مسخ ہوتی تاریخ‘ چند سوالات

سیاسی گرما گرمی چل رہی ہے، بعض ہلکے پھلکے موضوعات بھی ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ موضوعات کی یلغار ہوجائے اور انتخاب کر نا مشکل ہوجائے۔ سیاست میں گرمی آنے اور سیاسی تھیٹر پر تیزی سے بدلتے مناظر کے باوجود ہم آپ کو تاریخ کے قدرے مشکل موضوع پر جاری بحث میں لئے جارہے ہیں۔ اس امید کے ساتھ کہ قارئین جہاں اسی نوے فیصد سیاسی تجزیے اور تحریریں پڑھیں گے، وہاں ایک آدھ غیر سیاسی بحث بھی گوارا کر لی جائے گی۔ ہمارے رائٹ ونگ کے لوگوں کو خاص طور سے اس موضوع پر مطالعہ ،آپس میں ڈسکس کرنا اور اسے شیئر کرنا چاہیے کہ آنے والے دنوں میں ایسے اعتراضات اٹھتے رہیں گے، جن کا دفاع ہر صورت رائٹسٹوں یا اسلامسٹوں ہی کو کرنا ہوگا ۔
پاکستان کی قومی تاریخ کے حوالے سے ایک خاص حلقہ بعض سوالات اٹھاتا اور اعتراض کرتا ہے کہ ہمارے ہاں بچوں کو مسخ تاریخ پڑھائی جا رہی ہے۔ ہم نے پچھلی نشست (ہفتہ،29اگست کے کالم)میں اس پر تفصیل سے بات کی اور بتایا کہ یہ بات کیوں درست نہیں۔ بحث کا نچوڑ تھا،'' تاریخ دراصل ایک perspective(نقطہ نظر یا زاویہ نظر)کا نام ہے،تاریخ ایک تعارف ہے، رائے ہے ، پوزیشن ہے۔ آپ اسے مسخ جیسے الفاظ سے موسوم نہیں کر سکتے۔ واقعات، مقامات اور شخصیات تاریخ کے تین اہم ستون ہیں، مگر تاریخ صرف یہ نہیں، ان کے اردگرد بکھری چیزیں، حالات، فیصلے اور پھر ان کے نتائج بہت اہم ہیں اور ان سے بھی بڑھ کر یہ کہ کوئی انہیں کس نظر سے دیکھ رہا ہے، کیسے تجزیہ کر رہا ہے اور خود کو اس تمام سلسلہ میں کہاں فٹ (Place) کرتا ہے۔‘‘
''مسخ ہوتی تاریخ اور متبادل بیانیہ‘‘ کے نام سے شائع ہونے والے گزشتہ کالم کو سوشل میڈیا پر کئی دوستوں نے شیئر کیا۔ معروف صحافی اور تجزیہ کار برادرم عامر رانا نے بھی اپنی وال پر اس کے ایک حصے کو شیئر کیا۔اس پر مختلف لوگوں نے کمنٹس کئے ، جن میں ممتاز دانشور اورسینئر صحافی جناب خالدا حمد نے بھی ایک مختصر تبصرہ کیا ،'' مذہب تقسیم کرتا ہے، اس لئے اسے صرف ذاتی حد تک مخصوص رہنا چاہیے، پاکستان ایک مثالی کیس ہے، کہ کیوں مذہب کو قومی شناخت کی بنیاد نہیں ہونا چاہیے۔‘‘یہ بات درست نہیں ۔ پاکستان جغرافیائی یا نسلی بنیاد پر الگ نہیں ہوا، مذہب اور اس مذہب کی وجہ سے ہندوستان کی اکثریتی آبادی (ہندو)سے اس کے بنیادی معاملات میں تضادات اور اختلاف ہی موجودہ پاکستان کے قیام کی دلیل اور وجہ تھی اور ہے۔اس لئے مذہب پاکستانی تاریخ کا بنیادی حوالہ رہے گا،البتہ پاکستان کی موجودہ خرابیوں کو جواز بنا کر مذہب کو مورد الزام ٹھہرانا انصاف نہیں۔ جیسے مسلمانوں کی اخلاقی صورتحال دیکھ کر اسلام کے بارے میں فیصلہ نہیں کیا جا سکتا، اسی طرح پاکستان کی روبہ زوال پوزیشن کو دیکھ کر قیام پاکستان کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں سنایا جا نا چاہیے۔ 
بعض دوستوں نے یہ اعتراض اٹھایا کہ پھر کیا ہم اپنی پرانی تاریخ ہڑپہ اور موئن جودڑو وغیرہ کو بھول جائیں۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ موئن جو دڑو، ہڑپہ کو بھول جائو یا پھر اس خطے کی پرانی تاریخ کو نہ پڑھا جائے یا وہ کتابیں جلا دی جائیں۔ ہم نے تو صرف وہ وجہ بتائی ہے کہ ہمارے نصاب اور سکولوں میں پڑھائی جانے والے کتابوں میں قومی پس منظر سے تاریخ پڑھانا درست اور قابل فہم ہے۔ ظاہر ہے ہمیں اپنے بچوں کو ریاست پاکستان کے قیام کے بنیادی سبب سے آگاہ اور باخبر رکھنا پڑے گا۔ تاریخ کے باہمی تضادات، مختلف نقطہ نظر اور تقابلی جائزے‘ جنہیں وہ بعد میں کچھ میچور ہونے کے بعد پڑھ سکتے ہیں اور(خواہ ہم مشورہ دیں یا نہ دیں )دلچسپی رکھنے والے یہ سب پڑھتے رہتے ہیں۔ بچپن میں لیکن طلبہ کو کنفیوز نہیں کیا جاتا، کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا۔ ہمارے نصاب میں ہیروز قائداعظم ، اقبال اور تحریک پاکستان کے رہنما ہی ہوں گے۔ گاندھی، نہرو ، بھگت سنگھ، سبھاش چندر بوس کے سیاسی وارث سرحد کی دوسری طرف ہیں۔
رہی مسلم نیشنلسٹ لیڈروں جیسے کانگریس کے مولانا آزاد،جمعیت علما ء ہند کے علامہ حسین احمد مدنی اور احرار کے عطااللہ شاہ بخاری یا خاکسار کے علامہ مشرقی‘ ان صاحبان کا ایک علمی چہرہ ہے، اس کا ہر کوئی احترام کرتا ہے۔ کون کم بخت ہوگا جو مولانا آزاد کی سحرا نگیز نثر کا اسیر نہیں ہوگا یا ان کے الہلال والے شاندار علمی مضامین نے دل میں گھر نہیں کیا ہوگا۔ اسی طرح حضرت مدنی کا بے پناہ علمی احترام ہے، وہ بڑے عالم دین، نیک اور صاحب عرفان بزرگ تھے، یہی بات حضرت بخاری صاحب، احرار کے دوسرے بزرگوں اور علامہ عنایت اللہ مشرقی کے بارے میں کہی جاسکتی ہے۔ ان تمام حضرات کا مگر ایک سیاسی چہرہ اور موقف بھی ہے۔ تحریک پاکستان کے حوالے سے انہوںنے مخالفانہ موقف اپنایا،برصغیر کے مسلمانوں ، خاص کر مسلم اکثریتی علاقوں کی مسلمان آبادی نے وہ موقف مسترد کر دیا ۔تاریخ کا فیصلہ بھی ان کے خلاف گیا۔ پاکستان کا وجود عمل میں آیا۔ جب پاکستان کی قومی تاریخ کی بات ہوگی تو یہ سب رہنما اس کا اس طرح حصہ نہیں ہوں گے۔ ان سب کا مگراحترام کرنا اور ان کے حوالے سے شائستہ زبان استعمال کرنی چاہیے۔
یہ بات بھی واضح رہے کہ علمی تہذیبی روایت، خطابت ، اردو زبان میں کنٹری بیوشن کی بات ہوگی تومولانا آزاد صف اول کی مسند پر براجمان ہوں گے، تحریک اور تاریخ پاکستان میں مگر وہ ایک بھارتی مسلمان اور کانگریسی رہنما کے طور پر پہچانے جائیں گے۔خاکسار، بخاری صاحب اور احراریوں کا معاملہ البتہ دوسرا ہے، تحریک پاکستان میں وہ رانگ سائیڈ آف ہسٹری پر تھے۔ سید مودودی اور جماعت اسلامی کو بھی اسی زمرے میں لیاجائے ، ان کا نام اوپر ہی لکھنا چاہیے تھا۔ پاکستانی تاریخ میں ان سب کا البتہ بڑا اہم حصہ ہے، انہوں نے اپنی پوری قوت قومی وحدت اور مسلم معاشرہ کی تشکیل کے لئے کھپا دی۔اللہ ان سب کو جزائے خیر دے۔ 
آخر میں ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کے تاریخ کے حوالے سے تجزیہ کے دو پیراگراف جو پچھلے کالم میں جگہ کی کمی کے باعث شائع نہیں ہوسکے، ان میںپچھلے کالم پر اٹھنے والے بعض اعتراضات کاجواب بھی موجود ہے۔ڈاکٹر عاصم لکھتے ہیں:'' ایک عام اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ تاریخ ''غیر جانبدار‘‘ ہوتی ہے ورنہ تو یہ پروپیگنڈا ہو جائے گا۔عرض یہ ہے کہ دنیا میں تاریخ کے حوالہ سے کونسی دستاویز ایسی ہے جسے آپ غیر جانبدار کہتے ہیں یا کہہ سکتے ہیں ؟ کوئی ہے تو بتائیے۔ تاریخ ایک رائے" کا نام ہے اور جس تاریخ کو آپ آج غیرجانبدار تاریخ کہہ رہے ہیں وہ بھی ایک پرسپیکٹو (perspective)یعنی نقطہ نظر ہی ہے۔ خواہ وہ کرام ویل سے متعلق ہو، نیپولین یا پھر ہٹلر... ان سب پر ایک نقطہ نظر ہے جو ہم سب پڑھتے ہیں۔ جسے ہم غیر جانبدار کہتے ہیں دراصل وہ ایک ایسا ''مقتدر ورژن‘‘ ہے جسے ماننے والے اسے منوانے کی قدرت بھی رکھتے ہیں۔ اگر سچ میں کسی غیر جانبدار Criteria سے تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ سب پروپیگنڈا ہی ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ یہ عرب اور عجم کا معاملہ نہیں۔ اسلام کے بحیثیت ایک سیاسی حقیقت برصغیر میں آمد اور پھر اس کا تسلسل اس کی بنیاد ہے۔ اس میں محمد بن قاسم کا تذکرہ بھی ہے تو سلاطین دہلی کا بھی، اور مغلوں کا بھی۔ یہ حضرات عربی النسل نہیں تھے۔ ان میں ضرور لٹیرے بھی رہے ہوں گے لیکن وہ تخت دہلی کے باقاعدہ حکمران بھی رہے۔ جہاں تک لٹیرے ہونے کی بات ہے تو مرہٹے، سکھ اور انگریز بر صغیر میں جو ''بے غرضی‘‘ اور'' انسان دوستی‘‘ کی'' داستانیں ‘‘رقم کرتے رہے وہ بھی ہمارے سامنے ہیں۔
''ایک اہم اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ پاکستانی اقلیتوں کو بھی کیا یہی تاریخ پڑھنا پڑے گی، یعنی وہ پاکستانی بچے جو اکثریتی نظریہ نہیں رکھتے انہیں بھی اسی روشنی میں اپنی تاریخ کو دیکھنا پڑتا ہے۔ پاکستان کو چھوڑ دیجیے۔ دنیا میں کونسی ایسی جگہ ہے ہاں پر اکثریتی نقطہ نظر سے ہٹ کر معاملات کیے جاتے ہیں؟ برطانیہ میں ؟ امریکہ ؟ بھارت ؟ روس ؟اس لئے پاکستان جیسے 95فی صد مسلمان آبادی والے ملک کو اس ضمن میں باقی سب کے مقابلے کم پریشانی کی ضرورت ہونا چاہیے۔البتہ قومی تاریخ کا یہ پہلو کسی طور بھی کسی دوسرے پاکستانی کے شہری حقوق میں کمی یا کسی دوسرے ظلم اور تعصب کی بنیاد ہرگز نہیں بن سکتا۔ اس بارے بابائے قوم کی ہدایت واضح ہے۔‘‘

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں