دو سادہ سوال

سوال جنم لے رہے ہیں، ان کے جواب ڈھونڈنے ضروری ہیں۔ ہر معاشرہ اپنے سفر کے دوران بعض کلیدی نوعیت کے سوالوں کا جواب کھوجتا ہے۔ انہی پر اس کے آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کا دارومدار ہوتا ہے۔کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ان سوالات اوران کے درست جواب تلاش کرنے پر اس ملک اور قوم کے وجود کا انحصار ہوتا ہے۔
ایک سوال پینتیس سال پہلے چین میں پیدا ہوا۔سوشلزم برقرار رکھتے ہوئے ایک جگہ رک جانا ہے یا پھراپنی مارکیٹ کو اوپن کرتے ہوئے نئے انداز اپنانے ہیں۔ ڈینگ ژیائو پنگ اس وقت چین کے طاقتور ترین لیڈر تھے۔ انہوں نے یک جماعتی سسٹم، چینی سوشلسٹ ماڈل اور سرمایہ دارانہ نظام کے امتزاج سے ایک نیا ماڈل بنایا۔ چین اور چینیوں پر ترقی کے دروازے کھولے ، آج چین کی معیشت جس جگہ پہنچی ، اس میں ڈینگ کے ویژن کا بہت اہم حصہ ہے۔ ڈینگ نے اپنے اسی ماڈل کے حوالے سے ایک مشہور فقرہ کہا،''بلی سفید ہو یا سیاہ اس سے فرق نہیں پڑتا، بس اسے چوہے پکڑنا آتا ہو۔‘‘آج کے چین کو ایک اور چیلنج کا سامنا ہے کہ اپنی ترقی کی رفتا ر کس طرح برقرار رکھی جائے۔ چینی گورننس اور سیاسی ماڈل کا برقرار رہنے کا دارومدار اسی پر ہے۔ 80ء کے عشرے میں سوویت یونین کے سامنے بھی یہی سوال پیدا ہوا تھا کہ گرتی ہوئی معیشت کو کس طرح سنبھالا جائے اور افغانستان میں فوجی شکست کے اثرات سے سوویت یونین کے اندرونی حصوں اور مشرقی یورپ کو کس طرح بچایا جائے۔ گورباچوف اس وقت سربراہ تھے ، وہ یہ بوجھ اٹھا نہ سکے، اصلاحات کا جو سلسلہ شروع کیا، وہ سوویت یونین کی شکست وریخت پر ختم ہوا، سپرپاور ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی۔بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اگر اس وقت پوٹن روس کے سربراہ ہوتے تو شاید آج نقشہ مختلف ہوتا۔
امریکہ اور یورپ کے اکثر ممالک میں ''ضرورت سے زیادہ فری مارکیٹ اکانومی‘‘ مسئلہ بن رہی ہے۔ مسئلہ یہ ہوا کہ بینکوں، انشورنس کمپنیوں اور بڑی ملٹی نیشنلز نے زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی حرص میں بعض بنیادی اصولوں کو فراموش کر دیا۔ چند سال پہلے امریکی حکومت کئی سو ارب ڈالر کا بیل آئوٹ پیکیج نہ دیتی تو کئی بڑے بینک اور انشورنس کمپنیاں دیوالیہ ہوجاتیں اور پوری معیشت کا بیڑا غرق ہوجاتا۔ خطرات ٹلے نہیں ، ماہرین مستقبل میں ایک اور کساد بازاری کی پیش گوئی کر رہے ہیں، جس کا تصور بھی مغربی ماہرین معیشت کے لئے سوہان روح ہے۔ مڈل ایسٹ میں عرب سپرنگ کے آفٹر شاکس اور آفٹر ایفکٹس چل رہے ہیں۔ اخوان المسلمون کے معاملے پر مصر تقسیم ہوچکا ہے، مصری فوج نے سفاکی کی انتہا کر تے ہوئے ملک کی سب سے بڑی سیاسی اور مذہبی قوت اخوان المسلمون کو کچل ڈالا۔جب تک مصری فیصلہ ساز اخوان والے مسئلے کو حل نہیں کرتے، وہاں استحکام اور امن وامان قائم نہیں رہ سکتے۔ شام اور عراق اپنے داخلی تضادات سے نہیں نکل سکے، شام میں اقلیت اکثریت پر حکومت کرنے پر مصر ہے تو عراق میں اکثریت تین چار عشرے دبی رہی، اقتدار ملا تو اس نے وہی ناانصافیاں دہرانے کی کوششیں کیں، نتیجہ داعش جیسے عفریت کی صورت میں برآمد ہوا۔ ادھر حجاز اور خلیجی عرب ریاستیں بھی اپنے داخلی سیاسی تضادات کو حل کرنے اور بادشاہتیںبرقرار رکھنے کی کوشش میں ہیں۔ بھارت کثیر النسل اور کثیر المذہب ملک ہے۔ ان کے پاس بچائو کی واحد آپشن سیکولرازم تھا۔ جیسے تیسے وہ اس کا ڈھول پیٹتے رہے، اب نریندر مودی کے بھارت میں سیکولرازم بری طرح ایکسپوز ہوگیا۔شدت پسند ہندو فکر کو اقتدار ملا تو ان کی کم ظرفی واضح ہوگئی۔ انہیں یہ سمجھ نہیں آرہی کہ بیس بائیس کروڑ مسلمان یکایک ہندو لائف سٹائل کیسے اپنا سکتے ہیں؟ کبھی وہ یوگ پر زور دیتے ہیں کہ ہر بھارتی مسلمان اسے اپنی زندگی کا حصہ بنائے تو دوسری طرف وہاں کی ہندو انٹیلی جنشیا اور اعتدال پسند لکھاری بھی یہ درس دے رہے ہیں کہ گوشت کھانا چھوڑ کر سبزی خور بن جائیں۔
پاکستان میںمسائل بہت سے ہیں، سوالات کی ایک طویل فہرست موجود ہے، جن پر غورکرنا ، ان کے جواب ڈھونڈنے ہوں گے، دو سوالات مگر سرفہرست ہیں، ان سے گریز ممکن نہیں رہا۔ پہلا سوال تو ہمارے روایتی گورننس سسٹم کا ہے۔ ہمارے ہاں حکومت روایتی افسرشاہی کی مدد سے چلائی جاتی ہے۔ سرکاری ملازمین کا خاص مزاج ہر طرف نظر آتا ہے، جس میں عوام کے لئے نفرت، حقارت، بے اعتنائی اور بے رحمانہ بے نیازی شامل ہے۔ تھانہ ، پٹوار کا ظالمانہ نظام ، جس میں صرف طاقتور اور بااثرا فراد کے لئے ریلیف ہے۔شناختی کارڈدفتر، پاسپورٹس آفس،خزانہ آفس، سیکرٹریٹ، ضلعی اور تحصیل سطح پر سرکاری دفاتر وغیرہ میں لوئر اور لوئر مڈل کلاس کے لئے توذلت ہے ہی، اپر مڈل کلاس بھی وہاں پر اذیت ناک سلوک سے فیضیاب ہوتی ہے۔کسی اعلیٰ تعلیم یافتہ ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسر، بینکر، آئی ٹی پروفیشنل،تاجر، بڑے دکان داراور درمیانے درجے کے کاروباری کے لئے بھی ہزاروں
روپے رشوت دئیے بغیر اپنا جائز کام نکلوانا بھی ممکن نہیں۔سوال یہی ہے کہ'' سٹیٹس کو ‘‘کی اس کیفیت کو کب تک برقرار رکھا جائے گا؟ کیا تبدیلی کی کوئی صورت نکل پائے گی اور یہ تبدیلی کون لائے گا؟ سیاسی جماعتیں تو اسی نظام سے فائدہ اٹھارہی ہیں۔ بڑی جماعتیں الیک ٹیبلز یا طاقتور سیاسی شخصیات پر انحصار کرتی ہیں، جن کا سارا دارومدار ہی اس ظالمانہ استحصالی نظام کی بقا میں ہے۔ اسی ظالمانہ نظام سے بچنے کے لئے لوگ انہی بااثر لوگوں کی طرف پلٹتے اور ان کی سفارش کوراہ نجات تصور کرتے ہیں ۔ یوں ایک شیطانی چکر چل رہا ہے۔ طاقتور امیدوار کرپٹ، سفاکانہ نظام کی مدد سے اپنا اثرورسوخ قائم رکھتے اور ووٹ بینک بناتے ہیں، اسی ووٹ بینک کی بنا پر وہ اسمبلیوں کے ممبر بنتے اور پھر اسی نظام کو برقرار رکھنے پر اصرار کرتے ہیں۔
دوسرا سوال جو اس سے بھی زیادہ اہم ہے، وہ جرم اور سیاست کے براہ راست تعلق کا ہے۔ اس کی دو سطحیں ہیں۔ کوئی تنظیم یا جماعت مافیا کی صورت اختیار کر لے۔وہ مختلف وجوہ کی بنا پر سیاسی ، نسلی یا لسانی عصبیت بھی حاصل کرے اور پھر اپنے منظم نیٹ ورک کی بنا پر تمام سرکاری محکموں، پولیس اور گلی محلے میں اپنا نیٹ ورک قائم کرلے۔ یہ منظم نیٹ ورک اسے سیاسی طاقت بھی عطا کرتا ہے اور پھر اقتدار کے مراکز اس کے ساتھ سمجھوتہ یا دوستی کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اسے ختم کرنے کی طاقت صرف ریاست یا ریاستی اداروں میں ہے، لیکن اقتدار کی مصلحتیں ایسا کرنے نہیں دیتیں۔
سیاست اور جرم میں تعلق کی دوسری سطح سیاسی جماعت کا اقتدار میں آ کر تمام سرکاری وسائل کرپشن کے لئے وقف کردینا ہے۔ ایک سیاسی جماعت اگر طے کر لے کہ بدنامی سے نہیں ڈرنا اور اقتدار کے ہر دن کو لوٹ مار اور جائز ناجائز طریقے سے پیسے جمع کرنے میں صرف کرنا ہے، تو اسے کون روک سکتا ہے؟پولیس یاکرپشن کو روکنے والے تمام سول ادارے حکومت کے حکم کے پابند ہوتے ہیں،مقدمات اگر قائم بھی کر لئے جائیں تو عدالتوں میں پولیس اور استغاثہ کے تعاون کے بغیر انہیں ثابت کون کرے گا؟ طریقہ واردات یہ ہے کہ قانون اور آئین کو توڑ مروڑ کر اپنا غلام بنا لیا جائے اور اگر کوئی ادارہ کرپشن کو روکنے کی کوشش کرے تو فوری طور پر جمہوریت کی دہائی دینا ، علاقائی کارڈ استعمال کرنا اور میڈیا میں اپنے حامیوں کے بل بوتے پر ایسی منفی مہم چلانا ، جس سے یوں لگے کہ پورا سسٹم لپیٹا جا رہا ہے۔
یہ دونوں سطحیں ہم نے سندھ اور خاص کر کراچی میں دیکھی ہیں۔ ہماری آنکھوں کے سامنے پچھلے چند برسوں ، خاص طور پر ڈیڑھ دو برسوں میں قیامت گزر گئی۔ کراچی میں کئی ہزار افراد قتل کر دئیے گئے اور دوسری طرف کئی سو ارب روپے غیر قانونی دھندوں ، بھتوں اورسرکاری املاک پر قبضوں کے ذریعے حاصل کئے گئے ۔ ہمارا گورننس سسٹم، آئین، قوانین، میڈیا، سول سوسائٹی، عدلیہ ... غرض روٹین میں کام کرنے والا کوئی ادارہ اسے نہیں روک سکا۔ سب کی کمزوری بلکہ حقیقت میں گورننس سسٹم کی ناکامی بری طرح ایکسپوز ہوگئی۔ اسے روکنے کی آخری کوششیں ہور ہی ہیں۔ رینجرز آپریشن کے ذریعے یہ لوٹ مار اور قتل وغارت نہ روکی گئی تو پھر ہمارا یہ سویلین سسٹم مکمل ناکام ہو کر ماورائے آئین بندوبست کی آپشن کی طرف چلا جائے گا۔ جمہوریت اور سسٹم کو چلائے رکھنے کے لئے فکر مند حضرات جو کچھ کہہ اور لکھ رہے ہیں، اس کے لئے اگر واقعی سنجیدہ ہیں تو پھر انہیں سیاستدانوں پر پرفارم کرنے کے لئے حقیقی دبائو ڈالنا ہوگا۔ یہ سب ایسے نہیں چل سکتا، زیادہ دیرلٹکایا بھی نہیں جا سکتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں