دوسری بات

یہ چند سال پہلے کی بات ہے، ایک دوست نے گھر افطاری پر بلایا، کہنے لگے ،'' رش نہیں ہوگا، آپ واحد مہمان ہیں، بعد میںکچھ دیر گپ شپ کریں گے۔‘‘پرانے دوست ہیں، بے تکلفی کا رشتہ ہے، ان کی ایک بات مجھے بڑی پسند ہے کہ رسمی تکلفات اور مصنوعی آداب سے بے نیاز ہیں، سادہ لائف سٹائل، ویسا ہی سادہ لباس ، اپنی دھن میں مست رہتے ہیں۔ افطار کے وقت مجھے یہ دیکھ کر قدرے حیرت ہوئی کہ انہوں نے خاصا اہتمام کر رکھا تھا۔ پھلوں اور دو قسم کے شربت کے علاوہ پنیر والے پکوڑے، چھوٹے سموسے، فروٹ چاٹ، آلو چنے کی چاٹ، دہی بڑے وغیرہ بھی تھے۔ ان سے شکوہ کیا کہ اس تکلف کی آپ سے توقع نہیں تھی، بہتر ہوتا کہ ٹھنڈے پانی یا کسی شر بت سے روزہ افطار کر کے کھانا کھا لیا جاتا۔ میزبان نے مسکرا کر جواب دیا،''عام حالات میں میرا دستر خوان سادہ ہی رہتا ہے، رمضان مبارک میں البتہ صورتحال مختلف ہوجاتی ہے۔ سال میں یہ واحد مہینہ ہے، جس میں باقاعدہ شعوری کوشش کر کے میں اہتمام کی کوشش کر تا ہوں۔ ‘‘حیرانی سے اس کی وجہ پوچھی تو وہ دوست کہنے لگے ،میرا یقین ہے کہ رمضان کریم میں رب تعالیٰ کی رحمتیںفراوانی سے برستی ہیں، ان کے ثمرات ہمیں اپنے گھر والوں تک بھی پہنچانے چاہئیں۔‘‘اس کے بعد انہوں نے تفصیل کے ساتھ اپنے نظریہ کی وضاحت کی۔ دوسروں کا علم نہیں، لیکن میں نے بعد میں اس نقطے پرغور کیا توقائل ہوگیا۔
ہمارے دوست کہنے لگے، ''رمضان میں میرے گھر کا بجٹ بڑھ جاتا ہے ،لیکن میں اس کے لئے دو تین ماہ پہلے سے کچھ پس انداز کر لیتا ہوں، اس لئے دقت نہیں ہوتی۔ ویسے بھی ہم اسراف بالکل نہیں کرتے ، صرف شعوری کوشش کر کے دستر خوان میں وسعت پیدا کرتے ہیں۔ دراصل میں چاہتا ہوں کہ بچوں کو احساس ہو کہ رمضان کا مہینہ ان کے لئے بہت سی مسرتیں، رحمتیں لے کر آیا ہے۔ افطار کے موقع پر کوشش کرتا ہوں کہ اہتمام ہوجائے۔میں نے بیوی اور بچوں کے ساتھ مل کر دو اصول طے کئے۔ پہلا یہ کہ جو چیز چاہیں ملے گی، لیکن اسے گھر بنانا پڑے گا، بازار سے تلی ہوئی چیزیں نہیںآئیں گی، دوسرا یہ کہ بچوں کو بھی ساتھ مل کر کام کرانا ہوگا۔اس سے آسانی یہ ہوگئی کہ خرچہ بھی کم ہوگیا اورافطاری کی اجتماعی تیاری کا تصور بھی عملی شکل اختیار کر گیا۔ بچوں کی پسند کی چیزیں گھر میں بن جاتی ہیں۔ ایک بچے نے شربت بنانے کی ذمہ داری لے لی، اسے ایک آدھ بار بنا کر دکھا دیا، چینی گرائنڈ کر کے رکھ دی تاکہ لیموں کی سکنجبین یا دوسرے شربت آسانی سے بن جائیں۔بڑا بچے دوپہر ہی سے بوندی ، پکوڑیاں بھگو کر رکھ دیتے ہیں، شام سے کچھ پہلے ان میں چاٹ مسالہ وغیرہ ملا کر دہی بڑے بن جاتے ہیں۔ سموسہ ، رول کی پٹی بازار سے ملتی ہے، وہ لے آئے۔ گھر میں صاف ستھرا آلو کا آمیزہ بنایا، ساتھ انار دانہ وغیرہ بھی ملا دیا۔ لذیذ سموسے اور رول بن گئے۔ پکوڑے تو ویسے بھی گھر میں بنتے رہتے تھے، رمضان میںبچوں کی فرمائش پر پنیر پکوڑے بھی بناتے ہیں۔میکرونی، پاستہ بچوں کو پسند ہے، وہ بھی بناتے رہتے ہیں۔کولڈ ڈرنک کے بجائے روایتی مشروبات جیسے روح افزا، بادام کی سردائی، ٹھاڈل وغیرہ کو ترجیح دی جاتی ہے۔ کسی روز دودھ میں لال شربت ملا لیتے ہیں، بازار میں پنک لیڈی نام کا ملک شیک ملتا ہے، چھوٹے بچے نے اس گلابی دودھ کا نام پنک لیڈی رکھ دیا۔آلو چنے کی چاٹ بچی بنا لیتی ہے، اس نے بڑے اہتمام سے آلو املی منگوا رکھی ہے، جسے بھگو کر اس کا عرق چنا چاٹ میں ملا دیتی ہے، اس کا ذائقہ کمال ہوجاتا ہے۔بچے بڑے شوق سے کھاتے ہیں اور انہیں سال بھر رمضان کا انتظار رہتا ہے۔ ہمیں فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس بہانے بچوں کی کچھ تربیت ہوجاتی ہے۔ گھر میں سب بیٹھ کر افطاری کی تیاری کرتے اور پھر اکٹھے کھاتے ہیں۔سحری میں کوشش کی جاتی ہے کہ روزہ رکھنے والے بچوں نے تو اٹھنا ہی ہے، ، چھوٹے بھی ساتھ اٹھ جائیں اور اکٹھے سحری کر لیں، پھر اس کے بعد وہ بھی وضو کر کے بڑوں کو دیکھتے ہوئے تسبیح پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں، نماز میں بھی شامل ہوجاتے ہیں۔ افطارپردعا کا بھی خاص اہتمام ہوتا ہے۔ بلند آواز سے دعا مانگی جاتی ہے۔ کوشش کرتا ہوں کہ رمضان کی فضیلت کے حوالے سے بھی تھوڑی گفتگوبھی ہوجائے۔ افطار سے پہلے لازمی طور پر ہمسائیوںکے گھر پلیٹیں بنا کر بھیجتے ہیں۔ بچوں کو بتاتے ہیں کہ اس طرح شیئر کر کے کھایا جاتا ہے۔ رجب کے مہینے سے بچوں کو گولک لے کر دی جاتی ہے، وہ دو مہینے اپنی پاکٹ منی جمع کرتے ہیں، کچھ ہم بھی ڈال دیتے ہیں، رمضان شروع ہونے پر گولک توڑ کر پیسے جمع کئے جاتے ہیں اور پھر ان پیسوں سے کسی بڑے سٹور سے جا کر رمضان کے لئے راشن کے پیک بنوا لیتے ہیں۔ گلی کے گارڈ، ملازم، خاکروب کو بچوں کی جانب سے رمضان راشن کے یہ تحفے دئیے جاتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے ننھے معصوموں کی آنکھیں جس طرح چمک رہی ہوتی ہیں، وہ منظر دیدنی ہوتا ہے۔ ‘‘
چند سال پہلے کی سنی گئی یہ بات بھی دل میں نقش ہوگئی۔ اس پر عمل کی کوشش کی، کچھ کامیاب ہوئے، کچھ ناکام ،لیکن یہ بات سمجھ آگئی کہ رمضان کے بابرکت مہینے میں تربیت کی یہ کوشش کرنی ضرور چاہیے۔ ایک زمانے میں پی ٹی وی کے ڈراموں میں تربیت کا یہ عنصر تھا، اب تو سب کچھ ختم ہوگیا۔ آج کل کے ڈرامے تو لگتا ہے کہ کسی اور ملک کے معاشرے کو دکھا رہے ہیں۔دوسری طرف بھارتی ڈرامے دیکھیں تو وہاں پر لگتا ہے شعوری کوشش کر کے ہندو مذہب اور کلچر کو پروموٹ کیا جا رہا ہے۔دنیا کے کسی بھی ملک میں رہنے والا ہندو بڑے اطمینان سے بھارتی ٹی وی ڈرامے اپنے بچوں کو دکھا سکتا ہے کہ اس کے بچوں کو ہندو مذہب، تہواروں، رسوم ورواج کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل ہوں گی۔ہم لوگ ایسا کر سکتے ہیں ؟ جواب نفی میں ہے۔ ہمارے ہاں تربیت کے دو تین ادارے تھے ، میڈیا ان میں سے ایک تھا۔جس طرح پاکستانی حکمران اپنی بنیادی ذمہ داریوں تعلیم ،صحت، روزگار کی سہولتیں فراہم کرنے سے پیچھے ہٹ گئے ، بالکل ہی ہاتھ اٹھا لئے ۔ یہی کام میڈیا نے بھی کیا ہے، تربیت کا اس سے کوئی تعلق نہیں ، انتشار البتہ وہ خوب پھیلا سکتا ہے۔ ہمارے کسی ڈرامے میں رمضان کو گلوریفائی کرنے کے حوالے سے کوئی اہتمام نہیں کیا جاتا۔شب معراج، شب برأت ، رمضان ... ان سب کے حوالے سے کمرشلائزیشن کا ایک طوفان تو آگیا ہے، طرح طرح کے گیم شوز، جن میں کچھ سکھانے کے بجائے محض لالچی ، حریص اور بے شرم بننا سکھایا جاتا ہے۔ تربیت کا کوئی عنصرکہیں پر نہیں۔ تعلیمی ادارے بھی الا ماشااللہ اس کام سے ہاتھ اٹھا چکے ہیں۔ اب بچوں کو کچھ سکھانا، ان کی تربیت کرنا ہے تو صرف گھر ہی میں یہ کام سرانجام دیا جاسکتا ہے۔ رمضان کے روحانی پہلوئوں کی طرف خاص طور پر توجہ دینی چاہیے، چھوٹے بچوں کے لئے البتہ رمضان کو گلوریفائی کرنے کی بھی ضرورت ہے،رب کریم کی رحمت سے انہیں شناسا کرانا، شیئر کرنا اور اس مہینے کا انتظار کرنا سکھانا چاہیے۔ مجھے لگتا ہے کہ اس ایکٹویٹی سے بچوں کی تربیت اور رمضان کے ساتھ ان کی دلی محبت بڑھ جاتی ہے۔ آج جو بیج ان کے دلوں میں بوئیں گے، کل ویسی ہی فصل وہاں لہلہاتی نظر آئے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں