بیانیے اور جوابی بیانیے کی بحث

آج کل اخبارات میںبیانیہ،جوابی بیانیہ کی بحث زوروں پر ہے۔الیکٹرانک میڈیا البتہ بحث سے باہر ہے کہ اس کا بھوجن کرنٹ افیئرزہے، وہاں بھی اسے تند وتیز بحث، لڑائی جھگڑوں،تلخی سے بھرپور گفتگو ہی پسند ہے۔ سنجیدہ فکری مباحث کوالیکٹرانک میڈیا نے اپنی صف سے باہر نکال رکھا ہے۔اخبارات کے ادارتی صفحات البتہ ہر قسم کی بحث کو سمولیتے ہیں۔میڈیا کے ساتھ سوشل میڈیا پر بھی یہ بحث جاری ہے اور بعض گروپس میں تو زوروں پر ہے۔بعض لوگوں نے البتہ اس حوالے سے سوالات بھی اٹھائے ہیں۔دو تین باتیں عام طور پر کہی جاتی ہیں۔کچھ لوگوں کو تو اس بیانیہ، جوابی بیانیہ کی بحث کی وجہ ہی سمجھ نہیں آئی، بعض کا سوال ہے کہ اس مشق کا آخر فائدہ کیا ہے؟ اتنی مغزماری کس مقصد کے لئے کی جار ہی ہے؟ یہ اعتراض بھی کیا جاتا ہے کہ آخر عام آدمی کا اس سے کیا تعلق ہے ؟ عام آدمی کا مسئلہ روٹی، کپڑا، رہائش، جان ومال کا تحفظ وغیرہ ہے، ان مسائل پر بات ہونی چاہیے... وغیرہ وغیرہ۔
اس قسم کے اعتراضات اور سوالات پیدا ہونے کی ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ دوسرے بہت سے ممالک کی طرح ہمارے ہاں بھی عملی طور پر نظریے کی موت واقع ہوچکی ہے۔ ایک خاص قسم کا نظریاتی بنجرپن ہے، جو ہر طرف دکھائی دیتا ہے۔ایک زمانہ تھا، جب نظریا تی کشمکش بھی عروج پر تھی، مگر اس کا ایک فائدہ ہوا کہ دونوں اطراف سے پڑھنے لکھنے کا ماحول بنا رہتا تھا، دینی سوچ رکھنے والے حلقے تھے یا ان سے متضاد موقف رکھنے والے لیفٹ کے لوگ، ہر کوئی اپنے کارکنوں خاص کر نوجوانوں کی فکری تربیت پر زور دیتا تھا۔ سٹڈی سرکل بڑے اہتمام سے کرائے جاتے تھے۔ٹریڈ یونین کی سیاست میں بھی نظریاتی رنگ غالب تھا،مزدوروں اور کسانو ں کی سوچ بدلنے اور اسے نظریاتی جدوجہد کرنے پر آمادہ کیا جاتا تھا۔ طلبہ تنظیموں میں خرابیاں تو تب بھی تھیں، مگر وہ سیاست اورنظریہ سازی کی نرسری کا کام بھی کر رہی تھیں۔ آج بھی ستر کے عشرے اور اس سے کچھ بعد کی طلبہ تنظیموں میں کام کرنے والے لیڈروں کو دیکھا جائے تو ان میں اور غیر جماعتی سیاست میںبرادری اور پیسے کے زور پر عروج پانے والے سیاستدانوں میں واضح فرق نظرآئے گا۔پچھلے دس پندرہ برسوں کے دوران ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ملک میں نظریات اور فکر ودانش کی فصلیں اجاڑ دی گئیں۔ مارشل لاء حکومتوںکو تو یہ سب کچھ ویسے ہی راس نہیں آتا، ہماری سیاسی اور نام نہاد جمہوری حکومتوں نے بھی دانستہ پڑھے لکھے سیاستدانوں کو پیچھے کیااور برادری ، تھانہ کچہری کی سیاست کرنے والوں کو اوپر لے آئے۔ کتاب اور نظریات سے متنفر یہ قومی لیڈر نہیں چاہتے کہ سیاسی جماعتوں اور ا ن کے کارکنوں کی سیاسی اور نظریاتی تربیت ہو ، کہیں ان سے سوال نہ پوچھے جانے لگیں، ان کے بادشاہوں جیسے طریقوں، شہزادوں اور شہزادیوں کا کردار نبھانے والی ان کی اولاد پر کوئی انگلی نہ اٹھا دے۔ ا س خوف سے انہوں نے ہر قسم کے نظریات کا خاتمہ کیا ،بلکہ کوئی ایک آدھ بچا کھچا دانہ رہ بھی گیا تو اسے کھڈے لائن لگا دیا گیا۔ اس میں تعجب نہیں کہ آج تمام جماعتیں ایک سی محسوس ہوتی ہیں۔ منشور، نظریہ،سوچ، حتیٰ کہ طریقہ واردات بھی ایک سا ہے۔ کوئی ایک آدھ جماعت اگر تبدیلی کے نعرے کے ساتھ وارد ہوجائے تو سب اس کے خلاف اکٹھے ہوجاتے ہیں۔
ویسے یہ بنیادی بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جانوروں اور انسانوں کے طرز زندگی میں فرق ہونا چاہیے۔ زندہ رہنے کی ضروریات کی فراہمی ہر حال میں ہونی چاہیے، یہ اول ترجیح بنائی جائے، مگر انسانی معاشرے کو زندہ رہنے کے لوازمات کے ساتھ کچھ اور چیزوں کی ضرورت بھی ہوتی ہے، مادی وجود کے ساتھ انسان کا روحانی،فکری حتیٰ کہ جمالیاتی وجود بھی ہوتا ہے۔ روزانہ ہم جمہوریت ، سول ملٹری ریلیشن شپ، اسٹیبلشمنٹ، اینٹی اسٹیبلشمنٹ وغیرہ کے مسائل پر گھنٹوں بحثیں کرتے ہیں، ان کی بھی ایک افادیت ہے۔ شاعر شعر کہتے، فکشن نگار کہانیاں لکھتے،آرٹسٹ فن پارے تشکیل دیتے، فلمیں بناتے، سنگیت تخلیق کرتے ہیں۔ یہ سب براہ راست عام آدمی کے مسائل حل نہیں کرتے، ان سے پیٹ نہیں بھرتا، تن ڈھانپنے کو کپڑے نہیں ملتے،مگر ظاہر ہے ان سب کی اہمیت سے کون انکار کر سکتا ہے۔اسی طرح نظریاتی تربیت، فکرسازی اور سوچ بچار کی اہمیت راسخ ہے۔نظریاتی بیانیہ، جوابی بیانیہ یا متبادل بیانیہ کے مباحث بظاہر خشک اور اکیڈیمک لگتے ہیں، مگر یہ وقت کی ضرورت ہے۔
جوابی بیانیہ یا متبادل بیانیہ یااسے آسان لفظوں میں جوابی نقطہ نظر کہہ لیں، کی اہمیت اس لئے بھی زیادہ ہے کہ ہمارے ہاں ایک
شدت پسند حلقہ اپنے متشدد اور دہشت گردی پر مبنی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لئے ایک خاص بیانیہ یا نظریہ کو استعمال کرتے ہیں۔تحریک طالبان پاکستان سے القاعدہ اور حزب التحریر جیسی تنظیموں سے طاقت پکڑتی داعش اورادھر مشرق وسطیٰ کے شدت پسند گروپوں سے نائجیریا کے بوکو حرام تک ہر ایک چند خاص نکات کو آگے بڑھاتا اور ان کی بنیاد پرریکروٹنگ کرتا ہے۔ ان میں خلافت کا نعرہ سرفہرست ہے،دا عش اسی بنیاد پر مختلف ممالک سے چھوٹے بڑ ے گروپوں کو ساتھ ملا رہی ہے۔عالمگیر جہاد،امریکہ اور مغربی استعمار کے خلاف مسلح مزاحمت، پَین اسلام ازم کے نعروں کو مختلف طریقوں سے توڑ مروڑ کر یہ سب شدت پسند گروپ استعمال کرتے ہیں۔ ان کے بیانیہ کے خلاف ایک بھرپورجوابی بیانیہ کی ضرورت تو محسوس کی جاتی رہی ہے۔جس سفاکی سے یہ دہشت گرد تنظیمیں نہتے لوگوں کو نشانہ بناتی ، اپنے ایجنڈے کی خاطر پورے پورے ملک اجاڑ دیتی ہیں، اسے ہر صورت میںکائونٹرکیا جانا چاہیے ۔ یہ کام اسلامسٹ حلقوں کوکرنا چاہیے تھاکہ یہ سب دہشت گرد گروپ بنیادی طور پر مذہبی حلقوں ہی کوبدنام کرتے ہیں۔ایسا مگر بوجوہ نہیں ہوسکا۔ جاوید احمد غامدی صاحب نے جوابی بیانیہ کی صورت میں یہی کچھ کیا ہے۔ان کے بیانیہ نے ایک کام تو کیا کہ جمود زدہ فکری تالاب میں کنکر پھینک کر ارتعاش پیدا کر دیا۔ جمود ٹوٹا ہے، اس لہر کو مگر آگے تک چلنا اور قحط زدہ فکری زمینیں سیراب کرنی ہوںگی۔غامدی صاحب کے پہلے کالم نے بیک وقت کئی اہم معاملات کو چھیڑااور ریاست کے
مذہبی ہونے ، نہ ہونے کی بحث بھی شروع کر دی،جو سیکولر حلقوں کا پسندیدہ موضوع ہے۔یہ تاثر ملا کہ غامدی صاحب سیکولر حلقوں کی مدد کو آئے ہیں۔ اس پہلے مضمون کا ردعمل بھی شدید ہوا اور اس کے جواب میں کئی اہل فکر نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔ سب سے اہم اور موثر مفتی تقی عثمانی صاحب کا مضمون تھا۔ مفتی صاحب نے پوری علمی شائستگی مگر بڑی مہارت کے ساتھ غامدی صاحب کے مضمون میںموجود بعض تضادات پر گرفت کی اور چبھتے ہوئے سوالات اٹھائے۔ سچ تو یہ ہے کہ روایتی دینی فکر کی جانب سے ایسے شائستہ اسلوب میں مدلل تحریر کی کم ہی لوگوںکو توقع تھی۔ جاوید غامدی صاحب نے اپنے پہلے مضمون کے بعد چار مزید مضامین لکھے، ان میں سے آخری دو تو توضیحات پر مبنی تھے۔میری ذاتی رائے میں اب جبکہ جاوید غامدی صاحب کا نقطہ نظر پوری طرح سامنے آ چکا ہے، ان کے حوالے سے یہ تاثر تو دور ہوگیا کہ وہ سیکولر نقطہ نظر کو سپورٹ کر رہے تھے ۔ان کا یہ جوابی بیانیہ دراصل شدت پسندفکر کے خلاف ہی ہے۔غامدی صاحب نے خلافت، جمہوریت، پارلیمنٹ ، قومیت وغیرہ کے حوالے سے اپنے نقطہ نظر یا نظام فکر کو پیش کیا ہے۔ یہ اور بات کہ ان کا بیانیہ شدت پسند مذہبی فکر کو کائونٹر کرنے کیلئے کافی نہیں۔یہ کام اسلامسٹوں کو کرنا پڑے گا۔ غامدی صاحب کانظام فکر دانستہ ،نہ سہی، مگر نادانستہ طور پر سیکولرفکر کو سپورٹ کرتا ہے۔ ان کے نظام فکر کے بعض اجزا سیکولرحلقوں کے کام آتے ہیں۔ اب یہی دیکھ لیجئے کہ انہوں نے کتنے اہم موضوعات کو چھیڑا، بعض تصورات پر ضرب لگائی، مگر ردعمل صرف رائٹسٹ یا اسلامسٹ حلقوں سے آیا۔ ایک بھی سیکولر لکھاری نے ان کی فکر کے کسی جز پر تنقید نہیں کی۔ایساکیوں ہوا؟ یہ سوال غامدی سکول آف تھاٹ کے دوستوں کو اپنے آپ سے پوچھنا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں