صرف چند لمحے

فرض کریں کہ آپ بلوچستان کے دورافتادہ علاقے گوگدان ، تربت میں موجود ہیں۔وہاں تعمیر ہونے والے ایک پروجیکٹ میں مزدوروں کی ضرورت ہے۔کسی عزیز نے بتایا تو وہاں جانے، کام کرنے کی ہامی بھر لی۔ روزگار کے مسائل، اپنے گھر والوں کے پیٹ پالنے کی مجبوری آپ کو اپنے گھرسے ہزاروں میل دور لے گئی، جہاں سفر گھنٹوں کا نہیں بلکہ دنوں کا ہے۔پچھلے کچھ عرصے سے اسی پروجیکٹ پر کام جاری ہے۔دوردراز کا مقام، اجاڑ جگہ، جاننے والے بھی زیادہ نہیں، دن بھر محنت مشقت، رات کوجو دال ساگ میسر ہوا، کھا کرسوجانا بلکہ چُور چُور بدن کے ساتھ ڈھیر ہوجانا کہ صبح جلدی اٹھ کر محنت مشقت والے ایک نئے دن کا آغاز کرنا پڑے گا۔
فرض کریں کہ آپ کا تعلق صادق آباد کی بستی اسماعیل خان سولنگی ، شاہ پور یا چک 212پی سے ہے۔ آپ سرائیکی ہیں اور صدیوں سے آپ کا خاندان اسی علاقہ میں مقیم ہے۔وہ سرائیکی جن کی مائیںاپنی لوریوں میں بھی پردیس نہ جانے کی دعا دیتی ہیں،... شالا رب پر دیس نہ گھن ونجے، گھر وچ ادھی روٹی پوری تھی ونجے(اللہ تمہیں پردیس نہ لے جائے، (وہاں کی دو روٹیوں سے)گھر کی آدھی روٹی ہی کافی ہوجائے)۔توکل، قناعت اور صبر جن کی رگ رگ میں رچا بسا ہے۔ نجانے وہ کون سی مجبوری تھی، جو گھر بار چھوڑ کر ہزاروں میل دور کھینچ لے گئی۔بھوک سے بلکتے بچوں کی صورت، بن بیاہی بہنوں کی آنکھوں میںسجے سپنے، ماں باپ کی مشکلات... کسی کی شدید بیماری، کوئی بڑا بحران ...جانے کیا وجہ تھی، جوآپ کو صادق آباد کی نواحی بستی سے کھینچ کر تربت کی لہورنگ زمین تک لے گئی۔
فرض کریں کہ آپ بھی انہی سوختہ بخت، ناپُرسان حال لوگوں میں سے ہیں، دو وقت کی روٹی کمانے ، اپنے اہل خانہ کے زندہ رہنے کا سامان کرنے کی غرض جن کو محنت مزدوری کرنے تربت کے اس علاقے گوگدان لے آئی، جہاں سہراب ندی کا پل پچھلے سال سیلابی ریلے میں بہہ گیا اور اب اسی پل کی تعمیر جاری ہے۔
اپنے آرام دہ کمرے میں بیٹھے، ناشتے کی میز پر اخبار پڑھتے یاچائے کی چسکیاں لیتے ہوئے کمپیوٹر پر کالم پڑھتے ... یہ سب فرض کرنا دشوار سہی، مگر ناممکن نہیں۔ فرض کریں کہ آپ گوگدان ، تربت کے مزدوروں کے اس کیمپ میں موجود ہیں، جہاں جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب بے رحم، سفاک ، درندے حملہ آور ہوئے تھے۔ تھک ہار کر سوئے مزدورمچھروں سے بچنے کے لئے چادریں اوپر ڈالے گٹھڑی بنے پڑے تھے کہ آدھی رات کے بعد اچانک پورا علاقہ موٹرسائیکلوں کے شور اور پھر فائرنگ سے گونج اٹھا۔ ہڑبڑا کر اٹھے مزدور آنکھیں ملتے صورتحال سمجھنے کی کوشش کرنے لگے۔ معلوم ہوا کہ ڈیڑھ دو درجن نامعلوم مسلح افراد نے انہیں گھیرے میں لے لیا ہے اور تیزی سے ہر ایک کو لائن بنا کر کھڑا کر رہے ہیں، تھوڑی سی مزاحمت پر وہ گولی داغ دیتے ہیں۔ حواس باختہ مزدور اپنے محافظ لیویز کے اہلکاروں کو ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ پہلے ہی بھاگ چکے ہیں۔ اب نہتے مزدور حملہ آوروں کے رحم وکرم پر تھے۔ چہرے پر نقاب چڑھائے حملہ آوروں کی آنکھوں سے خون ٹپک رہا تھا، کرخت لہجے میں وہ ہر ایک سے سوال پوچھتے، اس کا نام ، علاقہ دریافت کرتے اور بلوچستان سے باہر والوں کو الگ کرتے جاتے۔چار مزدور حیدرآباد، سندھ جبکہ بیس کے قریب صادق آباد، ضلع رحیم یار خان سے تھے۔
فرض کریں کہ اس خونیں شب، اس جاں گسل لمحے، ،گوگدان تربت کے اس کیمپ میں، نیند سے اٹھائے، حواس باختہ مزدوروں میں آپ بھی شامل ہیں ... وہ بدنصیب ... جن کے بال بکھرے،چہرے فق، زبان خشک اور آنکھوں میںرحم کی التجاہے... حملہ آور درندوں کے ہاتھوں میں پکڑی گنوں کی نالیوں سے جنہیں خوف آ رہا ہے۔ اس لمحے اپنے پیاروں کی تصویریں ، ان کی آوازیںبرق کے کوندے کی طرح ان کے ذہن میں لپک رہی ہیں، ماں کاہمدرد لہجہ، بیوی کا پرنم محبت بھرا شکوہ ، بچوں کی معصوم ہنسی... تیزی سے گزرتے لمحوں میںوہ یہ سوچ رہے ہیں کہ انہیں آخر کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے؟انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ یہ لوگ اتنے ناراض، اس قدر غصے میں کیوں ہیں؟ انہیں بلوچ قوم پرستی کی تاریخ کا کچھ علم نہیں ؟ انہوں نے کبھی اللہ نذرکو دیکھا ہے نہ ہی وہ بی ایل ایف کو جانتے ہیں۔ انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ شدت پسند بلوچوں کے حکومت یا پاکستانی ریاست کے ساتھ کیا مسائل ہیں ؟انہیں اسٹیبلشمنٹ کے ہجے تک نہیں آتے۔ 
فرض کریں کہ اس شب ، تربت کے اس کیمپ میں اپنی موت کا انتظار کرتے، ان گنوں کی نالیوں کو مایوسی سے تکتے، جنہوں نے چند لمحے بعد گولیاں اگل دینی ہیں...اپنے قاتلوں کو رحم بھری نظروں سے دیکھتے مزدوروں میں آپ بھی ہیں۔مگر ٹھہرئیے ، اللہ نہ کرے کہ آپ پر وہ سب کچھ گزرے جو ان مزدوروں کے ساتھ ہوا۔ اللہ نہتے لوگوں کو نشانہ بنانے والے درندوں کو آپ سے دور رکھے۔ اللہ نہ کرے کہ آپ پر، ہم سب پر یہ گزرے۔ ویسے بھی گولیوں کی بوچھاڑ سہتے، چھلنی چھلنی بدن لئے، اپنے خون کے تالاب میں ڈوبے مزدوروں میں شامل ہونے کا تصور آسان نہیں۔ہم اور آپ تو یہ خبر سن کر ، اخبار میں پڑھ کر چند لمحوں کے لئے رک کر، تاسف سے سر جھٹک کر ... اگلی کسی خبر کی طرف بڑھ جانے والے ہیں۔ یہ سوچتے ہوئے کہ یار کیسا ظلم ہو رہا ہے دنیا میں۔ بس یہ چند لمحے ہی اپنے گھر سے ہزاروں میل دور نفرت اور پاگل پن کی آگ کا نشانہ بننے والے معصوم محنت کشوں اور مزدوروں کے حصے میں آئیں گے۔ 
ہو سکے تو چند لمحے ٹھہرکر، گرما گرم سیاسی لڑائیوں، بحثوں اورعامیانہ فقرے بازی سے مزین ٹاک شوزسے... صرف چند لمحوں کے لئے توجہ ہٹا کریہ سوچیں کہ ان مظلوموں کو کس جرم کی سزا ملی؟صرف چند لمحوں کے لئے رک کر یہ سوچیں کہ کیا تربت کی یہ دہشت گردی یہ تقاضا نہیں کرتی کہ بی ایل ایف، اس کے قائد ڈاکٹر اللہ نذر اور دوسرے بلوچ دہشت گرد گروپوں کے خلاف بھی ویسی ہی یکسوئی اورقوت کے ساتھ آپریشن کرنا چاہیے، جیسی یکسوئی کے ساتھ پشاور سکول حملے کے بعد پاکستانی طالبان کے خلاف جاری ہے ۔کیا وقت آ نہیں گیا کہ ٹی ٹی پی کے ارکان کی طرح بلوچستان میں دہشت گردی کرنے والوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلائے ، ان کا نیٹ ورک توڑا اور قوت تباہ کی جائے۔ ہمارے جو لکھنے والے اور اینکر ان دہشت گرد بلوچ گروپوں اور ان کے کمانڈروں کو گلوری فائی کرتے اور انہیں قوم پرست کہہ کر سیاسی رعایت دلواتے ہیں،ا ن کا بھی محاسبہ کرنا چاہیے۔وقت ملے تو چند لمحوں کے لئے یہ بھی سوچ لیں کہ وہ ماما قدیر جو شدت پسند بلوچوں کے لئے لانگ مارچ کر رہا تھا، جسے ہمارے بعض صحافی نیلسن منڈیلا بنانے پر تلے ہوئے ہیں، اسے یا اس کے ساتھیوں میں سے کس نے اس قتل عام کے خلاف احتجاجی جلوس یا ریلی نکالی یا لانگ مارچ کیا؟ کیا صرف بلوچ شدت پسند جنگجوئوں کا خون ہی مقدس ہوتا ہے؟ سرائیکی، پنجابی، سندھی یا اردو بولنے والے انسان نہیں ہوتے؟ ان کی لاشیں مسخ نہیں ہوتیں یا ان کا قتل خدانخواستہ مباح ہوچکا؟ کیا ہر ظلم ظلم نہیں ہوتا، ہر قتل قتل نہیں ہوتا؟ اخلاقیات کا تقاضا یہ نہیں بنتا کہ اپنے بھائی بیٹوں کے لئے ہزاروں میل کا لانگ مارچ کیا گیا توبلوچستان کی دھرتی میں مزدوری کے لئے آئے یہ محنت کش ،جو مہمان کا درجہ رکھتے ہیں، ان کے قتل عام پر دس کلو میٹر کا لانگ مارچ ہی کر لیا جائے؟
پس تحریر: متحدہ عرب امارات کی جانب سے آنے والا ردعمل آنے والے دنوں کی خبر دے رہا ہے۔ ہمارے عرب دوست‘ جو ماضی کے ہر مشکل وقت میں ہمارے ساتھ کھڑے رہے‘ آج ہم سے ویسے ہی رویے کے متقاضی ہیں۔ وہ ہمارے حوالے سے غیر جانبدار نہیں رہے، آج وہ ہمیں غیر جانبدار رہنے پر طعنہ تو دے سکتے ہیں۔ہمارے فیصلہ سازوں کو سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا چاہیے، کوئی بھی حتمی فیصلہ کرتے ہوئے سعودی عرب اور عرب ممالک میں مقیم پچیس تیس لاکھ پاکستانیوں کے بارے میں ضرور سوچ لیجئے ، جن کا بھیجا زرمبادلہ اگر رک گیا تو ہماری معیشت تباہ ہوجائے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں