فیصلے پر مایوسی کیوں؟

پارلیمنٹ کی جانب سے فوجی عدالتیں قائم کرنے کی منظوری دینے کے ساتھ ہی سیاسی اور قانونی حلقوں میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئی تھیں۔ ایک حلقے کا خیال تھا کہ مسلم لیگ ن فوجی عدالتوں کے قیام کے لئے صرف اس وجہ سے رضامند ہوئی ہے کہ انہیں اس امر کا اندازہ ہے کہ یہ قانون لازمی سپریم کورٹ میں چیلنج ہو گا اور عدالت شاید اسے رد کر دے۔ یہ رائے ممکن ہے سیاسی تعصب پر مبنی ہو، لیکن اندازہ بہرحال درست نکلا اور اکیسویں ترمیم سپریم کورٹ میں چیلنج ہو گئی۔ وکلا تنظیمیں اس ترمیم کو چیلنج کرنے میں پیش پیش تھیں۔ اس کی دو تین وجوہ ہو سکتی ہیں۔ وکلا کا ایک طبقہ اپنے خاص قسم کے آئیڈیلسٹ قانونی (Egalitarian) تصور کی بنا پر فوجی عدالتوں کا مخالف تھا۔ ان کے خیال میں خواہ حالات کچھ بھی ہو جائیں، ملک میں متوازی عدالتی نظام قائم نہیں ہونا چاہیے۔ پھر وکلا کا بڑا حصہ ابھی تک عدلیہ بحالی تحریک کے مائنڈ سیٹ سے باہر نہیں آ پایا۔ سابق چیف جسٹس افتخار چودھری ان کے رول ماڈل ہیں اور یہ وکیل جوڈیشیل ایکٹوازم کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں عدلیہ کو آئینی امور کے حوالے سے پارلیمنٹ پر ایک طرح سے برتری حاصل ہے اور وہ آئینی ترامیم پر جوڈیشیل ریویو (عدالتی نظرثانی )کر سکتی ہے۔ تیسری وجہ وکلا برادری میں فوجی عدالتوں کے لئے موجود مخصوص تعصبات بھی ہو سکتے ہیں کہ ان میں وکیلوں کی کوئی گنجائش نہیں اور اگر یہ ٹرینڈ چل نکلا تو وکیل صاحبان کو کوئی اور کام ڈھونڈنا پڑے گا۔ وجوہ جو بھی ہوں، اکیسویں ترمیم چیلنج ہوئی، چیف جسٹس نے فل کورٹ سماعت کی اور یوں دو دن پہلے سپریم کورٹ کا وہ تاریخی فیصلہ آیا، جس نے ہمارے ہاں چلنے والی کئی پرانی بحثوں کو منطقی انجام تک پہنچا دیا ہے۔
سب سے اہم بات جو پاکستانی منظرنامے میں اب زیادہ واضح ہو گئی ہے اور یہ اصول ایک طرح سے طے ہو گیا کہ پارلیمنٹ ہی آئین میں ترامیم کر سکتی ہے۔ عدلیہ آئین کی تفہیم و تشریح کا کام تو کرے، لیکن پارلیمنٹ کی منظور کی گئی ترامیم پر نظرثانی کرنا یا رد کرنا غالباً اس کا منصب نہیں۔ یہ کلاسیکل عدالتی، قانونی سوچ ہے‘ اگرچہ بھارت سمیت دنیا کے اکا دکا ممالک میں بعض ایسی مثالیں ملتی ہیں، جن میں سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کی ترامیم کو جوڈیشل ریویو کے ذریعے ختم کر دیا۔ بھارتی سپریم کورٹ اپنے مختلف ادوار میں جوڈیشل ریویو کی حامی رہی ہے اور اس نے تین چار بار پارلیمنٹ کی ترامیم کو ختم کیا۔ بھارتی سپریم کورٹ اس دلیل کا سہارا لیتی رہی کہ اگرچہ آئین میں ترمیم کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے، لیکن ترمیم کی آڑ میں اسے آئین کی مجموعی سپرٹ یا روح مجروح کرنے کا حق نہیں۔ بھارتی سپریم کورٹ خود کو آئین کا محافظ قرار دیتے ہوئے ایسی ترامیم کو ختم کرنے کا حق استعمال کرتی رہی ہے۔ اس بھارتی جوڈیشیل ایکٹوازم پر دنیا بھر میں مباحث ہوتے رہے ہیں۔ بعض مغربی قانونی ماہرین نے تو اسے جوڈیشیل ایکٹوازم کے بجائے عدالتی آمریت کا نام بھی دیا۔ پاکستان میں آج تک کوئی بھی پارلیمانی ترمیم عدالت کے ذریعے رد نہیں ہوئی۔ سپریم کورٹ نے اس بار بھی یہی قرار دیا کہ آئین میں ترمیم کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے۔ اس سے ان نادیدہ قوتوں کی حوصلہ شکنی ہوئی، جو حکومتیں گرانے کے لئے عدالتی ایکٹوازم سے امید لگاتے تھے۔ یہ آپشن تو اب تمام ہوئی۔ جب تک گیارہ چھ کی نسبت کے بجائے اس سے زیادہ اکثریت والا فیصلہ حالیہ فیصلے کے مخالف نہ آ جائے، حالیہ فیصلہ ہی ٹھوس عدالتی نظیر کے طور پر قائم رہے گا۔ 
دوسرا بنیادی اصول یہ طے ہوا کہ ہمارے آئین میں کوئی ایسا بنیادی ڈھانچہ نہیں، جس میں پارلیمنٹ بھی ترمیم نہیں کر سکتی۔ یہ نقطہ آفرینی بھی بھارتی سپریم کورٹ ہی نے کی تھی۔ انہوں نے مختلف فیصلوں میں یہ کہا کہ بھارتی آئین کا ایک ایسا بنیادی ڈھانچہ (Basic Structure) ہے، جس سے پارلیمنٹ کسی صورت انحراف نہیں کر سکتی۔ سیکولرازم، بنیادی انسانی حقوق، پارلیمانی نظام اور اس طرح کی بعض اور چیزیں اس بنیادی ڈھانچے میں گنوائی گئی تھیں۔ قانونی دنیا میں اسے '' بیسک سٹرکچر ڈاکٹرائن‘‘ کہا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ امریکہ، برطانیہ اور کئی یورپی ممالک کے قانون دان اور جج صاحبان اس بیسک سٹرکچر والے نظریے کو رد کرتے ہیں۔ پاکستان میں سپریم کورٹ کا ایک ایسا فیصلہ موجود ہے، جس میں کسی حد تک ایسے ہی بنیادی آئینی ڈھانچے کا تصور دیا گیا۔ یہ ظفر علی شاہ کیس ہے، جو جنرل پرویز مشرف کی آمرانہ حکومت کے حوالے سے سپریم کورٹ میں زیر بحث آیا۔ اس وقت کی عدلیہ نے جنرل پرویز مشرف کو آئین میں ترمیم کا حق دیا، لیکن ساتھ ہی یہ کہا کہ وہ چار پانچ چیزوں کو نہیں چھیڑ سکتے کہ یہ آئین کا بنیادی ڈھانچہ ہے۔ ان میں وفاقی طرز 
حکومت، پارلیمانی نظام، اسلامی قوانین، عدلیہ کی آزادی اور بنیادی انسانی حقوق شامل تھے۔ پارلیمنٹ کی آئینی ترامیم کو عدلیہ کے ذریعے ختم کرانے کے خواہش مند اسی بنیادی آئینی ڈھانچے کے نظریے کا سہارا لیتے ہیں۔ اکیسویں ترمیم کو بھی اسی بنیاد پر چیلنج کیا گیا کہ یہ بنیادی حقوق سے متصادم ہے۔ سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے نے اس بیسک سٹرکچر ڈاکٹرائن کے غبارے سے بھی ہوا نکال دی۔ اب یہ دلیل موثر نہیں رہی۔ 
مجھے چینلز اور اخبارات میں وکلا برادری کے سرخیلوں کے بیانات دیکھ کر حیرت ہوئی ہے۔ جو بھی شخص جمہوریت اور سیاسی نظام کا حامی ہے، اسے تو سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے پر خوش ہونا چاہیے کہ اس کیذریعے عرصے بعد پارلیمنٹ کی بالادستی اور آئین سازی کے حوالے سے اس کے اختیار اور قوت کو تسلیم کیا گیا۔ جسٹس افتخار چودھری نے جوڈیشیل ایکٹوازم کی بنیاد ڈالی تھی، جو شروع میں کسی حد تک روا تھا۔ میرے جیسے بہت لوگوں نے اسی وجہ سے اس کی حمایت کی تھی کہ اگر عدلیہ کے ذریعے استحصالی طبقات، خاص طور پر بے رحم اور سفاک بیوروکریسی کو روکا جا سکے‘ تو اس میں کیا حرج ہے؟ تاہم وہ جوڈیشیل ایکٹوازم بعد میں ایک الگ شکل اختیار کر گیا تھا اور یوں معلوم ہونے لگا کہ حکومت چلانا، ملکی پالیسیاں بنانا اور قومی ویژن دینا بھی عدلیہ ہی کی ذمہ داری ہے، حکومتیں تو صرف ذلیل ہونے، ڈانٹ پھٹکار سننے اور طعن و تشنیع برداشت کرنے کے لئے ہیں۔ میرا خیال ہے سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے سے وہ توازن‘ جو بگڑ چکا تھا‘ وہ دوبارہ اپنی 
حقیقی شکل میں آ جائے گا۔ عدلیہ کو عوامی مفاد میں متحرک رہنا چاہیے، لیکن اگر ادارے اپنی اپنی حدود میں رہ کر کام کریں تب ہی کوئی نتیجہ برآمد ہو سکتا ہے، ورنہ اگر اخبارات اور چینلز کی ہیڈلائنز میں جگہ بنانا ہی مقصد بن جائے تو صرف انتشار پیدا ہو گا۔
اس فیصلے کو ''نظریہ ضرورت‘‘ کہنا نہ صرف غلط بلکہ گمراہ کن ہے۔ درحقیقت عدالت عظمیٰ نے اس فیصلے کے ذریعے عدلیہ کے کلاسیکل کردار کو دوبارہ سے زندہ کیا ہے‘ دنیا بھر میں جس کی نہایت مضبوط اور توانا مثالیں موجود ہیں۔ ایک ٹاک شو میں اینکر صاحب نے ان لوگوں کو بلا رکھا تھا جنہوں نے عدالت میں یہ رٹ دائر کی تھیں۔ ظاہر ہے وہ سب مایوس اور فرسٹریٹڈ تھے۔ انہوں نے اس فیصلے سے اختلاف کرنا ہی تھا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ صرف ایک فریق کو پروگرام میں اتنے بھرپور انداز میں شامل کرنا کہاں کی غیر جانبداری اور توازن ہے؟ اسی پروگرام میں کسی نے کہا کہ اتنے ججوں نے اختلا ف کیا ہے، اسے اہمیت دی جائے۔ سن کر حیرت ہوئی۔ دنیا بھر میں سپریم کورٹ کے بہت بڑے بڑے فیصلے صرف ایک ووٹ کی اکثریت سے سنائے گئے اور ان کو ہر ایک نے تسلیم کیا۔ حال ہی میں امریکی سپریم کورٹ نے ہم جنس شادیوں (گے میرجز) والا تہلکہ خیز فیصلہ سنایا، جس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا، یہ بھی صرف ایک ووٹ کی اکثریت سے سنایا گیا۔ ہماری سپریم کورٹ کے فیصلے میں گیارہ، چھ کی نسبت ہے، یعنی اختلاف کرنے والوں سے دگنے جج صاحبان نے ایک رائے ہو کر فیصلہ سنایا۔ عدالتی روایات کے اعتبار سے یہ بڑی اکثریت ہے۔ اس فیصلے پر ناخوش یا مایوس ہونے کے بجائے اس میں موجود بہت سے مثبت پہلوئوں کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اینٹی اسٹیبلشمنٹ موقف رکھنے والے لوگ اور لابیاں‘ جو سیاسی نظام کی پُرزور حامی رہی ہیں، انہیں تو اس فیصلے پر جشن منانا چاہیے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں