مسخ ہوتی تاریخ ‘ ایک متبادل بیانیہ

ہمارے ہاں لبرل، سیکولر حلقوں کی جانب سے کچھ عرصے بعد ایک نہ ایک فکری تحریک چلائی جاتی یا اس کی کوشش کی جاتی ہے۔ قرارداد مقاصد اور پاکستان کے اسلامی ریاست ہونے کی بات تو ایک مستقل ہدف ہے ہی، لیکن مختلف زاویوں سے یلغار جاری رہتی ہے۔ ہمارے ہاں سکولوں میں مطالعہ پاکستان کی درسی کتابوں میں جو مضامین شامل ہیں، وہ کئی این جی اوز کا پسندیدہ ہدف ہیں۔ اکثر یہ بات دہرائی جاتی ہے کہ پاکستانی بچوں کو مسخ تاریخ پڑھائی جا رہی ہے، درسی کتابوں میں یکطرفہ نقطہ نظر پیش کیا جاتا ہے، برصغیر کی تحریک آزادی کے دیگر ہیروز (مراد نیشنلسٹ تحریکوں کے سرکردہ افراد)کو جگہ نہیں دی گئی، بھگت سنگھ کو نظر انداز کیا گیا وغیرہ وغیرہ۔ ادھر دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ عام تصور کے برعکس ہمارے ہاں مذہبی نقطہ نظر رکھنے والے لوگ‘ جنہیں پولیٹیکل اصطلاح کے مطابق رائیٹ ونگ کے لوگ یا اسلامسٹ کہہ دیا جاتا ہے‘ فکری طور پر ترجمانی سے محروم ہو چکے ہیں۔ رائیٹ ونگ کی سب سے معروف اور متحرک پارٹی جماعت اسلامی تھی، بدقسمتی سے وہ نظریاتی پہلو نظر انداز کر کے صرف سیاست کی پُرپیچ وادیوں میں کھو چکی ہے۔ رہے دینی مدارس تو ان کا حلقہ محدود اور ان کے رسائل و اخبار تک عام قارئین کی رسائی نہیں ۔ لے دے کر جو اکا دکا آوازیں مین سٹریم میڈیا میں اسلامسٹوں کے حق میں اٹھتی ہیں، اس میں بڑا عنصر شدت پسند انتہائی دائیں بازو کی فکر کا ہے‘ جو ایک خاص سطح پر جا کر داعش، القاعدہ وغیرہ کی سوچ سے جا ملتی ہے۔ یوں رائیٹ ونگ کا دفاع یا ان کے نقطہ نظر کو بیان کرتا بیانیہ کم کم ہی ملتا ہے۔ دینی ذوق رکھنے والے پُرجوش نوجوانوں کی جانب سے جو کچھ شائع ہوتا ہے، وہ اس قدر یک رُخا، دلائل سے عاری اور جذباتیت میں بھرا ہوا ہوتا ہے کہ عام قاری کے لئے اسے پڑھنا ہی دوبھر ہو جاتا ہے۔ 
تاریخ کے مبینہ مسخ ہونے کے الزام اور درسی کتب میں قومی نقطہ نظر پیش کرنے کے جواز کے حوالے سے تجزیہ کار اور دانشور ڈاکٹر عاصم اللہ بخش نے ایک دلچسپ اور فکر افروز تجزیہ پیش کیا ہے۔ اسے ''متبادل بیانیہ‘‘ کے حوالے سے جاری بحثوں کا حصہ سمجھ لینا چاہیے۔ آخر ضروری تو نہیں کہ یہ متبادل بیانیہ صرف ماڈریٹ یا سیکولر حلقوں کی جانب ہی سے آئے۔ ڈرے سہمے اور آواز سے محروم رائیٹ ونگ کی جانب سے بھی متبادل بیانیہ پیش کیا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر عاصم اللہ بخش لکھتے ہیں: ''سب سے پہلے یہ دیکھ لینا مناسب ہے کہ تاریخ ہے کیا، اس کا سکوپ کیا ہوتا ہے اور کیا اس کو مسخ کیا جا سکتا ہے۔ تاریخ محض واقعات، شخصیات یا مقامات سے متعلق کوئی دستاویز نہیں ہوتی۔ یہ تین بنیادی ستون تو ہیں، مگر ان کے ارد گرد بکھری چیزیں، حالات، فیصلے اور ان کے نتائج اور ان سب کو کوئی کس طرح لے رہا ہے، کیسے تجزیہ کر رہا ہے... یہ بھی تاریخ کا اہم ترین حصہ ہے اور یاد رہے کہ ان میں کوئی بات آفاقی سچائی نہیں ہوتی۔ تاریخ یہ ہے کہ کسی بھی قوم یا گروہ کے لیے ان تین موضوعات کی کیا اہمیت ہے، وہ ان کو کس زاویہ نظر سے دیکھتے ہیں اور پھر خود کو اس تمام سلسلہ میں کہاں Place کرتے ہیں۔
تاریخ دراصل ایک Perspective کا نام ہے۔ یعنی، ایک ہی واقعہ کو کس نے کیسا پایا۔ مثلاً لاہور میں 12 جولائی 2005ء کو بارش ہوئی۔ ڈیفنس میں مقیم ایک صاحب نے لکھا کہ شاندار موسم تھا اور بارش سے ہر شے نکھر گئی، ہم دوست اس موقع پر جمع تھے اور خوب لطف رہا۔ یہ ایک شاندار دن تھا۔ دوسری جانب ایک اور صاحب جو شمالی لاہور کی کسی کچی بستی کے مکین تھے، اسی دن ہونے والی بارش کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ ایک ہولناک دن تھا، شدید بارش میں میرے مکان کی چھت گر گئی، بارش کا پانی گھر کے اندر آ گیا اور میرا سارا سامان تباہ ہو گیا۔ کیا آپ کہیں گے کہ پہلے یا دوسرے راوی میں سے کسی نے تاریخ کو مسخ کر دیا؟ دونوں نے اس واقعہ کو اپنے حساب سے دیکھا، محسوس کیا اور اپنی یادداشت میں محفوظ کر لیا۔
تاریخ کے سلسلہ میں سب سے اہم اور دور رس بات یہ ہے کہ کوئی قوم اور گروہ تاریخ کے جاری عمل میں خود کو کہاں place کرتا ہے۔ جب ہم یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ہم اپنی تاریخ محمد بن قاسم سے کیوں شروع کرتے ہیں، اشوک یا اس سے پہلے سے کیوں نہیں جبکہ مصری تو فراعنہ کو بھی اپنے آباء میں شمار کرتے ہیں یا ایسا ہی اہل فارس، ایران، کے لیے بھی کہا جاتا ہے تو دراصل یہ خلط مبحث کا موضوع بن جاتا ہے، تقابل کا نہیں۔ مصری آج سے 
ہزاروں سال پہلے بھی مصری تھے اور یہی بات ایرانیوں کے لیے درست ہے۔ پاکستانی تو آج سے 70 سال پہلے تک پاکستانی نہیں تھے۔ پاکستان بنا تو وہ پاکستانی ہوئے۔ اب یہ دیکھنا ہو گا کہ پاکستان کیوں بنا اور اس کیوں کی تاویل کہاں سے شروع ہوتی ہے۔ پاکستان اپنی تاریخ میں اپنے وجود کی تاویل دیکھتا ہے اس لیے اسے محمد بن قاسم سے شروع کرتا ہے۔ اس سکیم میں اشوک یا کوئی اور فٹ نہیں ہوتا۔ ان کے وارث واہگہ کے اس پار ہیں۔ اگر خدانخواستہ پاکستان نہ رہے تو پھر اس کی مندرجہ بالا تاویل بھی جاتی رہے گی اور محمد بن قاسم کا ذکر پس منظر میں چلا جائے گا۔ پھر معاملہ جغرافیہ سے جڑ جائے گا اور اس جغرافیہ کی مشترک تاریخ سے۔ پاکستان کا قیام جغرافیائی بنیاد یا نسلی بنیاد کی دین نہیں تھا اور اسی لیے اس کی تاریخ اس نقطہ نظر کو سامنے لاتی ہے جس کی وجہ سے جغرافیہ میں تبدیلی آئی۔ اس ضمن میں کسی قسم کی شرمندگی یا معذرت خواہانہ رویہ کی ہرگز ضرورت نہیں۔
تاریخ ایک تعارف ہے ایک رائے ہے ایک پوزیشن ہے۔ آپ اسے ''مسخ‘‘ جیسے الفاظ سے موسوم نہیں کر سکتے؛ تاہم اگر آپ تاریخ کے طالب علم ہیں تو تواریخ کے تقابل کو اپنی عادت بنائیں تاکہ کسی قوم کی اپنے بارے رائے، اس کے عمل کی اس سے مطابقت اور اس کے حریفوں کی اس کے بارے رائے کو جان سکیں اور اس طرح انسانی سفر کی سمت اور اتار چڑھاؤ کا درست تجزیہ کر سکیں۔
یہاں یہ واضح رہے کہ ہمارے ہاں گریجوایٹ، پوسٹ گریجوایٹ اور سی ایس ایس وغیرہ کے لیول پر‘ جہاں تاریخ بطور ایک مضمون اور ہندو پاک تاریخ کے طور پڑھائی جاتی ہے وہاں، مختلف نقطہ نظر، تواریخ کا تقابل وغیرہ سب چیزیںکتابوں میں شامل ہیں؛ البتہ جب آپ اپنی قومی تاریخ کے متعلق بات کرتے ہیں تو اس میں دو باتیں ملحوظ رہتی ہیں: ایک یہ کہ اس میں affirmative کا بیان ہو یعنی کہ کون کون وہ تھا جو اس مقصد کے ساتھ چلا اور اس کو لے کر چلا۔ دوسری اہم چیز یہ کہ آپ کہاں سے اس کا آغاز دیکھتے ہیں۔
دنیا بھر میں years Formative میں پہلا پیغام بچے کو وہ دیا جاتا ہے‘ جو اس کی base کو مضبوط کرنے کے علاوہ بنیادی اصول اس کے ذہن میں راسخ کر دیتا ہے۔ یہی Affirmative بات ہے۔ اس کا تقابل اور اس میں شامل Complicating، پیچیدہ، متضاد نظریات، سازشی تھیوریز وغیرہ کا تذکرہ بہت بعد کی بات ہے۔ پھر پاکستان کی تاریخ کے لیے بھی یہ اصول لاگو کرنے میں کیا قباحت ہے؟
بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ جب تحریک پاکستان کا ذکر ہوا تو اس میں نیشنلسٹ مسلمانوں کی تنظیمیں جیسے مجلس احرار، خاکسار وغیرہ کا ذکر نہیں ہوتا۔ سادہ سا جوابی سوال یہ ہے کہ پاکستان کی جدوجہد میں ان کا کیا کردار تھا؟ اگر انڈین نیشنلزم پر مشتمل تحاریک کو شامل کرنا ہی ہے پھر تو کانگریس کو بھی شامل کر لیجیے۔ یہ بات اہم ہے، انتہائی اہم... کہ ہم یہ فرق ملحوظ رکھیں کہ قیامِ پاکستان کی تحریک نہ تو مجرد طور ہندوستان کی آزادی کی کوئی تحریک تھی اور نہ اس کا کوئی حصہ۔ یہ اس سے مختلف بات تھی۔ اسی لیے کامریڈ بھگت سنگھ اس کا حصہ نہیں‘‘۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں