بڑے فیصلوں کا وقت آ گیا!

ہمارے ہاں ایک بات بڑے تواتر سے دہرائی جاتی ہے کہ دیکھیں پاکستانی قوم کیسی زبردست ہے، زلزلے کے موقع پر لوگ کس طرح دیوانہ وار دوسروں کی مدد کے لئے باہر نکلے، سیلاب آنے پر بھی ایسا ہی ہوا، دوسری آفات میں بھی کیسا شاندار قومی ردعمل آیا۔ ہمارے تھنکرز فورم سی این اے کی ہفتہ وار نشستوں میں یہ بات کئی بار دہرائی گئی۔ جب بھی گفتگو پر مایوسی اور قنوطیت کے سائے لہرانے لگتے، کہیں کسی کونے سے ایک پُرامید لیکچر آتا، جس کا مرکزی نکتہ پاکستانی قوم کی عظمت کا یہی گیت ہوتا۔ اس پر ایک بار جھنجھلا کر پروفیسر ہمایوں احسان نے کہا کہ آپ لوگ پہلے یہ طے کر لیں کہ داد دے رہے ہیں یا بے داد۔ سفید بالوں والے پروفیسر کا کہنا تھا کہ اگر ہماری قوم اس قدر سخت ہو چکی ہے کہ اسے نرم کرنے، بیدار کرنے کے لئے زلزلے یا سیلاب جیسی بڑی آفت کی ضرورت پڑتی ہے تو یہ تشویش کی بات ہے، خوشی کی نہیں، کیونکہ قوموں کی تاریخ میں ایسے بڑے واقعات تو کم ہی آتے ہیں، زندہ اور سربلند قومیں معمول کے حالات میں بھی اتنا ہی اچھا پرفارم کرتی ہیں، جتنا مشکل اور غیرمعمولی حالات میں انہیں کرنا چاہیے۔
بات ہے تو تلخ مگر بڑی حد تک درست کہ ہمیں خواب غفلت سے جگانے کے لئے کسی بڑے واقعے یا سانحے کی ضرورت پڑتی ہے۔ آپریشن ضرب عضب البتہ اس لحاظ سے استثنیٰ ہے کہ اگرچہ اس کے پیچھے کئی برسوں کی قربانیاں اور ہزاروں لوگوں کا ناحق لہو موجود تھا، لیکن یہ کسی فوری ردعمل میں شروع نہیں ہوا۔ یہ بات مگر درست ہے کہ اس میں مزید شدت اور قوت سانحہ پشاور نے پیدا کی، جب سکول کے معصوم پھولوں کو درندوں نے مسل ڈالا۔ فوجی عدالتیں بھی اس کے بعد قائم ہوئیں، کراچی آپریشن کا دائرہ کار وسیع اور ہمہ گیر بھی اس کے بعد ہی ہوا۔ ایک بات ہر ایک پر واضح ہو گئی کہ اب ماضی کا گند صاف کیا جائے گا، جو غلطیاں پہلے دہرائی گئیں، وہ مستقبل میں نہیں ہوں گی اور بلاتفریق ہر قسم کے دہشت گردوں کے خلاف سخت ترین کارروائی ہو گی۔ آرمی چیف کا فولادی عزم ہر ایک کو نظر آیا اور سیاسی حکومت بھی اسے سپورٹ کرنے پر تیار ہوئی۔ صفورا چورنگی کے قریب پُرامن اور تنازعات سے دور رہنے والی اسماعیلی برادری کی بس کو جس سفاکی سے نشانہ بنایا گیا، جس بے رحمی اور شرمناک انداز میں نہتے لوگوں کو قتل کیا گیا... اس نے آپریشن کی ضرورت اور اہمیت کو کئی گنا بڑھا دیا۔ یہ واضح ہو گیا کہ اب بڑے فیصلے کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ سانحہ کراچی کسی بھی طرح سانحہ پشاور سے کم نہیں۔ ان ہولناک واقعات نے ہم پر واضح کر دیا ہے کہ بطور قوم زندہ رہنا، مضبوط اور مستحکم ہونا ہے تو ہر قسم کی دہشت گردی اور لاقانونیت کا خاتمہ کرنا ہو گا۔ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کی بدترین گورننس اور ناکام ترین وزیر اعلیٰ اگر رکاوٹ بنیں تو پھر گورنر راج کی آپشن کی طرف جانے میں بھی کوئی ہرج نہیں۔ کراچی کے لوگوں نے بہت قربانیاں دے دیں، اب انہیں دہشت گردوں، بھتہ خوروں، مختلف قسم کے مافیاز اور غنڈوںکے گروپوں سے نجات دلانے کا وقت آ گیا ہے۔ ان بڑے فیصلوں میں اپنی ترجیحات کا دوبارہ سے تعین کرنا بھی شامل ہے۔ تجزیہ کار اور دانشور ڈاکٹر عاصم اللہ بخش نے اپنے ایک بلاگ میں چند انتہائی قیمتی تجاویز دی ہیں۔ میرے خیال میں آب ِزر سے لکھے جانے کے قابل یہ تحریر ہمارے فیصلہ سازوں، انٹیلی جنشیا اور سیاسی و عسکری اشرافیہ کو غور سے پڑھنی اور سمجھنی چاہیے۔ ڈاکٹر عاصم اللہ بخش لکھتے ہیں:
''1۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ کو ترک کیجیے اور ''لاقانونیت‘‘ کے خلاف جنگ کا آغاز کیجیے۔ ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک Selective معاملہ ہے جس میں کوئی خاصے عمل، اپنا پرایا، پسند ناپسند وغیرہ اصل فیصلہ کن عوامل ہیں۔ اس کے اہداف بھی محدود ہوتے ہیں اور کئی بار کولیٹرل ڈیمج مطلوب فوائد کی نسبت زیادہ ہو جاتا ہے۔ یہ ایک محدود وقتی آپریشن ہے جس کے ثمرات بھی محدود نوعیت کے ہوتے ہیں۔ آپ اسے ''فائر فائٹنگ‘‘ کہہ لیجیے۔
اس کے برعکس لاقانونیت کے خلاف جنگ ایک خالصتاً تکنیکی مسئلہ ہے جس میں ہر وہ فرد، گروہ، ادارہ جو ملک کے قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے‘ وہ مجرم ہے اور اس کو سزا ملنا لازم ہے۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کون ہے، کیا ہے اور کہاں سے ہے۔ یہ مستقل عمل ہے جو معاشرے میں ہمہ وقت جاری رہتا ہے، اور بالآخر تہذیب یافتہ معاشرے کی پہچان بنتا ہے۔ اس میں ضابطہ اور پراسیس رو بہ عمل ہوتے ہیں‘ اس لیے کولیٹرل ڈیمج نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ قانون نافذ کرنے والا بنیادی ڈھانچہ مضبوط ہوتا ہے اور صرف یہ وہ واحد راستہ ہے جو عوام میں احساس تحفظ اجاگر کرتا ہے۔
2۔ کلیہ بنا لیں کہ اگر وی وی آئی پیز کو محفوظ بنانا ہے تو پسنی، راجن پور، گلگت، نیلم، کرم ایجنسی وغیرہ کے عام رہائشی کو بھی تحفظ دینا ہو گا‘ ورنہ لاکھ بلٹ پروف کاریں بھی ناکافی رہیں گی۔
3۔ اس بات کو فراموش کر دیں کہ کون ہمارے خلاف کیا کر رہا ہے۔ ہمارے کرم فرماؤں نے ہمارے لیے اس ضمن میں آسانی فرما دی ہے۔ وہ سب اکٹھا ہو کر ہم پر حملہ آور ہیں۔ ہمارا واسطہ صرف اور صرف اس بات سے رہنا چاہیے کہ ہمارے نظام میں کمزوریاں کہاں ہیں اور ان کو جلد از جلد دور کرنے کے لیے کیا کِیا جا سکتا ہے۔
4۔ وقت آ گیا ہے کہ میڈیا کو پالیسی کے عملدرآمد میں اس کا جائز کردار دیا جائے تاکہ وہ اپنی اہمیت ثابت کرنے کے چکر میں خواہ مخواہ غیر سنجیدہ رویہ اپنانے اور سنسنی خیزی وغیرہ سے گریز کرے۔ نیز نیشنل پالیسی کی پیروی کرے۔ میڈیا کو ایک مادر پدر آزاد نقارچی بننے کی دنیا کے کسی حصہ میں اجازت نہیں۔ جہاں ایسا ہوا وہاں افراتفری اور انتشار ہی پیدا ہوا، تاہم، یہ اپنی جگہ اہم ہے کہ اس ضمن میں میڈیا کو واجب احترام اور آزادی بھی دی جائے۔
5۔ سول ملٹری کشمکش کو ہوا دینے اور نمبر ٹانگو قسم کے دانشوروں اور اینکر حضرات پر ہر دو اطراف واضح کریں کہ وہ اپنی دکانیں مضبوط تالا لگا کر بند کر دیں۔
6۔ تمام این جی اوز کے مقاصد، ایکٹویٹیز اور فنڈنگ وغیرہ کا از سرنو جائزہ لیا جائے اور ان پر اس حوالے سے ریگولیشن کو مزید مؤثر بنایا جائے۔ اس ضمن میں ولادیمیر پوٹن اور طیب اردوعان صاحب سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے جو غیر ملکی این جی اوز کو متوازی ریاست کہتے ہیں۔ اگر سٹیٹ کی ''رٹ‘‘ قائم کرنا مقصود ہے تو اس کو درپیش ہر چیلنج کو دیکھنا ہو گا، یہ فرق کیے بغیر کہ اس کا سورس پگڑی ہے یا ہیٹ۔
7۔ ہمارے دینی حلقوں کو بھی اب جان لینا چاہیے کہ ملک میں جاری پُرتشدد کارروائیاں ایک انٹرنیشنل ایجنڈے کا مقامی فرنچائز ہے اور اس کا اسلام وغیرہ سے کوئی سروکار نہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اسلام کے نام لیوا ہی سب سے پہلے اور سب سے زیادہ اس کا چارہ نہ بنتے۔ ان افراد نے آپ میں سے کسی کو خلافت نہیں لے کر دینی بلکہ جو مقام اور احترام اس ملک اور معاشرے میں آپ کا اور اسلام کا ہے یہ اس کے بھی درپے ہیں۔
8۔ پریشانی و سینہ کوبی وغیرہ سے آج تک دنیا میں کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا، ہمارا بھی نہیں ہو گا؛ چنانچہ یہ سب کرنا، خواہ فیس بک و ٹوئٹر پر نوحے لکھ کر ہو یا دہائیاں دے کر، صرف قویٰ کا ضیاع ہے اور نہ ہی یہ مسئلہ ایک دن میں حل ہو گا بلکہ جو جغرافیہ ہمارا ہے کچھ نہ کچھ ہوتا ہی رہے گا۔ اس لیے حوصلہ، ایک دوسرے کے دکھ میں مدد اور اتحاد ہی ہمارے ہتھیار ہونا چاہئیں۔
اگر یہ بات کتابی سی محسوس ہو تو براہ کرم نپولین اور ہٹلر کی جارحیت کے ہنگام روسی قوم کی جدوجہد و قربانی‘ پھر پہلی اور دوسری عظیم جنگ میں فرانس، بیلجیم، پولینڈ، برطانیہ وغیرہ کی کاوش اور دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی اور جاپان کی مکمل تباہی کے بعد محنت اور کامیابی کے سفر کا مطالعہ ضرور کریں۔
9۔ ہماری سیاسی و عسکری قیادت کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ قوم کی اس بے چینی کا بڑا سبب ماضی میں ان کا رویہ ہے۔ اب وقت نہیں ہے کہ اس طرح کی لگژری کو مزید افورڈ کیا جائے۔ سب کو کمر کسنا ہو گی۔ ذاتی انا جیسے فروعی معاملات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے باہمی احترام اور اشتراک سے معاملات کو حل کریں اور عوام سے کوئی تقاضا کرنے سے پہلے خود مثال قائم کریں۔
10۔ اللہ تعالی کو یاد رکھیں اور کامیابی پر اکڑنے کے بجائے عاجزی سے اپنا سفر جاری رکھیں۔‘‘

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں