پہلا قطرہ؟

آج کل ڈرامائی سیاسی پیش رفت کے دن ہیں۔ ہرروز ایک نیا دھماکہ سیاسی منظرنامے پر ارتعاش پیدا کر دیتا ہے۔ یہ سیاسی دھماکے سندھ سے شروع ہوئے، کراچی ان کی پہلی فالٹ لائن تھی ، جہاں یکے بعد دیگرے مختلف واقعات متحدہ قومی موومنٹ کو بیک فٹ پر لے جا چکے۔ضمنی الیکشن جیت کر انہوں نے جو حاصل کیا تھا، ایک غیر ذمہ دارانہ تقریر نے وہ سب گنوا دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی شعلہ فشانیوں کا سلسلہ شروع ہوا تو کراچی سے بدین تک کا علاقہ نظر نہ آنے والے دھماکوں سے گونج اٹھا۔ پہلے اس تنازع میں سندھ پیپلزپارٹی، پھر پیپلزپارٹی شعبہ خواتین اورآخر میں سندھ حکومت اور انتظامیہ شامل ہوگئیں۔جوابی حملہ سابق سپیکر فہمیدہ مرزا کی جانب سے کیا گیا، جو عام طور پر دھیما لہجہ اپناتی اور معاملات بگاڑنے سے گریز کرتی ہیں۔ اس فیصلہ کن مرحلے پر البتہ وہ اپنے خاوند کے ساتھ پوری کمٹمنٹ سے کھڑی ہیں۔پیپلزپارٹی کو چاہیے کہ اپنی داخلی لڑائی میڈیا میں لڑنے سے گریز کرے کہ نقصان ہر دو صورتوں میں اسی کاہے۔ ہم لوگ پنجاب میں پیپلزپارٹی کی تباہی اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں، اب سندھ میں اسے بکھرتا دیکھنا قطعی طور پر دل خوش کن منظر نہیں۔ قومی جماعتوں کو اپنا وجود برقرار رکھناچاہیے۔ خود اپنے آپ کو تباہ کرنے کے درپے پارٹی کی مگر کون مدد کر سکتا ہے؟
ادھر مسلم لیگ ن یکا یک شدید دبائو میں آ گئی ہے۔ چینی صدر کے دورے اور غیرمعمولی ترقیاتی پیکیج کے اعلان کے بعد یوں لگ رہا تھا ،جیسے میاںبرادران پر سے دبائو ہٹ گیا ہے اور اگلے دو تین برسوں تک انہیں کوئی نہیں ہلا سکتا لیکن پچھلے چند دنوں میں جو واقعات ہوئے ، اس نے سب کچھ ہلا کر رکھ دیا ۔ اس وقت ن لیگ دھرنے سے ٹھیک پہلے والی غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہوچکی ہے۔پہلے خواجہ سعد رفیق کے حلقے سے ٹربیونل کا ایسا فیصلہ آیا،جس نے وزیراعظم کوا پنے ایک پُرجوش ساتھی سے محروم کر دیا۔پھر جوڈیشل کمیشن کی روزانہ کی کارروائی میںبعض ایسے شواہد سامنے آئے جنہوں نے سنسنی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ کئی سوالیہ نشان بھی پیدا کر دئیے ہیں۔جوڈیشل کمیشن کی جانب سے میڈیا کو کوریج کی اجازت دینے کاا قدام مثبت رہا۔میڈیا اگرآزادی کے ساتھ کوریج کرتا رہے تو معاملات شفاف رہتے ہیں اورلوگوں کا کمیشن پر اعتماد برقرار رہتا ہے۔
خواجہ سعد رفیق کو نااہل قرار دینے کا فیصلہ کئی حوالوں سے اہم ہے۔ لاہور کے اس حلقے میں تحریک انصاف بڑی مضبوط پوزیشن میں تھی اور وہاں سے ان کے امیدوار کی شکست کا سن کر ہر ایک کو حیرت ہوئی۔ اس حلقے کے نتیجے میں خاصی پراسراریت رہی۔ لاہور کے دیہی حلقوں کے نتیجے رات دس گیارہ بجے تک آ گئے تھے۔ خواجہ سعد رفیق والے حلقے کا نتیجہ اگلے دن دس بجے آیا۔تاخیر کے حوالے سے افواہیں گردش کرتی رہیں۔ پہلے کہا گیا کہ پریزائیڈنگ افسربیلٹ پیپر لے کر گھر چلا گیا اور وہاں لمبی تان کر سو گیا،جسے اٹھاکر واپس لایا گیا۔ یہ نہ ماننے والی بات تھی، عقل کیسے یہ بات مان سکتی ہے کہ کوئی پریزائیڈنگ افسر ووٹوں کا بوجھ سر سے اتارنے کے بجائے گھر چلا جائے؟ پھر رات گئے خواجہ سعد رفیق ٹی وی پر نمودار ہوئے اور انہوں نے فرمایا کہ چونکہ کمپیوٹر خراب ہوگئے تھے، اس لئے رزلٹ مینوئلی بنانا پڑا، دیر اسی وجہ سے ہوئی۔ ظاہر ہے یہ دلیل بھی کمزور اور ضرورت سے زیادہ ''معصومانہ‘‘ تھی۔ اسی وجہ سے تحریک انصاف نے اس نتیجے پر خاصا شور مچایااور ٹربیونل میں ڈٹ کر پیروی کی۔
تحریک انصاف نے مئی 13ء کے انتخابات پر عمومی اعتراضات کئے ،مگر چند حلقوں میں ان کے تحفظات شدید تھے۔ لاہو رمیں خواجہ سعد رفیق اورسپیکر ایاز صادق والے حلقے بھی ان میں شامل ہیں۔ تحریک انصاف کا زور اسی پر تھا کہ انتخابات میں عمومی طورپر بے ضابطگیاں ہوئیں اور ریٹرننگ افسروں و پریزائیڈنگ افسروں کے ذریعے الیکشن نتائج بدلے گئے۔ پیپلزپارٹی کا بھی یہی اعتراض رہا۔ زرداری صاحب کا یہ جملہ تو اب ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر چکا ہے کہ یہ الیکشن آر اوز(ریٹرننگ آفیسرز)کا الیکشن تھا۔ الیکشن ٹربیونل نے خواجہ سعد رفیق کے حلقے کا جوفیصلہ سنایا، اگرچہ اس میں خواجہ صاحب کو دھاندلی کے الزام سے بری کر دیا،مگر پریزائیڈنگ افسروں اور ریٹرننگ افسر کی جانب سے کی جانے والی سنگین بے ضابطگیوں اور خوفناک غلطیوں کی جو نشاندہی کی ہے، اس نے تحریک انصاف کے دعوے کو تقویت پہنچائی ہے۔
ن لیگیوں کو یہ بات ناگوار گزرے گی، مگر یہ حقیقت ہے کہ عمران خان نے جو دو باتیں کی تھیں، وہ بڑی حد تک درست ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ تحریک انصاف کے قائد کا الزام تھا کہ الیکشن میں الیکشن عملے نے سنگین بے ضابطگیاں کیںاور یوں انتخاب شفاف نہیں ہوا۔ان کا دوسرا دعویٰ تھا کہ ثبوت ووٹوں کے تھیلوں میں موجود ہیں، تھیلے کھولے جائیں تو ثبوت مل جائیں گے۔ عملی طور پر ایسا ہی ہو رہا ہے۔ جس بھی حلقے کے ووٹوں کے تھیلے کھولے جا رہے ہیں، وہاں سے بھیانک قسم کے بلنڈرز کا انکشاف ہو رہا ہے۔ شروع میں سندھ کے حلقے کھولے گئے تو معلوم ہوا کہ نادرا کی جانب سے فراہم کی گئی مقناطیسی سیاہی کے باوجود ہزاروں ووٹ شناخت نہیں ہو رہے۔ بعد میں انکشاف ہوا کہ بہت سی جگہوں پر وہ مقناطیسی سیاہی استعمال ہی نہیں کی گئی ۔ آخر کیوں؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ۔ یہ بھی کہا گیا کہ وہ مقناطیسی سیاہی غیر موثر تھی۔ کروڑوں ، اربوں روپے کے خرچ سے بنائی جانے والی یہ خاص سیاہی کس طرح خراب ہوئی یا کی گئی...اس بارے کوئی بتانے کو تیار نہیں۔
جوڈیشل کمیشن کے سامنے اس وقت کے ایڈیشنل چیف سیکرٹری پنجاب اعتراف کر چکے ہیں کہ اس الیکشن میں ہنگامی طور پر مزید بیلٹ پیپر چھاپنے کے لئے اردو بازار سے آدمی منگواکر الیکشن کمیشن کو دئیے تھے۔ اس کی کیا وجہ تھی، حالانکہ پرنٹنگ کارپوریشن آف پاکستان کا تجربہ کار سرکاری عملہ موجود ہوتا ہے۔ اس وقت کے صوبائی الیکشن کمشنر نے یہ انکشاف کیا کہ بعض ریٹرننگ افسروں کی درخواست پر ایسا کیا گیا۔یاد رہے کہ روایتی طور پر کسی بھی حلقے میں جتنے بھی رجسٹرڈ ووٹر ہیں، اتنے بیلٹ پیپر ہر حلقے میں فراہم کئے جاتے ہیں۔ پانچ فیصد تک اضافی بیلٹ پیپر ہر بار چھپتے ہیں تاکہ کسی ایمرجنسی کی صورت میں پریشانی نہ ہو۔ یہ بھی یاد رہے کہ پاکستان کی تاریخ میں کبھی ٹرن آئوٹ ساٹھ فیصد سے زیادہ نہیں رہا، یعنی عملی طور پر یہ ممکن نہیں کہ کسی بھی حلقے کے رجسٹرڈ ووٹر تمام بیلٹ پیپر استعمال کر لیں، چالیس پچاس فیصد بیلٹ پیپر بچ جاتے ہیں۔ اس کے باوجود اتنی ایمرجنسی کیوں پیدا ہوئی کہ بازار سے لوگ منگوانے پڑے اور قانون کے مطابق دو دن پہلے بیلٹ پیپر بھجوانے کے بجائے بعض جگہوں پر پولنگ سے چند منٹ پہلے بیلٹ پیپر پہنچائے گئے؟
خواجہ سعد رفیق زور دے کر یہ کہہ رہے ہیں کہ پریزائیڈنگ افسروں اور ریٹرننگ افسروں کی غفلت کی سزا مجھے کیوں دی گئی؟ بات ان کی دلچسپ ہے مگر یہ معاملہ اتنا سادہ ہے نہیں۔ سوال یہی ہے کہ آخر ان پریزائیڈنگ افسروں اور ریٹرننگ افسر نے یہ بے ضابطگیاں کیوں کیں؟ یہ سب سرکاری ملازم ہیں، جو فطری طور پر انتہائی محتاط اور کسی ٹھوس وجہ کے بغیر رسک لینے سے گریز کرتے ہیں۔ کیا وجہ تھی، جس نے ان سب لوگوںکو اتنے بڑے بلنڈرز کرنے پر مجبور کر دیا؟ جوڈیشل کمیشن ان تمام سوالات پر یقیناً غور کرے گا۔ لگتا ہے کہ اگلے چند دنوں کی کارروائی مزید دلچسپ باتیں منظر عام پر لے آئے گی۔ الیکشن ٹربیونلزسے بعض اہم فیصلے بھی آنے ہیں۔ دیکھنا صرف یہ ہے کہ حلقہ این اے125 کا فیصلہ بارش کا پہلا قطرہ تو ثابت نہیں ہوگا...؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں