کرکٹ اتنی بائی چانس بھی نہیں

پاکستان کے مختلف علاقوں میں موجود قدیم قلعے اگرچہ بڑی حد تک کھنڈر بن چکے ہیں، مگر ان میں سے بعض کے دیوقامت انتہائی وزنی گیٹ سلامت ہیں۔ چولستان کے طلسماتی حسن رکھنے والے قلعے ڈیراور (بعض لوگ اسے غلطی سے دراوڑ لکھتے ہیں)دیکھنے کا دو چار بار اتفاق ہوا۔ اس کا گیٹ بھی بہت اونچا، بڑا اور وزنی تھا، غالباً ہاتھیوں کے آنے جانے کی غرض سے اتنا بلند وبالا گیٹ رکھنا پڑتا ہوگا۔ اس گیٹ پر لگا کئی کلو وزنی تالہ بھی بڑا دلچسپ تھا۔ گارڈز نے خاصی وزنی چابی لگا کر تالہ کھولا تو گیٹ کھولنے کے لئے کئی آدمیوں کو ساتھ مل کر زور لگانا پڑا ، ایسا ہی حال سندھ کے کئی قلعوں کا ہے۔مجھے اپنے سکول کے دنوں میں پڑھی ایک اخباری تحریر آج تک یاد ہے۔ خودکشی کے موضوع پر کوئی آرٹیکل تھا۔ مضمون نگار نے رنی کوٹ، سندھ کے مشہور قلعے کاذکر کرتے ہوئے لکھا کہ جس طرح اس کا گیٹ کھولنے کے لئے آٹھ دس آدمیوں کو مل کر زور لگانا پڑتا ہے، اسی طرح ایک شخص کی خود کشی میں کئی افراد کا حصہ ہوتا ہے۔ بظاہر تو ایک آدمی غلطی کرتا ہے، مگراسے ایسا کرنے پر مجبور کرنے والے کئی ہوتے ہیں اور بیشتر اوقات ان میں سے کسی کو اپنے کئے کی سزا بھگتنا بھی نہیں پڑتی۔ وہ بلکہ معصوم بنے اس المناک واقعے پرتاسف کا اظہارکر رہے ہوتے ہیں۔
پاکستان ٹیم کی بھارت کے ہاتھوں شکست کے بعدمختلف ٹی وی چینلز پر کئی سابق کھلاڑیوں اور نام نہاد سپورٹس اینکرز کے تبصرے، تجزیے اور طنزیہ جملے سن کر مجھے برسوں پہلے وہ اخباری مضمون یاد آیا۔ ان میں سے کئی یقیناً ایسے ہیں، جن کا پاکستانی کرکٹ کی تباہی اور پاکستانی ٹیم کی حالیہ کمزورحالت میں بڑا اہم حصہ رہا ہے۔انہوں نے ٹیم کمبی نیشن بننے ہی نہیں دیا، کپتان یا کوچ نے کوئی تجربہ کرنا چاہا تو چائے کی پیالی میں طوفان اٹھا دیا۔ آج وہ معصوم بنے ،پاکستانی ٹیم کا ٹھٹھا اڑاتے ہوئے نسخہ مسیحائی بیان کر رہے ہیں۔
مجھے تشویش اس بات پر ہے کہ پاکستانی ٹیم کی نمایاں کمزوریاں ویسے کی ویسے ہیں۔ پچھلے ڈیڑھ دو برسوں سے میرے جیسے کچھ لوگ بار بار اس جانب توجہ دلاتے رہے کہ ورلڈ کپ جیسے میگا ایونٹ میں جانے سے پہلے بنیادی خامیاں تو دور کر لیں، مگر ان تمام تحریروں کا قطعی کوئی فائدہ نہیں ہوا، اتوار کے میچ میں شکست کے پس پردہ وہی خامیاں کارفرما تھیں۔حیرت ہے کہ جن لوگوں کو جنہوںنے برسوں انٹرنیشنل کرکٹ کھیلی، کیا وہ چیزیں نظر نہیں آتیں یا پھر کسی کھلاڑی کے خلاف تعصبات یا مختلف کرکٹ ایسوسی ایشنوں کی سیاست نے ان سے اچھے برے کی تمیز چھین لی ہے؟
پاکستانی ٹیم پچھلے دو تین برسوں سے تین چاربنیادی مسائل کا شکار رہی ہے۔ اوپننگ ان میں سے ایک ہے۔ پہلے یونس خان، انضمام الحق، محمد یوسف پر مشتمل مضبوط مڈل بیٹنگ آرڈر معاملہ سنبھال لیتی تھی، آخری اوورز میں عبدالرزاق جیسا میچ وننگ ہارڈ ہٹر بھی موجود تھا۔ اب مڈل آرڈر میں صرف مصباح ہی واحد قابل اعتماد بلے باز ہے،وہ تو انضمام الحق کا کردار نبھا رہا ہے، مگر اس کا ساتھ دینے کے لئے مگر کوئی محمد یوسف نہیں، عبدالرزاق جیسا تباہ کن ہارڈ ہٹنگ کرنے والا آل رائونڈر نہیں۔ کرکٹ سے معمولی سی دلچسپی رکھنے والے کو بھی علم ہے کہ آسٹریلیا میں اوپننگ کا بحران شدید ہوجائے گا ۔ہم نے آسٹریلیا ، نیوزی لینڈ کو سامنے رکھ کر اوپنر تیار ہی نہیں کیے۔ پچھلے دو برسوں میں جو تجربات کئے ، وہ ناکام ہی ہوئے۔ پہلے ناصر جمشید پر انحصار کیا گیا، وہ اپنی تکنیکی کمزوریوں سے آئوٹ ہوگیا توشرجیل خان سے امیدیں باندھ لی گئیں۔ اسے ایک نظر دیکھ کر ہی بتایا جا سکتا تھا کہ وہ سوئنگ ہوتی گیندوں کو نہیں کھیل پائے گا، اس کی دفاعی تکنیک کمزورہے اور ٹمپرامنٹ بھی۔بلا سوچے سمجھے اسے کھلایا جاتا رہا، سال بھر ضائع کر دیا۔ جب ورلڈ کپ سر پر آ گیا تو پھر ناصر جمشید کو آزمایا گیا، وہ ناکام ہو گیا تو پھرناقابل اعتماد محمد حفیظ پر بھروسہ کرتے ہوئے اسے بھیج دیا گیا، ایک مفروضہ پیش کیا گیا کہ سرفراز سے متبادل اوپننگ کی جا سکتی ہے۔ یہ کسی نے نہیں سوچا کہ سرفراز غریب وہاں کی پچوںکے حساب سے چھٹے ساتویں نمبر پر کھیل جائے ،بڑی بات ہے، اوپننگ کہاں سے کر پائے گا؟ وہی ہوا، وارم میچز میں سرفراز بری طرح ناکام ہوا، یونس خان کو اوپنر بھیجنے کا تجربہ کرنا پڑا۔ اگر
یونس خان سے اوپننگ کرانی تھی تو انہیں متحدہ عرب امارات میں نیوزی لینڈ کے خلاف پانچ ون ڈے بطور اوپنر کھلانے چاہیے تھے، پھر نیوزی لینڈ، آسٹریلیا میں پہلے دن سے تمام وارم اپ ، پریکٹس میچز میں یونس خان کو کھلایا جاتا، تاکہ وہ اپنے اس نئے کردار کے لئے تیار ہوتے۔ ہمارے ہاں اس تجربے پر شدید تنقید ہوئی، حالانکہ یونس ون ڈائون آتے ہیں،کئی بار انہیں پہلے، دوسرے اوور ہی میں کھیلنا پڑتا ہے۔ اس لئے نئی گیند کا مسئلہ تو نہیں، لیکن اوپنر کی اپنی الگ نفسیاتی کیفیت ہوتی ہے۔ یونس خان میں وہ اوپنر والااعتماد نظر نہیں آیا، جس کی وجہ سے وہ ایک ایسی گیند پر وکٹ دے بیٹھے، جس کو نہایت آسانی سے چھوڑا جا سکتا تھا۔
عمرا کمل کو بطور وکٹ کیپر کھلانے پربھی بہت شور مچ رہا ہے۔ یہ درست ہے کہ اس نے ایک کیچ چھوڑ دیا، مگر سرفراز جسے سپیشلسٹ وکٹ کیپر بنا کر ساتھ لے گئے ہیں، وہ بھی تو ہر میچ میں دو تین کیچ اور سٹمپ چھوڑ دیتا ہے۔ چار سال پہلے ورلڈ کپ ہارے تو کامران اکمل کی ناقص کیپنگ کو بھی ایک سبب مانا گیا۔ ہمیں اس کے بعد ایک ایسا کیپر ڈھونڈنا چاہیے تھا ،جوعمدہ کیپنگ کرے ،مگر ساتھ اچھا بلے باز بھی ہو۔ ایسا نہیں ہوا ، کبھی کامران واپس آیا، کبھی اس کے بھائی کو کھلایا گیا، جو بہت کمزور بلے باز تھا یا پھر کراچی کرکٹ ایسوسی ایشن کے دبائو پر سرفراز کو کھلایا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سرفراز سلو پچز کا اچھا بلے باز ہے ، اس نے کئی مواقع پر
رنز بھی کئے ، مگر وہ دوسرے ، تیسرے درجے کا وکٹ کیپر ہے۔ کسی بھی ورلڈ چیمپئن ٹیم کا ایسا کمزور وکٹ کیپر نہیں ہوسکتا۔ ہمارے فاسٹ بائولرز کسی زمانے میں مشہور تھے، اب ٹیم کا پیس اٹیک بھی دوسرے درجے کا ہوچکا۔ محمد عرفان کے علاوہ کوئی بھی بائولر ایسا نہیں جومخالف بیٹنگ لائن کو پریشان کر سکے۔ اتوار کے میچ میں یہ صاف نظر آیا۔ یہ تو خوش قسمتی ہے کہ آخری اوورز میں سہیل خان نے اچھی بائولنگ کی ورنہ ٹارگٹ ساڑھے تین سو کے لگ بھگ ہوجانا تھا۔ سہیل خان کاشامل ہونا بھی اتفاق ہی ہے۔اسے تو ورلڈ کپ کے لئے ممکنہ تیس کھلاڑیوں میں بھی شامل نہیں کیا گیاتھا، اب آخری لمحات میں شامل کرنا پڑا۔ اسے بھی سال ڈیڑھ پہلے تواتر کے ساتھ کھلا کر اعتماد دینا چاہیے تھا۔ حارث سہیل اچھا بلے باز ہے، اسے دو سال پہلے قومی ٹیم کے ساتھ رکھا گیا، مگر فواد عالم جیسے دوسرے درجے کے کھلاڑی کو کھلاتے رہے، حارث پر وہ انویسٹمنٹ کی جاتی تو اس کا زیادہ فائدہ ہوتا۔ عبدالرزاق کی جگہ کوئی اچھا بائولنگ آل رائونڈر بھی نہیں ڈھونڈا جا سکا۔ ویسے تو اگر عبدالرزاق کو اعتماد دیا جاتا تو اس کی کرکٹ ابھی باقی ہے۔
عبدالرزاق تجربہ کار میچ وننگ پلیئر کے طور پر ورلڈ کپ میں مفید ثابت ہوسکتا تھا۔ کرکٹ کو بائی چانس کہا جاتا ہے، مگر اب یہ اتنی بھی بائی چانس نہیں رہی، اس میں سائنسی عنصر شامل ہوچکا ہے۔ اچھی ٹیمیں سائنٹفک انداز میں کمبی نیشن بناتی اورٹورنامنٹ سے پہلے کھلاڑیوں میں یکسوئی پیدا کر دیتی ہیں۔ ہم ابھی تک تجربوں میں لگے ہوئے ہیں، ایسے میں شائقین کے پاس کسی معجزے کی دعا کے سوا اور آپشن نہیں رہتی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں