طالبان کے بارے میں مغالطے

ملا عمر کے انتقال کے حوالے سے ہمارے ہاں عجیب سردمہری والا ردعمل دیکھنے میں آیا۔اس کی وجہ بھی سمجھ میں آتی ہے۔ایک تونام نہاد طالبان یعنی تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے اپنی دہشت گردی کی سفاکانہ وارداتوں سے ملک کے اندر اتنی زیادہ نفرت اور بدنامی کمائی اور لفظ طالبان کا امیج اس قدر مسخ کر دیا کہ اب یہ لفظ ادا کرتے ہی ذہن میں کسی بے رحم اور وحشی دہشت گردکی شکل گھوم جاتی ہے۔ حقیقت حالانکہ اس سے یکسر مختلف ہے۔ دوسرے میڈیا میں اس ایشو کو غلط انداز میں پینٹ کیا گیا۔ افغان طالبان ہوں یا ٹی ٹی پی یا پھر فاٹا کے عسکریت پسند ... اردو پریس اور ٹی وی چینلز پر اس حوالے سے اس قدر غلط معلومات پھیلائی گئیں کہ اصل حقیقت غلط مفروضوں کے ٹنوں وزن تلے دب گئی۔ جن دو چار اخبارنویسوں کو اس حوالے سے حقیقی معلومات ہیں، مختلف وجوہ کی بنا پر وہ اسے کھل کر بیان نہیں کرتے رہے۔ کسی کو اسٹیبلشمنٹ سے ناراضی تھی تو کوئی کرزئی حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات خراب نہیں کرنا چاہتا تھا، بعض کو اپنی جان کا خطرہ بھی لاحق تھا۔ ملا عمر کے متعلق بات کرنا باقی ہے، اس مرد کوہستانی پر لکھنے کا قرض ضرور ادا ہوگا، مگر آج طالبان کے متعلق ان مفروضوں پر بات ہوجائے، جو کنفیوژن پھیلاتے ہیں۔ 
چند ایک بنیادی باتیں سمجھ لینی چاہئیں، پھر ذہن کے سب جالے صاف ہوجائیں گے۔ پہلی یہ کہ طالبان سے مراد صرف اور صرف افغان طالبان ہیں، ملا عمر والے اصلی ، جینوئن طالبان۔ یہ افغان شہری ہیں، وہاں کے مختلف پشتون قبائل سے ان کا تعلق ہے،روسی فوجوں کے جانے اور جنرل نجیب کی حکومت گرنے کے بعد افغان کمانڈروں کی خانہ جنگی سے تنگ آ کر مدرسوں کے ان طلبا پر مشتمل نوجوانوں نے ہتھیار اٹھائے، تحریک کھڑی کی،پاکستانی اداروں نے ان کی کمر ٹھونکی اور کچھ عملی مدد بھی کی۔ زیادہ عمل دخل ان کی جرأت، اخلاص اور نیک نیتی کا تھا۔ افغانستان میں انہوں نے خانہ جنگی ختم کر کے ایک مضبوط اور مستحکم حکومت قائم کر دی، ملک میں مثالی درجے کا امن وامان قائم کیا ، ہر ایک سے ہتھیار واپس لے لئے،پوست کی کاشت صفر کر دی،انتہائی سادہ طرز حکومت قائم کی،قیادت اور وزرا ، گورنروں کی سادگی اور دیانت حیران کن تھی۔ اپنی کوتاہ دانش اور اوسط سے کم درجے کے روایتی فہم دین کے باعث ان سے غلطیاں بھی بہت ہوئیں، جنہوں نے بدنامی کے ایسے داغ لگائے جو آج تک نہیں دھل سکے۔ القاعدہ کو پناہ دینا اور ان پرکنٹرول نہ رکھنا بھی ان میں شامل تھا۔ ان سب کی بنا پر جب نائن الیون کے بعد طوفان اٹھا تو طالبان کے ساتھ کھڑا ہونے والا کوئی نہیں تھا۔ نائن الیون کے بعد نیٹو افواج کے افغانستان پر غاصبانہ قبضے کے خلاف طالبان مزاحمت شروع ہوئی جو رفتہ رفتہ بڑھتی گئی۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی واضح رہی، انہوں نے افغان طالبان کے خلاف کوئی بڑی کارروائی نہیںکی اوران کی سرگرمیوںکی طرف سے آنکھیں بند رکھیں۔ القاعدہ کے خلاف البتہ کارروائیاں ہوئیں، ان کے کمانڈر بھی پکڑکر امریکہ کے حوالے کئے گئے۔ 
یہاں پراس فتنے نے جنم لیا، جس کی سرکوبی ابھی تک نہیں ہو پائی۔ نائن الیون کے فوراً بعد القاعدہ سے تعلق رکھنے والے بیشتر عرب کمانڈر فاٹا کی مختلف ایجنسیوں، خاص کر شمالی اور جنوبی وزیرستان آ کر مقیم ہوئے، مقامی قبائلی کمانڈروں کے ساتھ انہوں نے تعلقات قائم کئے ، شادیاں بھی ہوئیں۔ جب فورسز نے امریکی دبائو پر القاعدہ کے گرد گھیرا تنگ کیا تو بیت اللہ محسود کی قیادت میں تحریک طالبان پاکستان قائم ہوگئی۔ انہوں نے فورسز پر حملے شروع کر دیئے اور یوں معاملات گنجلک ہوتے گئے۔ ادھر جنرل پرویز مشرف کی آمرانہ حکومت، سابق کشمیری جہادی تنظیموں خاص کرالقاعدہ سے قربت رکھنے والی حرکۃ الجہاد الاسلامی کے خلاف کریک ڈائون نے جہادی تنظیموں کے سپلنٹر گروپوں کو ٹی ٹی پی سے جوڑ دیا۔ الیاس کشمیری جیسے نامور جنگجو کمانڈر بھی بیت اللہ محسود کے ساتھ جا ملے،القاعدہ نے کمال مہارت کے ساتھ اپنی تکفیری فکر کو بھی پھیلایا۔ لشکر جھنگوی اور ان کے مختلف گروپوں نے بھی ٹی ٹی پی کے ساتھ ہاتھ جوڑ لئے۔ سوات میں ملا فضل اللہ نے اپنے انداز میںمحاذ کھولا، جب اس کے خلاف کارروائی ہوئی تو وہ بھی ٹی ٹی پی کے ساتھ جڑ گیا۔ یوں ایک ڈھیلا ڈھالا پلیٹ فارم بن گیا، جہاں مختلف چھوٹے بڑے گروپ کام کر رہے تھے۔جنوبی وزیرستان ان کا گڑھ تھا، تین چار نکات پر وہ متفق تھے۔ افغان طالبان اور ملا عمر کی قبائلی علاقوں میں مقبولیت کے بارے میں وہ جانتے تھے، اس لئے انہوں نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ خود کو پاکستانی طالبان کا نام دیا اورکہاکہ ملا عمر ہمارے بھی رہنما ہیں۔ عملی طور پر یکسر مختلف صورت حال تھی۔ 
بیت اللہ محسود اور بعد میں حکیم اللہ محسود کے دور میں ٹی ٹی پی کا اپنا نظم ونسق تھا، ملا عمر یا افغان طالبان کی یہاں پر کوئی اہمیت نہیںتھی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ملاعمر کے افغان طالبان کا ہدف اور ایجنڈا امریکہ کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانا تھا، ان کا محاذ جنگ صرف اور صرف افغانستان تھا، پاکستان میں افغان طالبان نے ایک بھی کارروائی نہیں کی، کچھ گلے شکوے ان کو تھے بھی تو اس کے باوجود وہ پاکستانی فورسز کے خلاف کبھی کھڑے نہیں ہوئے۔ لڑنا تو دور کی بات ، کبھی ان کے خلاف بیان تک 
نہیں دیا۔ اس کے برعکس نام نہاد پاکستانی طالبان نے کبھی افغانستان جا کر لڑائی نہیں کی، ان کا ہدف صرف اور صرف پاکستانی ریاست اور فورسزکو نقصان پہنچانا تھا۔ یہ افغان طالبان اور نام نہاد، خود ساختہ پاکستانی طالبان کے مابین وہ بنیادی فرق ہے جو ہم سب کو سمجھنا چاہیے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ افغان طالبان نے کھل کر ٹی ٹی پی کی مخالفت کیوں نہیں کی؟ اس کی بڑی سادہ وجہ ہے کہ افغان طالبان کا بیس کیمپ فاٹا کا علاقہ تھا، اپنے بیس کیمپ میں کوئی گوریلا تنظیم لڑائی مول نہیں لے سکتی۔ وزیرستان کے محسود قبیلے کے ساتھ افغان طالبان لڑ نہیں سکتے تھے، لیکن انہوںنے خود کو الگ رکھا، اپنے حامیوں کو بھی پاکستانی ریاست کے خلاف کھڑے نہ ہونے دیا اورایک مرحلے پر تو ملا عمر نے واضح طور پر تیس نکاتی ضابطہ اخلاق جاری کیا جو عملی طور پر ٹی ٹی پی کے خلاف ہی تھا۔ایک صاحب سے میں نے سنا کہ افغان طالبان کی جانب سے حکیم اللہ محسود کی ہلاکت پر تعزیتی بیان کیوں جاری کیا گیا؟ یہ بچگانہ بات سن کر میں دنگ رہ گیا۔ سادہ سی بات ہے کہ حکیم اللہ طالبان کے سب سے بڑے دشمن امریکہ کی جانب سے ڈرون حملے میں مارا گیا ، اس پر کیا وہ خوشی کا اظہار کریں؟ پھر حکیم اللہ مختلف حالات میں ہلاک ہوا، اس کی موت پر تو پاکستانی وزیر داخلہ چودھری نثار تک نے اظہار افسوس کیا۔ 
رہی گڈ اور بیڈ طالبان گروپوں والی بات تو یہ اصطلاح ان قبائلی گروپوں کے لئے برتی جاتی تھی، جو فورسزکے حامی یا مخالف تھے۔ دراصل وزیرستان ایجنسیوں میں رہنے والے دو اہم قبیلے اور گروپ ملا نذیر کے وزیر قبائلی اور حافظ گل بہادرکا گروپ افغان طالبان کے حامی تھے۔ ان گروپوں نے کبھی پاکستانی فورسز کو نشانہ نہیں بنایا، ان کا ہدف بھی امریکی افواج تھیں، اس لئے امریکی ڈرون حملوں کا ہدف زیادہ تر یہی دو گروپ ہی تھے۔ ملا نذیر امریکی ڈرون حملے ہی میں ہلاک ہوئے تھے۔ ایک طویل عرصے تک یہی پالیسی بنائی گئی کہ جو طالبان گروپ ہمارے خلاف نہیں، ہمیں بھی خواہ مخواہ ان کو نہیں چھیڑنا چاہیے، جو دہشت گرد گروہ پاکستان کو محاذ جنگ بناتے ہوئے دہشت گرد کارروائیاں کر رہے ہیں، ان سے پہلے نمٹا جائے۔ آپریشن ضرب عضب کے وقت البتہ یہ طے کر لیا گیا کہ اب پورا علاقہ صاف کرانا ہے اور افغان طالبان کے حقانی نیٹ ورک سمیت ہر ایک کوکہہ دیا جائے کہ جوکچھ کرنا ہے، صرف اور صرف افغانستان جا کر کرو۔ شمالی وزیرستان آپریشن کے موقع پر حافظ گل بہادر گروپ سے بھی معذرت کر لی گئی، وہ ناراض ہوئے اور فورسزکے خلاف بعض کارروائیاں بھی کیں مگر پالیسی واضح تھی، وہی رہی۔ اس لئے دو تین چیزوںکے بارے میں رائے واضح بنا لینی چاہیے۔ افغان طالبان ایک علیحدہ حیثیت کے حامل تھے اور ہیں۔ ان کے ساتھ پاکستان کا معاملہ فرینڈلی رہا اور انشاء اللہ مستقبل میں بھی اچھا ہی رہے گا۔ آپریشن سے قبل امن مذاکرات کے ذریعے ٹی ٹی پی کے جو گروپ امن چاہتے تھے، انہیں موقع دیا گیا، عصمت اللہ معاویہ جیسے لوگ الگ ہوگئے۔القاعدہ کا پاکستان میںکوئی مستقبل نہیں، یہ اب مڈل ایسٹ کی طرف سرگرم رہے گی۔ ٹی ٹی پی نے القاعدہ کے کہنے اور اپنے دیگر مفادات کی وجہ سے، جس میں غیرملکی فنڈنگ کا معاملہ بھی شامل ہوسکتا ہے، انہوں نے پاکستانی ریاست کے خلاف محاذ جنگ کھولا، جواب میں آپریشن ضرب عضب کے ذریعے ان کا نیٹ ورک توڑا گیا اور جب تک یہ ختم نہیں ہوجاتے، ان کے خلاف آپریشن جاری رہے گا۔ان کی کہانی تمام ہوتی نظر آ رہی ہے۔ افغان طالبان البتہ زمین سے جڑی ہوئی حقیقت ہیں، ان میں ملا عمرکے بعدکیا چل رہا ہے، اس پرکسی اور نشست میں تفصیلی بات ہوگی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں