تین باتیں

آدمی اپنی زندگی میں بے شمار باتیں سنتا، پڑھتا اور دیکھتا ہے۔ کچھ یاد رہ جاتی ہیں، بیشتر ذہن سے نکل جاتی ہیں کہ رب تعالیٰ کے بنائے ہوئے اس کمپیوٹر کا باتیں ریکارڈ میں رکھنے اور غیر ضروری فائلیں ڈیلیٹ کرنے کا اپنا ایک سسٹم ہے۔ جس بات کی کچھ عرصے تک ضرورت نہ پڑے، انسانی ذہن اسے اپنی طرف سے ردی کے ڈھیر کا حصہ سمجھ لیتا ہے اور پھر رفتہ رفتہ وہ دماغ کی ہارڈ ڈسک سے ڈیلیٹ ہو جاتی ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم کسی خاص واقعے یا بات کو زیادہ اہمیت نہیں دے رہے ہوتے، دیکھ کر یا سن کر اپنی طرف سے اسے ذہن سے نکال دیتے ہیں، لیکن اس نے جذباتی سطح پر ایک خاص تاثر قائم کر دیا ہوتا ہے، اس لئے لاشعور اسے محفوظ کر لیتا ہے۔ برسوں بعد وہ واقعہ اچانک یاد آتا ہے اور ایسی صحت اور درستگی کے ساتھ کہ آدمی حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ بعض باتیں البتہ انسان دل و جاں سے یاد رکھنا چاہتا ہے اور وہ یاد بھی رہ جاتی ہیں، انہیں بھولنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ رمضان کا تصور آتے ہی میرے ذہن کی سکرین پر دو تین ایسی باتیں جھلملانے لگتی ہیں، جنہیں میں کبھی بھلا نہیں پایا۔ ہر سال ماہ رمضان میں وہ باتیں بے طرح یاد آتی ہیں۔ ان پر عمل نہ ہو سکے، یہ دوسری بات ہے، لیکن ان کی افادیت اور تاثر پہلے دن کی مانند تروتازہ اور گہرا ہے۔
چند سال پہلے ایک طالب علم نے ایسی بات کہی‘ جو تیر کی طرح دل میں کھب گئی۔ اس بے چارے نے طنز کے طور پر نہیں کہا تھا، بلکہ روانی میں ایک فقرہ کہہ دیا، لیکن سچی بات ہے کہ اس وقت کی ندامت کا آج بھی تصور کروں تو پیشانی نم آلود ہو جاتی ہے۔ ان دنوں روزنامہ 'دنیا‘ شروع نہیں ہوا تھا۔ میں ایک اور اخبار میں کام کر رہا تھا۔ ایک دن دفتر کے گیٹ سے فون آیا کہ کوئی نوجوان مجھ سے ملنے آیا ہے۔ اخبار کے دفاتر میں کام کرنے والوں، خاص طور پر میگزین کے لوگوں کے اوقات کار متعین نہیں ہوتے۔ کسی بھی وقت کوئی بڑا واقعہ ہو سکتا ہے، جس پر فوری خصوصی اشاعت کی تیاری کرنا پڑتی ہے۔ ایک تو صحافیوں کی اپنی زندگی منتشر اور کسی شیڈول سے عاری ہوتی ہے، اوپر سے اس انداز کی دفتری مصروفیت... ایسے میں ملاقاتیوں سے ملنا آسان نہیں رہتا۔ آج بھی فیس بک یا ای میل کے ذریعے کسی قاری کا پیغام ملتا ہے کہ وہ ملنا چاہتا ہے تو میں مشکل میں پڑ جاتا ہوں۔ صاف انکار سے دل شکنی کا خدشہ ہوتا ہے اور یہ سوچ بھی دامن گیر رہتی ہے کہ اگر اسے کوئی خاص وقت دے کر بلا لیا‘ تو اس وقت نجانے کام کی کیا پوزیشن ہو، ہو سکتا ہے چند منٹ بھی نکالنا ممکن نہ ہوں۔ سب سے مشکل کام دوستوں اور قارئین کو یہ بات سمجھانا ہے۔ خیر اس روز کام کا دبائو کم تھا، نیچے ملاقات کے لئے مخصوص کمرے میں آیا۔ ایک دبلا پتلا نوجوان بیٹھا تھا۔ رسمی فقروں کے بعد اس نے بتایا کہ وہ فیصل آباد سے لاہور کتابیں خریدنے آیا ہے۔ پڑھنے کا بہت شوق ہے، جیسے ہی کچھ پیسے جمع ہوں، کتابیں لینے لاہور کا رخ کرتا ہے۔ اس سے گپ شپ ہوتی رہی، میں نے اسے ایک دو کتابوں کے نام بتائے کہ یہ ضرور لے لینا۔ کتابوں پر بات کرتے کرتے اس نے اچانک پوچھا، آپ کو کون سا ترجمہ قرآن پسند ہے؟ یہ سوال سن کر میں سٹپٹا سا گیا۔ اس وقت تک ترجمے سے قرآن پڑھا ہی نہیں تھا۔ کئی بار شروع کیا، مگر پھر ادھورا رہ جاتا۔ بچپن میں والد محترم کو سید مودودی کی تفسیر تفہیم القرآن پڑھتے دیکھتا تھا۔ ان کا معمول تھا کہ وہروزانہ ایک دو رکوع ترجمے اور تفسیر کے ساتھ بڑی توجہ سے پڑھتے اور کچھ دیر اس پر غور کرتے رہتے۔ مطالعہ کا شوق پیدا ہو چکا تھا، دو چار بار ہم نے بھی تفسیر پڑھنا شروع کی، مگر ہر بار ہوتا یہی کہ تھوڑی سی تلاوت کے بعد قرآن کے متن اور ترجمہ سے توجہ ہٹ کر تفسیری واقعات کی طرف چلی جاتی، خاص طور پر جہاں قصص القرآن بڑی صراحت کے ساتھ بیان کئے گئے تھے۔ برسوں بعد میں نے قرآن آسان تحریک والوں کا دو رنگوں میں طبع شدہ قرآن پاک دیکھا۔ نہایت خوشنما، ہر حرف کا الگ الگ مطلب بیان کیا گیا، ایسا لگا کہ اب قرآن کو سمجھنا بہت آسان ہو جائے گا۔ پڑھنے کی کوشش کی تو اندازہ ہوا کہ حرف حرف کو الگ
الگ پڑھنے سے وہ روانی پیدا نہیں ہو رہی اور اس طرح سے قرآن سمجھنا آسان تو ہے، لیکن اس کے لئے جس نے پہلے ترجمہ پڑھ رکھا ہو اور وہ قرآن فہمی کی نیت سے پڑھ رہا ہو۔ سید قاسم محمود کے شائع کردہ شاہکار ترجمہ قرآن نے البتہ متاثر کیا، اس میں مولانا فتح محمد جالندھری کے مشہور ترجمے کے ساتھ مولانا مودودی کا بامحاورہ ترجمہ اور ساتھ ہی علامہ عبداللہ یوسف علی کا انگریزی ترجمہ بھی دیا گیا تھا۔ ضروری تفسیری حاشیے بھی موجود ہیں۔ اپنی نوعیت کا یہ منفرد کام ہے۔ ہاسٹل کے زمانے کے ہمارے ایک دوست بڑے ذوق و شوق سے علامہ عبداللہ یوسف علی کا انگریزی ترجمہ قرآن پڑھا کرتے تھے۔ ان کے بقول قرآن کے اردو ترجمے کی نسبت اس انگریزی ترجمے سے زیادہ بہتر انداز میں مفہوم سمجھ آ جاتا ہے۔
خیر بات اس لڑکے کے سوال کی ہو رہی تھی۔ ندامت سے شرابور لہجہ میں جواب دیا کہ ترجمہ قرآن کے حوالے سے میں رہنمائی نہیں کر سکتا کہ میں نے خود ترجمہ ابھی تک نہیں پڑھا۔ مہمان نے بے ساختہ کہا، ''مطالعہ میں اتنی دلچسپی اور کتابوں سے اس قدر محبت کے باوجود دنیا کی عظیم ترین کتاب کو ابھی تک نہیں پڑھا؟‘‘ اس وقت تو کچھ نہ کہہ سکا؛ البتہ اس سے چند سال پہلے کراچی میں بھی ایک ایسا ہی واقعہ ہوا تھا، جس کے بعد اس کوتاہی کو دور کرنے کا سوچا تھا، لیکن عمل نہیں کر سکا۔ اس نوجوان سے
ہونے والے مکالمے کے چند ہفتوں بعد ماہ رمضان شروع ہو رہا تھا۔ یکم رمضان سے ایک ایک سپارے کا ترجمہ پڑھنا شروع کیا۔ طریقہ یہ نکالا کہ پہلے کچھ تلاوت کر لی، پھر براہ راست ترجمہ قرآن ہی پڑھنا شروع کر دیا، آدھے پونے گھنٹے میں ایک سپارہ پڑھا جاتا ہے۔ تلاوت پھر بے شک دن میں جتنی بار کر لو، لیکن ترجمہ روانی اور تسلسل کے ساتھ اگر پڑھ لیا جائے تو جلدی بیس پچیس دنوں میں پورا قرآن ترجمہ کے ساتھ پڑھا جاتا ہے۔ ایک بات پورے یقین کے ساتھ لکھی جا سکتی ہے کہ ترجمہ قرآن جو بھی ہو، اسے پڑھنے والے پر قرآن کی عظمت جس طرح منکشف ہوتی ہے، صرف تلاوت کرنے والے کو شاید برسوں اس کا اندازہ نہ ہو سکے۔ اللہ کا کلام پڑھتے ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ واقعتاً رب عظیم کا کلام ہے، سچا، برحق کلام۔ ایک ایک سطر سے اللہ تعالیٰ کی عظمت، جلال، حکمت اور شان و شوکت جھلکتی ہے۔ ایک اور بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ دو تین بار ترجمہ قرآن پاک غور سے پڑھنے کے بعد کئی مسلکی کمزوریوں اور خامیوں سے بھی جان چھوٹ جائے گی۔ اکابر پرستی ہو یا مقابر پرستی... ہر ایک کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ خلوص نیت سے پڑھنے والے کو کلام اللہ سیدھے راستے پر لے آتا ہے، اس کے ساتھ جو غیر معمولی طمانیت، سکون اور راحت ملتی ہے، اسے بونس سمجھنا چاہیے۔ جس کسی کو اس عظیم الشان تجربے سے گزرنے کا اتفاق نہیں ہوا، اس رمضان مبارک میں وہ آزما سکتا ہے۔ کالم کی گنجائش ختم گئی، دو باتیں رہ گئیں، ان پر انشااللہ اگلی بار بات کریں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں