مسخ ہوتی تاریخ ‘ چند وضاحتیں

پاکستان کی درسی کتابوں میں جس طرح سے مطالعہ پاکستان کا مضمون شامل کیا گیا اور اس میں تحریک پاکستان و تاریخ پاکستان کے حوالے سے جو قومی نصاب پڑھایا جاتا ہے، اس پر ہمارے ہاں لبرل سیکولر حلقوں کی جانب سے تنقید کی جاتی ہے۔ یاد رہے کہ میں ان کے لئے روشن خیال حلقے کی اصطلاح استعمال نہیں کر رہا کہ روشن خیالی سیکولرز یا لبرلز کی میراث نہیں،اسلامسٹ بھی اتنے ہی روشن خیال ہوسکتے ہیں، اسی طرح تنگ نظری اور ہٹ دھرمی کو کسی خاص حلقے سے موسوم نہیں کیا جا سکتا۔ویسے بھی پاکستانی لبرلز میںسے بیشتر مبینہ لبرلز ہی ہیں، دعویٰ ہی لبرل ازم کا کرتے ہیں ، ورنہ اکثر کا رویہ اتنا ہی بے لچک، متعصب اورتنگ نظری پر مبنی ہے، جتنا کسی شدت پسند مولوی کا ہوسکتاہے۔بات قومی نصاب کی ہورہی تھی۔ ہمارے سیکولر دوستوں کا خیال بلکہ مسلسل اصرار ہے کہ پاکستان میں تاریخ کو مسخ کیا جارہا ہے۔چند دن پہلے اس حوالے سے خاکسار نے دو کالم لکھے، جس میں دانشور اور تجزیہ کار ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کا تجزیہ بھی پیش کیا ،جس کے مطابق تاریخ ایک پرسپیکٹویعنی زاویہ نظر، تعارف اور پوزیشن بھی ہے۔ ہر ملک میں اس کے قومی تناظر کو سامنے رکھ کر ہی قومی بیانیہ کے مطابق بچوں کو تعلیم دی جاتی اور ایسا کرنا درست بھی ہے۔ان کالموں کے حوالے سے ملا جلا ردعمل آیا۔ بہت سوں کو یہ مسرت ہوئی کہ کسی نے تو رائیٹ ونگ کا کیس لڑنے کی کوشش کی، کچھ کو یہ اچھا لگا کہ اخبار کے ادارتی صفحات پر فکری بحث شروع ہونا خوش آئند ہے، بعض دوستوں کو محسوس ہوا کہ یہ یک رخی تاریخ کو پروموٹ کرنے کی کوشش ہے۔ دانشور، کالم نگاراور میرے محترم دوست وجاہت مسعود نے بھی اس حوالے سے اپنی مخصوص فصیح وبلیغ نثرمیںکچھ سوالات اٹھائے،سوشل میڈیا پر بھی خاصی بحث چلتی رہی۔ بعض سوالات سامنے آئے ہیں، ان کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر پیش کررہا ہوں۔ میرا یقین ہے کہ قارئین کے سامنے اپنا موقف دلیل کے ساتھ رکھ دینا چاہیے،آخری تجزیے میں جیت اسی کی ہوتی ہے۔
ایک اعتراض یہ کیا گیا کہ آپ ایک خاص نقطہ نظر بچوں کو پڑھانے کی بات کر کے دراصل تاریخ پر اجارہ داری قائم کر رہے ہیں۔عرض یہ ہے کہ تاریخ میں اجارہ داری قائم کرنے کا لیبل تو ہر ایک پر چسپاں کیا جا سکتا ہے۔ تاریخ میں اجارہ داری بہرحال ہوتی ہے کہ آپ کو Prevailing نقطہ نظر ہی بتانا ہوتا ہے۔ نصاب میں ایک ہی نقطہ نظرپڑھایا جائے گا،سکولوںمیں پرائمری کے بچوں کو متضاد نقطہ نظر تو نہیں بتائے جا سکتے ۔ ایک حلقہ پاکستان کی تاریخ کو اسلامی بنیادوں سے جوڑتا ہے، محمد بن قاسم کو برصغیر میں اسلامی تاریخ کے اولین بنیادی لوگوں میں شمارکر تا اور اس کے لئے ایک خاص جگہ مختص کرتا ہے۔ دوسرا حلقہ تاریخ کو سیکولر روٹس سے جوڑتا اور سیکولر نقطہ نظر سے واقعات کو دیکھتا ہے۔ یہ سیکولر پرسپیکٹوپہلے والے مسلم تاریخی تناظر سے یکسر مختلف بلکہ متضاد ہے۔ اگر سیکولرنقطہ نظر سکولوں میں شامل کیا جائے تو یہ بھی اجارہ داری ہی ہے،دوسری طرح کی اجارہ داری۔
ایک بات یہ بھی کہی گئی کہ ہندوستان کی آزادی کی تحریک اور تحریک پاکستان دونوں باہم متصادم نہیں ہیں۔اس کے جواب میں کیا عرض کیا جائے؟ حیرت ہے کہ اتنی سادہ بات سمجھ نہیں آ رہی۔ قیام پاکستان اور انڈین نیشنلسٹ تحریک ایک دوسرے سے انتہائی مختلف اور متضاد تھے۔ ظاہر ہے ایک کہتے تھے کہ انگریز چلے جائیں اور پیچھے متحدہ ہندوستان چھوڑ جائیں، دوسرے یعنی مسلم لیگ والے کہتے تھے کہ انگریز جائیں ،مگر جانے سے پہلے پیچھے کا معاملہ نمٹا کرجائیں۔ ہم مسلمان ہیں ، ہم ہندوئوں کے ساتھ نہیں رہ سکتے، ہماراکلچر، نظریہ، سوچ، مفادات حتیٰ کہ ہیرو اور ولن تک ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ اس لئے جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں، وہ علاقے تو مجبوری ہے، الگ نہیں ہوسکتے، مگر جہاں اکثریتی مسلم علاقے ہیں، ان پر مشتمل الگ ملک بنایا جائے۔ اس الگ ملک کا نام پاکستان تجویز کیا گیا۔دوسری طرف انڈین نیشنلسٹ جماعتیں تھیں، کانگریس، جمعیت علمائے ہند، احرار وغیرہ ... ان کا تمام تر کیس ہی مسلم لیگ کے خلاف تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہندوستان کو متحد رہنا چاہیے، مسلمانوں کا مفاد الگ رہنے میں نہیں ہے،مسلم لیگ والے غلطی کر رہے ہیں، مسلمانوں کو دھوکہ دے رہے ہیں، ان کا جذباتی استحصال کر رہے ہیں، پاکستان کا نام اور اصطلاح ہی غلط ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس پس منظر میںجب پاکستان الگ بنا، تو ظاہر ہے اس کے ہیرو مسلم لیگی رہنما ہی ہوں گے،جنہوںنے پاکستان کے مطالبہ کو آگے بڑھایا، اس کیلئے جدوجہد کی، قربانیاں دیں۔جو قیام پاکستان کے مخالف تھے، وہ پاکستان کے یا پاکستانیوں کے ہیروز کیوں کر ہوسکتے ہیں؟ مولانا آزاد، علامہ مدنی ، ڈاکٹر کچلو، ذاکر حسین وغیرہ کے ساتھ یہی کچھ ہوا۔یہ بات البتہ ماننی پڑے گی کہ ریاست پاکستان نے ان رہنمائوں کے خلاف کوئی بیانیہ بھی نہیں دیا ، ان کے حوالے سے ہمارے ہاں نصاب میں خاموشی ہے، ایک باوقار خاموشی۔ ایسا ہی ہونا چاہیے،مگر انہیںگلوریفائی بھی نہیں کیا جا سکتا۔ کسی کو خواہ جتنا برا لگے،مگر بھگت سنگھ ہمارا ہیرو نہیںہوسکتا، آزاد ہندوستان کیلئے وہ کچھ کر رہا ہو،لیکن اس کا پاکستان سے کیا تعلق؟اس کے وارث واہگہ کے پار ہیں۔
پاکستان کا قومی نصاب اقلیتوں کو پڑھانے کا اعتراض بھی اٹھایا گیا۔ ہمارے سیکولر دوست اچھی طرح جانتے ہیں کہ برطانیہ میں خواہ لاکھوں پاکستانی رہتے ہوں، ان کے بچوں کو سکولوں میں انگلش تاریخ ہی پڑھائی جائے گی ، وہی پرسپیکٹو جو برطانوی ہے، ایساہی امریکہ میں ہے۔ جرمنی میںلاکھوں ترک ہیں، مگر وہ کبھی یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہمیں جرمنی کے سکولوں میں جرمن ہسٹری کے بجائے ، جرمن پرسپیکٹو کے بجائے ترک تاریخ اور ترک پرسپیکٹو پڑھایا جائے۔ پاکستان میں جو پانچ فیصد اقلیتیں ہیں، جب وہ پاکستان میں رہتے ہیں تو ظاہر ہے انہیںپاکستانی تاریخ ، پاکستانی پرسپیکٹو ہی پڑھنا ہوگا۔ اس میں کوئی ظلم یا برائی نہیں۔ وہ پاکستانی بچے ہیں، دوسرے مسلم پاکستانی بچوں کے ساتھ ہم آہنگ رکھنے کے لئے انہیں ایک ہی ہسٹری پڑھنی ہوگی۔ ہاں ان کے لئے اسلامیات کے بجائے اخلاقیات کا سبجیکٹ پڑھایا جاتا ہے، انہیں اپنے مذہبی عقائد رکھنے سے کوئی نہیں روک رہا۔ ہندوستان میں بیس فیصد مسلمان ہیں،مگر سکولوں میں انہیں بندے ماترم ہی پڑھنا پڑھتا ہے۔ یہ ایک سادہ حقیقت ہے۔
جہاںتک اس علاقے میں رہنے والے مقامی ہیروز اور قدیم تاریخ کا تعلق ہے‘ اس سے انکار کوئی نہیں کر رہا۔ جب برصغیر کی غیر مسلم تاریخ کی بات آتی ہے تو آشوکا، چندرگپت وغیرہ کا حوالہ ضرور آئے گا، تعارف کی حد تک ،ہمارے ٹیکسٹ بک بورڈز کی پرائمری کتابوں میںبھی ان کا تعارف شامل ہے،موئنجودڑو اور ہڑپہ ہماری تاریخ کے قدیم باب ہیں، ان سے کون انکار کر رہا ہے۔ ان سب کو مگر اتنی ہی جگہ ملے گی، جتنا ان کا حق ہے۔ پاکستان ایک پچانوے فیصد مسلم آبادی والا ملک ہے، اس کا قیام ایک واضح نعرے اور نظریے کی بنیاد پر وجود میں آیا۔پاکستان جغرافیے کی بنیاد پرالگ نہیںہوا، نسلی یا لسانی شناخت بھی اس کے پیچھے نہیں تھی۔ تقسیم سے پہلے کے پنجاب میںکو ن سا فیکٹر مسلمانوں اور سکھوں یا پنجابی ہندئوں کو تقسیم کرتا تھا؟ دونوں طرف ایک ہی زبان، ایک ہی طرز زندگی، وہی کھانے،وہی ملبوسات،شادی بیاہ کے گیت، وہی کاشت کاری، ذاتیں اور قومیں بھی ملتی جلتی، راجپوت، جاٹ ، گجر وغیرہ‘ صرف مذہب ہی انہیں مسلمان یا سکھ کے الگ الگ خانوں میں تقسیم کرتا تھا ۔امرتسر کے کسی جاٹ، راجپوت اور لاہور ، قصور،سرگودھا وغیرہ کے جاٹوں، راجپوتوں کو مذہب ہی الگ الگ کرتا ہے۔ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ مذہب ہی پاکستان بننے کی وجہ تھا۔ ایک وعدہ تھا، نعرہ تھا کہ الگ وطن چاہیے، جہاں ہم اپنی مرضی، اپنی آزادی سے اپنے مسلم کلچر، مذہب، روایات کے مطابق جی سکیں، زندگیاں بسر کر سکیں۔اسے نظریہ پاکستان کہہ لیں، منشور پاکستان یا ایجنڈا کہہ لیں ۔ 
یہ بھی غلط ہے کہ نظریہ پاکستان کی اصطلاح 1970ء میں جنرل شیر علی خان نے تراشی۔ملک الگ ہوا، نیشن سٹیٹ (قومی ریاست) بنا تو کوئی وجہ تو تھی، وہ وجہ ظاہر ہے چھپی ہوئی نہیں، کئی برسوں پر مشتمل تحریک پاکستان ہے۔ مسلم لیگ نے اتنے جلسے کئے، سالانہ کانفرنسیں کیں، قراردادیں منظور کیں، سب کچھ ریکارڈ پر موجود ہے۔ قائداعظم نے قیام پاکستان سے پہلے اپنے بیانات، تقریروں اور انٹرویوز میں تقریباً سو بار یہ کہا کہ الگ وطن ہم اس لئے لے رہے ہیں کہ ایک مثالی اسلامی ریاست بنا سکیں، پاکستان بننے کے بعد کوئی گیارہ بار انہوں نے اسلامی نظام کی بات کی۔ ہمارے سیکولر دوستوں کو قائداعظم کے اتنے برسوں کے کیریر میں صرف گیارہ اگست کی تقریر یاد ہے ، گویا اس سے پہلے انہوں نے کبھی کچھ نہیں کہا اور نہ اس کے بعد کبھی لب کشائی کی؟یارو جو مرضی نقطہ نظر رکھو، مگر حقائق کو مسخ تو نہ کرو۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں