سیکھنے کی باتیں

کراچی کے ضمنی انتخاب کا یہی نتیجہ خاصی حد تک یقینی تھا۔ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے پُرجوش اور جذباتی کارکنوں کو بھی معلوم تھا کہ یہ نشست تو متحدہ قومی موومنٹ جیت رہی ہے، انہیں البتہ یہ امید تھی کہ وہ اتنے ووٹ لینے میں کامیاب ہو جائیں گے، جس کی بنیاد پر وہ اپنی کارکردگی کو تسلی بخش قرار دے سکیں۔ اس لحاظ سے دونوں کو ناکامی ہوئی ہے۔ جماعت اسلامی کی شکست زیادہ بری رہی کہ ان کے رہنمائوں اور کارکنوں نے شورشرابا بہت مچا رکھا تھا، جس سے یہ اندازہ ہونے لگا کہ شاید وہ دوسرے نمبر پر آجائیں گے۔ انتخابی نتیجے سے جماعت کو شدید ہزیمت اٹھانا پڑی، شکست مگر تحریک انصاف کو بھی ہوئی ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ اس انتخاب میں فاتح ٹھہری ہے۔ اس کے لئے زیادہ اچھا وقت نہیں تھا۔ کئی اطراف سے ان کے گرد گھیرا تنگ ہو رہا تھا۔ یوں لگا کہ شاید متحدہ بتدریج تحلیل ہو جائے۔ اس انتخاب میں متحدہ نے شاندار کارکردگی دکھا کر یہ سب اندازے غلط ثابت کر دیے۔ متحدہ کے لئے چیلنج یہ تھا کہ وہ جیتنے کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر ووٹ بھی لے۔ انہوں نے ایسا کر دکھایا۔ پچانوے ہزار ووٹ لینا کسی کارنامے سے کم نہیں۔ متحدہ اس پر تین دن کے بجائے ہفتے بھر کا جشن منائے تو اس کا جواز بنتا ہے۔ متحدہ کی قیادت کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ اگر وہ اتنے ووٹ لے سکتی ہے تو پھر پولنگ سٹیشنوں کو ہائی جیک کرنے اور ٹھپہ مافیا کا الزام لگوانے کی کیا ضرورت ہے؟ سبق یہی ہے کہ معروف جمہوری اصولوں کی بنا پر الیکشن لڑنا چاہیے، خواہ دو چار نشستیں ہاتھ سے نکل بھی جائیں، کم از کم ووٹ بینک کی کریڈیبلٹی بھی ہو گی اور ان کے مینڈیٹ کی جانب کوئی انگلی بھی نہیں اٹھائے گا۔ اس بار البتہ یہ محسوس ہوا کہ متحدہ خاصے عرصے کے بعد مہاجر عصبیت کی طرف واپس لوٹ گئی ہے۔ انتخابی تقریروں میں مہاجر کی بنیاد پر ووٹ بینک کو متحرک کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس حلقے میں تو انہیں اس کا فائدہ ہوا، مگر کراچی کے چند حلقے ایسے ہیں، جہاں یہ حکمت عملی بیک فائر کر سکتی ہے۔
پنجاب اور خیبر پی کے میں بہت سے لوگوں کو متحدہ کے اتنے زیادہ ووٹ لینے پر حیرت ہوئی ہے۔ یہ ہماری سیاست کے چند مقبول عام مغالطوں میں سے ایک ہے۔ متحدہ کی مخالف سیاسی جماعتوں سے متعلق سیاسی کارکن اور لکھنے والے ہمیشہ یہی تاثر دیتے رہے کہ متحدہ صرف اور صرف اسٹیبلشمنٹ کی حمایت پر قائم ہے، یہ سرپرستی ہٹ جائے تو یہ جماعت چند دن بھی نہیں نکال پائے گی۔ یہ مکمل سچ نہیں۔ دراصل کراچی کی سیاست کے اپنے ڈائنامکس ہیں۔ بعض مسائل پورے پاکستان سے مختلف ہیں۔ مہاجر قومیت کے سیاسی نعرے اور جدوجہد کے پیچھے مقتدر قوتیں بھی کارفرما رہی ہوں گی، مگر شکایات اور محرومی بڑا سبب رہی۔ ایسا نہیں کہ مہاجر محرومی کا نعرہ یکسر بے وزن اور خیالی ہے۔ کوٹہ سسٹم کا نشانہ جس طرح کراچی اور شہری سندھ والے بنے ہیں، اس کا اندازہ باقی پاکستان والے نہیں کر سکتے۔ اسی طرح وہاں بجلی، پانی کے مسائل گمبھیر ہیں۔ کراچی کی ایک بدقسمتی یہ بھی رہی کہ تاریخی طور پر ہمیشہ وزیر اعلیٰ اندرون سندھ سے بنے، جنہوں نے کبھی کراچی کو اون کیا‘ نہ ہی کراچی والوں کو سینس آف اونر شپ دی۔ ایسا دوسرے صوبوں میں نہیں ہوتا۔ پنجاب کا وزیر اعلیٰ لاہور سے ہو، تب بھی وہ لاہور کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ کراچی کے لوگوں کو اپنے مسائل حل کرانے، اپنے شہر میں بڑے پیمانے پر ترقیاتی کام کرانے کے لئے مقامی سطح پر مضبوط سیاسی گروپ یا جماعت کی ضرورت پڑتی ہے۔ کراچی میں اثر و رسوخ رکھنے والی دوسری جماعتوں کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ بیشتر اپوزیشن کی سیاست کرتی رہیں اور حکومت میں نہیں آ سکیں۔ ایم کیو ایم نے اس خلا کو پُر کیا، بعض مسائل حل کئے، اگرچہ ان کی وجہ سے کچھ اور قسم کے مسائل پیدا ہو گئے۔ مہاجر شناخت کا مسئلہ بھی کچھ کم اہم نہیں۔ برسوں پہلے کراچی کے ایک باخبر صحافی سے پوچھا کہ کراچی کے لوگ اتنے الزامات کے باوجود ایم کیو ایم کا ساتھ کیوں دیتے ہیں؟ برجستہ جواب ملا: ''کراچی اور شہری سندھ کا مہاجر کسی دوسری جماعت میں دوسرے درجے کا کارکن بننے کے بجائے ایم کیو ایم کی حمایت پر مجبور ہے کہ یہاں پر وہ بطور مہاجر پہلے درجے کا ووٹر اور کارکن ہے‘‘۔ اس ضمنی انتخاب نے ایک بار پھر یہ بات ثابت کر دی۔
تحریک انصاف نے اگرچہ تناسب کے اعتبار سے مئی کے انتخابات جتنے ووٹ لے لئے ہیں، اُس وقت کاسٹ ووٹ کا سترہ فیصد ملا، اِس بار اٹھارہ فیصد کے قریب ہے۔ اس کے باوجود یہ تحریک انصاف کی واضح شکست ہے۔ پہلی غلطی یہ ہوئی کہ متحدہ کے گڑھ والے حلقے میں اتنے زیادہ دھوم دھڑکے سے مہم چلانے کی ضرورت ہی نہیں تھی، انہوں نے غیر ضروری میڈیا ہائپ پیدا کی، حالانکہ یہاں ان کے جیتنے کے پانچ فیصد امکانات بھی نہیں تھے۔ کراچی میں نصف درجن سے زیادہ حلقے ایسے ہیں، جہاں تحریک انصاف پچاس ساٹھ ہزار ووٹ لے چکی ہے، ایسے کسی حلقے پر ضمنی انتخاب ہوتا تو تحریک انصاف کا زور لگانا بنتا تھا کہ وہاں نشست جیتی جا سکتی تھی۔ تحریک انصاف نے صرف یہ سیٹ نہیں ہاری بلکہ انہوں نے کراچی میں متحدہ کے مکمل مینڈیٹ کو اعتبار بخش دیا ہے۔ یہ وہ تباہ کن غلطی ہے، جو صرف عمران خان ہی کر سکتے تھے۔ اب متحدہ اپنی ہر نشست کے بارے میں اعتماد سے کہہ سکتی ہے کہ اسے حقیقی مینڈیٹ ملا تھا۔ تحریک انصاف کی تنظیمی کمزوریاں ایک بار پھر کھل کر سامنے آ گئیں۔ انہیں اپنی حکمت عملی پر غور کرنا ہو گا۔ کراچی کی اپنی سیاست، نعرے اور ایجنڈا ہے۔ تحریک انصاف نے یہاں جگہ بنانی ہے تو مختلف نعرے اور ایجنڈے کے ساتھ آنا ہوگا۔
جماعت اسلامی کی صفوں میں مایوسی تو پھیلی ہے، مگر اس کا کارکن میچور اور کمٹٹد ہے، پھر ان کے پاس ''اخلاقی فتح‘‘ والا لولی پاپ موجود ہے، جس سے ہمیشہ کی طرح جی بہلایا جا سکتا ہے۔ جماعت کے بعض نوجوان ساتھی فیس بک پر کراچی کے عوام کو شکوہ دیتے پائے گئے، وہ اس پر برہم ہیں کہ یہ لوگ مدد کے لئے الخدمت کی طرف دیکھتے ہیں، مگر ووٹ عصبیت کی بنا پر دیتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ جماعت والوں کو اپنی شکست دل سے تسلیم کرنی چاہیے۔ اس حلقے میں جماعت اسلامی کے حساب سے تاریخ کی سب سے بھرپور مہم چلائی گئی۔ عام انتخابات میں کہاں یہ ممکن ہے کہ امیر جماعت ایک حلقے میں کئی کئی جلسے، ریلیوں اور کارنر میٹنگز تک میں حصہ لے؟ یہ سب کچھ بدترین شکست سے نہ بچا پائے۔ ان کے مقابلے میں تحریک انصاف کی سبقت بھی واضح ہو گئی۔ جماعت کو سوچنا ہوگا کہ آخر ووٹر ان کی طرف کیوں نہیں آ رہا؟ دلبرداشتہ ہونے کے بجائے ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کریں اور کوئی آئوٹ آف باکس حل سوچیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں