زندگی کے گرے شیڈز

کچھ عرصہ پہلے معروف بھارتی اداکار اوم پوری پاکستان آئے۔ان کے بہت سے انٹرویوز ہوئے، روزنامہ دنیا کے میگزین کو بھی انہوں نے تفصیلی انٹرویو دیا۔ اوم پوری کی اہلیہ سیما کپور نے بھی گفتگو کی۔ سیماکپور بھارت کی معروف ٹی وی ڈرامہ رائٹر ہیں۔ آج کل نہیں لکھ رہیں۔ ان سے اس حوالے سے پوچھا گیا تو سیماکپور نے صاف کہہ دیا کہ میں نے خود کنارہ کشی اختیار کی ہے۔اس کی وجہ پوچھی تو وہ کہنے لگیں، ''آج کل انڈین ڈراموں میں دو ہی چیزیں ہو رہی ہیں، یا توعورت ظلم کر رہی ہے یا مظلوم ۔ اس لئے کچھ نہیں لکھ رہی کہ میں زندگی کو بلیک اینڈ وائیٹ میں دیکھنے کے خلاف ہوں۔ زندگی کے گرے ایریاز بھی آنے چاہئیں۔بھارتی ٹی وی ڈرامہ میں گرے شیڈز ختم ہوگئے ہیں۔ ‘‘سیما کپور کی یہ بات مجھے اچھی لگی، ہمارے ہاں بھی یہی مسئلہ ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہرمعاملے میں بلیک اینڈ وائیٹ میں کوئی رائے دینے کے بجائے اس کے مختلف پہلوئوںکو سامنے رکھ کر بڑے تناظر میں بات کرنی چاہیے۔ اس طرح وہ تعصب سے عاری اور حقیقت سے زیادہ قریب ہوگی۔ ہمارے ہاں اس کے برعکس سوئپنگ سٹیٹمنٹ دینے کا رواج عام ہوگیا ہے۔ کسی کی رائے سے معمولی سا اختلاف ہوا، فوراً ہی اس پر کوئی نہ کوئی لیبل لگا دیا۔ نفسیاتی ماہرین اسے ٹیگ سنڈروم کہتے ہیں ۔ ہر ایک پر کوئی نہ کوئی ٹیگ لگا دینا۔ کوئی پروطالبان ہے، کوئی جماعتیہ، کوئی شدت پسند ،کوئی مغربی آلہ کار ... یہ فہرست طویل ہوتی جاتی ہے۔
ہمارے ہاں سنجیدہ اور معیاری بحث نہ ہونے کی ایک وجہ موقف میں آنے والی شدت ہے۔ بیشتر ایشوز پر لوگ دو گروہوں میں تقسیم ہیں، دونوں کا موقف انتہائی ہے، درمیان کی کوئی گنجائش ہی نہیں چھوڑی جاتی۔معتدل رائے رکھنے والوں کے لئے ایسے میں بڑی مشکل پیدا ہوجاتی ہے کہ بسا اوقات ان کے دلائل اور موقف کو بزدلی قرار دے کر فوری مسترد کر دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ بھارت کو ایم ایف این سٹیٹس نہ دو تو فوراً ہی اس پر امن مخالف اور انتہا پسند ہونے کا الزام دیا جاتا ہے۔ بھارت کے ساتھ دوستی کی بات کرنے والوںکو پرو انڈیا ہونے کا طعنہ مل جاتا ہے۔ حالانکہ یہ عین ممکن ہے کہ جو بھارت کو غیرمعمولی تجارتی رعایتیں دینے کا مخالف ہو، وہ پاکستان کی انڈسٹری ، زراعت اور اکانومی کے مجموعی مفادات سامنے رکھ کر یہ بات کہہ رہا ہو، اسی طرح بھارت کے ساتھ تعلقات خوشگوار بنانے کے خواہش مندوں کی نیت پر شک نہیں کرنا چاہیے۔ پاکستانی طالبان کے حوالے سے تولیبل لگانے کی شدت پسندی عروج پر پہنچ چکی تھی۔ جب مذاکرات کی بات ہو رہی تھی ، ان دنوں جس کسی نے مذاکرات کی حمایت کی تو اسے فوراً ہی بنیاد پرست مولوی یا طالبان کا حامی قرار دیا جاتا تھا۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ وہی شخص، گروہ یا جماعت دوسرے بہت سے پہلوئوں میں طالبان سے نہ صرف مختلف بلکہ متضاد موقف کے حامل ہیں،بلکہ کئی اعتبار سے روشن خیال اور ترقی پسند سوچ رکھتے ہیں۔ اسی طرح کسی نے طالبان کے خلاف آپریشن کی بات کی تو اس پر فوری الزام جڑ دیا جاتا کہ یہ امریکی ایجنٹ ہے۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ دیگر ایشوز پر وہ پوری قوت سے امریکی استعمار کی مخالفت کرتا رہا ہو۔ یہ موقف کی شدت ہی ہے کہ مولانافضل الرحمن کے خلاف کچھ لکھ دیا جائے تو ان کے حامی اس رائے کو علماء دشمنی اور دینی قوتوں کے خلاف حملہ سمجھتے ہیں۔ مولوی صاحب ایک سیاستدان ہیں، ان کی کسی رائے یاسیاسی حکمت عملی پر ستائش بھی ہوسکتی ہے اور سخت تنقید بھی۔ عمران خان کی بھی یہی پوزیشن ہے۔ ان کے حامی اور مخالف دونوں شدت پسندی کا شکار ہیں۔ حامیوں کے نزدیک کپتان کا کہا ہرفقرہ درست اور ہر حکمت عملی تنقید سے بالاتر ہے، جبکہ مخالفین کو دنیا بھر کی ہر خامی عمران خان میں نظر آتی ہے۔ تعصب اسی کا نام ہے۔ اعتدال اور توازن کا مطلب ہی یہ ہے کہ آپ دیانت داری کے ساتھ اپنے جذبات، پسند ناپسند سے اوپر اٹھ کر جسے درست سمجھتے ہیں، اس کا اظہار کریں۔
آج کل مسئلہ یہ ہے کہ لوگ فوراً ہی سوئپنگ سٹیٹمنٹ دے دیتے ہیں، ہر انسان کی مختلف موضوعات پر مختلف رائے ہوتی ہے۔ بعض اوقات کسی ایشو کے مختلف حصے ہوتے ہیں، ان پر مختلف آرا ہو سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر یہ لکھا جائے کہ تحریک طالبان پاکستان والے دہشت گرد ہیں، انہوں نے ریاست پاکستان کو بلاجواز اور غلط طور پر نشانہ بنا رکھا ہے، بے گناہ جانیں لے رہے ہیں۔ اس پر ٹی ٹی پی کے مخالفین بہت خوش ہوتے اورداد وتحسین کے ڈونگرے برساتے ہیں۔ جب اسی رائے کے دوسرے حصے کا اظہارکیا جائے،'' افغان طالبان مگر ٹی ٹی پی کا حصہ نہیں ، انہوں نے کبھی پاکستان کو نشانہ نہیں بنایا، پاکستانی ریاست کے مفادات ملحوظ خاطر رکھے۔‘‘ اس پر وہی دوست
شدت پسندوںکی حمایت کا گلہ دیتے ہیں کہ شدت پسندی سپورٹ کی جا رہی ہے اور گڈ طالبان، بیڈ طالبان کی تقسیم کی جا رہی ہے۔حالانکہ یہ تو ایک امر واقعہ کا اظہار کیا گیا۔ ایسی حقیقت جس سے انکار نہیںکیا جا سکتا۔یہ رائے قائم کرنے کے کئی شواہد، دلائل اور ان سائیڈ خبروں کی بنیاد پر قائم کردہ اطلاعات موجود ہیں۔ بعض دوست شکوہ کرتے ہیں کہ افغان طالبان افغانستان میںحملے کر رہے ہیں، اسے کیوں نظرانداز کیا گیا؟ بھائی بات یہ ہے کہ جب ہم ریاست پاکستان کی بات کر رہے ہوتے ہیں تو پھر ان گروپوں کا ذکر ہی آئے گا جو پاکستانی حکومت اور ریاست کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ ان گروپوں کو اس صف میں شامل کیسے کیا جائے ،جو پاکستان کے خلاف نہیں بلکہ وقت پڑنے پر اس کا ساتھ بھی دیتے ہیں۔ ہاں افغانستان کی جب الگ سے بات ہو ، اس پر ہم اپنی رائے دے سکتے ہیں۔ یہ دیتے ہوئے مگر یاد رکھا جائے کہ افغانستان اور پاکستان کا کیس ایک سا نہیں۔ پاکستان میں پچھلے سات سال سے تومنتخب جمہوری حکومتیں ہیں،اس سے پہلے بھی ایسا نہیں تھا کہ پاکستان پر کوئی غیرملکی قوت حکمران تھی۔ افغانستان کا کیس یکسر مختلف ہے۔ نائن الیون کے بعد سے وہاںپر غیرملکی افواج قابض ہیں، انہوں نے افغان طالبان حکومت کا خاتمہ کیا، کٹھ پتلی کرزئی حکومت کو مسلط کیا اور پشتونوںکو بالکل نظرانداز کر کے افغانستان کے پورے سماجی منظرنامے کو مصنوعی طریقے سے بدلنے کی کوشش کی، دس لاکھ سے زیادہ افغان مارے گئے ۔ افغانستان میں طالبان کی جدوجہد کا واضح اخلاقی جواز ہے، قابض افواج کے خلاف دنیا
میں ہر جگہ لڑائی اور مزاحمت ہوتی ہے ۔ ہاں جہاں پرکوئی گروپ فرقہ ورانہ یا نسلی بنیادوںپر نہتے عام لوگوںکو نشانہ بنائے ، وہ غلط ہے۔ بازاروں میں بم دھماکے بھی درست نہیں۔
بیانیہ اور جوابی بیانیہ والی بحث میںبھی ہمیں لیبل لگانے سے گریز کرنا چاہیے۔روایتی مذہبی حلقے اپنا نقطہ نظر بیان کر رہے ہیں، یہ ان کا حق ہے، جاوید احمد غامدی صاحب اور ان کے تلامذہ اپنے نظام فکر اور سوچ کے مطابق کہہ اور لکھ رہے ہیں، ان پر کوئی ٹیگ چسپاں نہیں کرنا چاہیے۔اسی طرح جب ہم لبرل شدت پسندی کی بات کرتے ہیں تو دراصل اس خاص عنصر کی نشاندہی کی جارہی ہوتی ہے ،جو اپنے رویوں میں توازن کھو بیٹھے ہیں اور بلاجواز طور پر مذہبی حلقوں کے خلاف محاذ کھولتے اور عامیانہ الزامات لگاتے ہیں۔ورنہ لبرل ازم اور سیکولر ازم کی ایک خاص فکری اہمیت اور پوزیشن ہے، جو لوگ فکری طور پر ایسے سکول آف تھاٹ کا حصہ ہیں اور علمی شائستگی سے مکالمہ پر یقین رکھتے ہیں، انہیں کسی طور شدت پسند نہیں کہا جا سکتا۔ مذہبی شدت پسندی کی بھی مختلف سطحیں ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے میں نے اس پر تفصیل سے بات کی تھی۔ یہ ممکن ہے کوئی سخت گیر مذہبی فکر کا حامل ہو، مگر وہ شدت پسند نہ ہو۔عسکریت پسندی، مسلح تنظیموں کا وہ مخالف ہو۔ ایسے لوگوں کو سماج کا حصہ رہنے دینا چاہیے۔ میں تو اس خیال کا بھی حامی ہوں کہ سخت گیر فکر کے جو لوگ سیاست میں حصہ لینا چاہتے ہیں، الیکشن لڑنااور مرکزی دھارے کا حصہ بننا چاہتے ہیں، ان کے لئے راہیں کھولنی چاہئیں، کسی کو کارنر کرنے سے انتہا پسندی بڑھتی ہے۔ہمیں اپنے رویوں اور آرا دونوں میں شدت ختم کرنی ہوگی۔ یہ جاننا ہوگا کہ زندگی صرف بلیک اینڈ وائیٹ کا نام نہیں، گرے شیڈزنہ صرف موجود ہوتے ہیں، بلکہ ان کے بغیر زندگی کو مکمل طور پر بیان ہی نہیں کیا جا سکتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں