دیمک زدہ سیاسی جماعتوں کے دم توڑنے کی نوید ملی ہے۔ ابھی اس کی ابتدا ہے، وقت گزرنے کے ساتھ یہ عمل بڑھے گا۔ پاکستان میں بھی اسی نوعیت کی تبدیلی آ رہی ہے۔ پیپلزپارٹی، اے این پی جیسی پرانی جماعتیں دم توڑ رہی ہیں۔ پیپلزپارٹی پنجاب سے عملاً ختم ہوچکی ہے، اس کی واحد پناہ گاہ اندرون سندھ ہے، جہاں وہ اپنی بقا کے خطرے سے دوچار ہے۔ یہی حال دہلی میں کانگریس کا ہوا؛ حالانکہ وہ مسلسل پندرہ برس تک دہلی کی وزارت اعلیٰ پر براجمان رہی۔ سال ڈیڑھ پہلے ہی اس کی صوبائی حکومت ختم ہوئی، آج اسی اسمبلی میں اس کی ایک نشست بھی نہیں۔ پاکستان کی روایتی جماعتوں کو سبق سیکھنا چاہیے۔ اگر وہ اپنے انداز میں تبدیلی نہ لے آئیں تو ان کا حال بھی کانگریس جیسا ہی ہوگا۔ عمل شروع ہوچکا ہے، اسے سست کرنا ممکن ہے، مگریہ ریورس نہیں ہوسکتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں