شدت پسندی کی نفسیات

چند سال پہلے ایک اخبارنویس دوست کے ساتھ عسکریت پسندی کے حوالے سے خاصی تفصیلی گفتگو ہوا کرتی تھی۔ موصوف زمانہ تعلیم میں ایک مذہبی پہچان رکھنے والی طلبہ تنظیم سے وابستہ رہے‘ ماضی میں روس کے خلاف ہونے والے افغان جہاد سے گہری نظریاتی وابستگی تھی اور بنیادی طور پر دینی ذوق سے مالامال نہایت مخلص نوجوان تھے۔ بسا اوقات بحث گھنٹوں جاری رہتی اور پھر جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے، بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو جاتی۔ تحریک طالبان پاکستان کے وہ مخالف تھے، مگر ان کا خیال تھا کہ القاعدہ کی اخلاقی حمایت کرنی چاہیے کہ اس نے عالمگیر استعمار کے خلاف جدوجہد کا علم بلند کر رکھا تھا۔ میرا ان سے اسی بنیاد پر اختلاف رائے تھا۔ میرا خیال تھا کہ ٹی ٹی پی تو خیر پاکستان کے لئے براہ راست خطرہ ہے ہی کہ اس نے براہ راست پاکستانی فورسز اور ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھا رکھے ہیں، مگر گلوبل ایجنڈا رکھنے والے القاعدہ جیسے گروہ بھی اتنے ہی بلکہ شائد کچھ زیادہ خطرہ ہیں کہ ان کے نزدیک کسی ریاست کی کوئی حیثیت نہیں اور اپنے گلوبل ایجنڈے کی تکمیل کی خاطر وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ تین چار برسوں سے اس دوست سے ملاقات نہیں ہو سکی، وہ غالباً بیرون ملک جا چکے ہیں۔ معلوم نہیں کہ داعش اور بوکوحرام کی سفاکانہ کارروائیوں نے ان پر کیا اثرات چھوڑے ہیں اور وہ اپنی رائے سے رجوع کر چکے ہیں یا ابھی تک شدت پسندی کی فکری دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں؟
القاعدہ اور اس قبیل کے گروپوں کے حوالے سے ایک پورا حلقہ انہی فکری مغالطوں سے دوچار ہے، جس کا شکار ہمارے وہ اخبار نویس دوست تھے۔ بنیادی وجہ وہی ہے کہ یہ متشدد گروپ اپنی دہشت گردی کے لئے ایک خاص بیانیہ یا نظریہ استعمال کرتے ہیں، جس کی بنیاد میں جہاد کی غلط تعبیر و تشریح، استعمار کے خلاف لڑائی کا جواز اور سازشی نظریات سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ اس شدت پسند انداز فکر میں جو تضادات اور کمزوریاں ہیں، ان کی نشاندہی ہماری مذہبی فکر کی ذمہ داری تھی۔ یہ کام منظم طریقے سے نہیں ہوا، وجہ وہی ہے کہ اسلامسٹوں یا رائٹسٹوں میں سے بہت سے لوگ شدت پسندی سے بیزاری کے باوجود کھل کر ان کے خلاف بات نہیں کرتے، انہیں یہ خدشہ ہوتا ہے کہ چونکہ شدت پسند فکر اس وقت امریکہ کے مدمقابل کھڑی ہے، اس لئے اس فکر پر تنقید کا مطلب امریکہ کی حمایت نہ تصور کر لیا جائے۔ یہ سوچ درست نہیں۔ دینی سکالرز کی ذمہ داری ہے کہ وہ پوری صراحت سے اور کھل کر درست اور غلط کی نشاندہی کریں۔ القاعدہ اور گلوبل ایجنڈا رکھنے والی تنظیموں کے تین چار بڑے تضادات ہیں۔
سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ سب گروپ ریاست اور اس کے وجود کے قائل نہیں۔ پاکستان جیسی ریاست کی سلامتی، قومی تقاضے اور اس کا تحفظ ان کا مسئلہ نہیں۔ القاعدہ ٹائپ گروہ صرف اپنے مفادات سامنے رکھتے ہیں، اسی عینک سے وہ پوری دنیا کو دیکھتے اور اپنی کارروائیوں کی پلاننگ کرتے ہیں۔ افغانستان کو القاعدہ نے اپنا مرکز بنایا، دنیا بھر سے اپنے ہم خیال اکٹھے کئے اور امریکہ کو اس کے اندر سے ضرب لگانے کی تیاری شروع کی۔ آخرکار انہوں نے وہ کارروائی کر ڈالی جس نے دنیا کا رخ بدل ڈالا۔ افغان طالبان عالمی تقاضوں اور نزاکتوں سے بے بہرہ سادہ قبائلی ذہن اور نظام فکر رکھنے والے لوگ تھے۔ انہیں اس کا شائبہ بھی نہیں ہو گا کہ نائن الیون کے واقعے کا ردعمل اس قدر شدید ہو گا۔ القاعدہ البتہ ممکنہ امریکی ردعمل سے باخبر تھی، اسی لئے نائن الیون سے چار روز قبل طالبان مخالف شمالی اتحاد کے سب سے اہم کمانڈر احمد شاہ مسعود کو خودکش حملے میں قتل کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی۔ یہ افغانستان میں ہونے والی پہلی خودکش کارروائی تھی۔ القاعدہ کی قیادت کو چاہیے تھا کہ وہ افغانستان کی طالبان حکومت کے متعلق بھی سوچتی کہ اگر امریکہ نے جوابی حملہ کر دیا تو ان کا کیا بنے گا؟ ایسا نہیں کیا گیا۔ امریکہ اس واقعے کے بعد اپنی تمام تر وحشت اور بے رحمانہ قوت کے ساتھ افغانستان پر چڑھ دوڑا، جس کا بہرحال کوئی اخلاقی جواز نہیں تھا۔ طالبان حکومت کا ناصرف خاتمہ ہوا بلکہ اگلے برسوں میں دس لاکھ سے زیادہ افغان ہلاک ہوئے۔ اس سب کے باوجود القاعدہ کی صفوں میں اس امر پر اطمینان پایا جاتا ہے کہ انہوں نے امریکہ کو افغانستان میں اتنے برسوں تک پھنسائے رکھا۔ 
پاکستان میں دائیں بازو کے لوگ اس پر یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا اور مستقبل میں یہ اسلام کا مرکز بنے گا۔ پاکستان کی سلامتی، تحفظ اور مضبوطی اسی لئے ان کے نزدیک اہم ہے۔ پاکستان کے ایٹمی قوت بننے پر ہمیشہ رائٹ ونگ میں 
تفاخر کا احساس پایا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ملا عمر اور افغان طالبان میں بھی یہ سوچ پائی جاتی ہے۔ انہوں نے پاکستانی ریاست سے ٹکرانے سے ہمیشہ گریز کیا۔ اس کے برعکس القاعدہ ہو یا داعش... ان کے نزدیک اس بات کی کوئی اہمیت نہیںکہ پاکستانی ریاست مضبوط و مستحکم رہے۔ چند سال پہلے جی ایچ کیو پر حملہ کیا گیا، اس کی پلاننگ الیاس کشمیری نے کی تھی، جو القاعدہ کی قیادت کے قریب تھے۔ ایک عام آدمی بھی جانتا ہے کہ جی ایچ کیو پر حملہ کے مقاصد اگر پورے ہو جاتے تو پاکستان کس قدر بڑے اور شدید بحران سے دوچار ہو جاتا۔ دنیا بھر میں یہ تاثر قائم ہوتا کہ جو فورسز اپنے چیف کی حفاظت نہیں کر پائی، وہ ایٹمی ہتھیاروں کو کیسے محفوظ کر پائے گی؟ وہ تو اللہ کا شکر ہے کہ جوانوں نے اپنی جان کی بازی لگا کر وہ منصوبہ ناکام بنایا، ورنہ القاعدہ نے انتہائی خطرناک کارڈ کھیلا تھا۔ وجہ وہی ہے کہ کسی ریاست میں انتشار پھیلے، حکومت کی رٹ ختم ہو جائے، چھوٹے چھوٹے بے شمار گروپ پیدا ہو جائیں، گورننس نہ ہو پائے تو اس سب میں انتہا پسندی کی پنیری خوب پھلتی پھولتی ہے۔ یہ دہشت گرد گروپ اسی لئے انتشار کے ایجنڈے کو ہوا دیتے ہیں۔ ایک اور خطرناک پہلو ہے کہ جب ہر طرف شدت پسندی اور انتہا پسندی کا دور دورہ ہو تو ایسے میں تکفیری نظریہ مقبول ہوتا ہے، فرقہ وارانہ قتل و غارت اور تباہی پھر یقینی ہو جاتی ہے۔ عراق میں القاعدہ کے چیف ابو مصعب الزرقاوی نے اسی تکفیری سوچ کو آگے بڑھایا اور ایسی فرقہ وارانہ آگ بھڑکائی، جو پھر بجھائی نہ جا سکی۔ افغانستان میں خوش قسمتی 
سے افغان طالبان نے ایسا نہیں ہونے دیا۔ قبائلی علاقوں اور پاکستان میں فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ کے پیچھے البتہ یہی تکفیری سوچ کارفرما رہی۔ شدت پسند سوچ اور حکمت عملی کو سب سے بہتر انداز سے مصر کے اخوان المسلمون نے کائونٹر کیا۔ جدید تاریخ میں اخوان سے بڑھ کر شاید ہی کسی مسلم تنظیم نے ریاستی جبر و تشدد کو برداشت کیا ہے۔ اخوان المسلمون ہر عہد میں ثابت قدم رہی۔ مصری حکومت نے ان پر جو قیامت توڑی، وہ سب کے سامنے ہے۔ اخوان کے ضعیف العمر قائد (مرشد عام) ڈاکٹر محمدالبدیع شدید علالت کے باوجود قید میں ہیں، ڈاکٹر خیرات الشاطر اور حسن البلتاجی جیسے لیڈروں نے اپنی اولادیں قربان کر دیں، مگر کسی کارکن کو ہتھیار اٹھانے کی اجازت نہیں دی۔ چار سال پہلے مجھے مصر جانے کا موقعہ ملا۔ اخوان کے اس وقت کے مرشد عام مہدی عاکف سے میں نے انٹرویو کیا۔ مرشد عام نے صاف کہا، ''ہم طے کر چکے ہیں کہ صرف پُرامن اور دستوری جدوجہد ہی کرنی ہے، کسی بھی قسم کے خفیہ انقلاب کا ساتھ نہیں دینا بلکہ ہم تو انقلاب کی اصطلاح ہی کے مخالف ہیں اور اب ہم بتدریج اصلاحات کے حامی ہیں۔ انقلاب معاشرے برباد ہوتے ہیں جبکہ اصلاحات انہیں قوت بخشی ہیں۔‘‘ ڈاکٹر مرسی کو ہٹانے اور اخوان پر پابندی کے باوجود دنیا کی یہ سب سے بڑی اسلامی تحریک آج بھی عسکریت پسندی کی مخالف اور صرف پُرامن دستوری، سیاسی جدوجہد کی حامی ہے۔ اپنے تجربات سے وہ سیکھ چکے ہیں کہ ہتھیار اٹھانا ایک ایسی شیطانی دلدل میں دھنسنے کے مترادف ہے، جس کے بعد وہ گروہ یا تنظیم تباہی پھیلانے والی ایک مشین بن جاتی ہے، جس کا اسلامی تحریک سے کوئی تعلق رہتا‘ نہ ہی اسے قدرت کی لافانی قوتوں کی نصرت حاصل رہتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں