دوست نہیں مخالف

پشاور ایئر بیس پر دہشت گردوں کے حملے کے حوالے سے کچھ لکھنا چاہتا تھا۔ اب بھی لکھنا چاہتا ہوں، مگر بھارت کی جانب سے جارحیت کا معاملہ ابھی چل رہا ہے۔ پاک بھارت تعلقات کے حوالے اور ایک بھارتی وزیر کی جانب سے کنٹرول لائن پر پہلی گولی نہ چلانے کے معاہدے کی پیش کش پر ایک بحث شروع ہوئی تھی، پہلے اسے مکمل کرنا چاہتا ہوں۔ کئی بار ایسا ہوا کہ وعدہ کیا کہ اگلی نشست میں کسی موضوع پر لکھوں گا، مگر کوئی نہ کوئی ایسا بڑا واقعہ ہوگیا کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اس پر لکھنا پڑ گیا۔ اس بار مگر پہلے پاک بھارت تعلقات والے ایشو پر اپنا نقطہ نظر تفصیل سے بیان کرنا چاہتا ہوں۔
پاکستان بھارت تعلقات کے حوالے سے دوانتہائی موقف ہمارے ہاں پائے جاتے ہیں۔ دوسرے بہت سے معاملات کی طرح اس حوالے سے بھی اعتدال اور درمیان کا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ بھارت کے حوالے سے ایک بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ وہ ہمارا دوست ملک نہیں، شاید کبھی بن بھی نہیں سکتا۔ وہ ہمارا مخالف یا حریف (Rival) ہی رہے گا، کبھی حلیف نہیں بن سکے گا۔ اس کی ایک سے زیادہ نفسیاتی اور عملی وجوہ ہیں۔
سب سے پہلے ایک وضاحت مشرقی پاکستان کے حوالے سے کرتا چلوں۔ ہمارے ایک عزیز دوست اور منفرد کالم نگار نے اپنے ایک پچھلے کالم میں لکھا: ''اندرا گاندھی نے مشرقی پاکستان پر اس لئے حملہ کیا کہ بھارت پر مشرقی پاکستان سے جانے والے لاکھوں بنگالی پناہ گزینوں کا بوجھ بڑھتا جا رہا تھا‘‘۔ کسی ملک سے اگر مہاجرین پڑوسی ملک میں چلے جائیں تو پھر اسے حملہ کرنے کا جواز کیسے مل سکتا ہے؟ کوئی ملک اپنی جارحیت کی یہ وجہ بیان کرے گا تو اسے اردو محاورے میں یہی جواب ملے گا کہ ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ۔ ویسے یہ بات تاریخی اعتبار سے غلط ہے۔ فیلڈ مارشل مانک شاہ جو مشرقی پاکستان پر حملے کے وقت بھارتی فوج کے سربراہ تھے، انہوں نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ جب مارچ اکہتر میں پاکستانی فوج نے ڈھاکہ اور مشرقی پاکستان کے دوسرے شہروں میں آپریشن کیا تو اگلے روز اندرا گاندھی نے مجھے بلایا اور کہا کہ اس آپریشن کے بعد اب مشرقی پاکستان میں عوامی رائے عامہ فوجی حکومت کے شدید خلاف ہوجائے گی، اس لئے ہمیں فوری طور پر حملہ کر دینا چاہیے۔ مانک شاہ کے بقول اس نے وزیراعظم اندرا کو کہا: ''اگر اس وقت ہم حملہ کر دیں تو ہمیں شکست ہوجائے گی۔ آپ ہمیں چھ ماہ دیں، جس میں ہم ٹینک، گاڑیاں وغیرہ مرمت کرا لیں، دوسری تیاریاں مکمل کر لیں۔ چنانچہ چھ ماہ بعد ہی حملہ ہوا۔ سوال مگر یہ ہے کہ فوجی آپریشن کے اگلے روز ہی اندرا گاندھی نے حملہ کرنے کا کیوںکہا؟ پناہ گزینوںکا مفروضہ بوجھ تو ابھی پڑا ہی نہیں تھا۔ اگلا سوال جو اس سے بھی زیادہ اہم ہے، وہ یہ کہ آخر آپریشن کرنے کی ضرورت کیوں پڑی؟ صرف شیخ مجیب کی سیاسی جماعت کا معاملہ ہوتا تو اس کے لئے چند سپاہی کافی تھے۔کیا اندرا گاندھی واقعتاً اتنی بھولی بھالی تھی اور وہ مسکین جاکر امریکی صدر کی منت ترلے کرتی رہی کہ خدا کے لئے پاکستان کو سمجھا لیں، وہ مشرقی پاکستان کے لوگوں کے ساتھ معاملات طے کر لے، ورنہ مجھے مجبوراً حملہ کرنا پڑے گا۔ ایسی بات تھی تو بھارت نے حملہ کرنے سے ڈیڑ ھ دو سال پہلے سے مکتی باہنی کیوں بنوائی؟ ان کی فنڈنگ کی، ان کے لڑکوںکو بھارت بلا کر گوریلا ٹریننگ کرائی، آخر کیوں؟ یہ تو وہ باتیں ہیں جو اب راز نہیں رہیں۔ شیخ مجیب کے اپنے ساتھی اور مکتی باہنی کے سابق کمانڈر خود انٹرویوز اور کتابوں میں یہ کہہ اور لکھ چکے ہیں۔ ویسے تو یہ بھی تاریخی اعتبار سے غلط ہے کہ نوے ہزار فوج تھی۔ ممتاز بھارتی مورخ شرمیلا بوس نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ چونتیس ہزار فوج تھی، باقی ریزرو دستے، پولیس وغیرہ تھی۔ نوے ہزار فوج کی بات شیخ مجیب نے کہی بلکہ اس سے کہلوائی گئی اور پھر یہ بات مشہور ہوگئی۔ میں قطعی طور پر یہ نہیں کہہ رہا کہ مشرقی پاکستان کے حوالے سے ہم نے کوئی غلطی نہیںکی۔ ہم سے پہاڑ جیسی غلطیاں ہوئیں۔ جنرل یحییٰ خان کی حکومت نے بھی بلنڈر کئے، مگر ان کی ابتدا بہت پہلے سے ہوگئی تھی۔ جنرل ایوب پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، مغربی پاکستان کی اشرافیہ اور سول وملٹری اسٹیبلشمنٹ سقوط پاکستان کی مجرم اور ذمہ دار ہے۔ انہوںنے بنگالیوں کا استحصال کیا، ان کے حقوق انہیں نہیں دیئے اور پھر بگڑے معاملات کو بر وقت درست نہیں کیا۔ یہ سب اپنی جگہ، مگر یہ بھی اتنی ہی بڑی حقیقت ہے کہ اگر بھارت کھلی بلکہ ننگی مداخلت نہ کرتا، مکتی باہنی جیسی گوریلا تنظیمیں نہ بناتا اور پھر آخر میں پوری قوت کے ساتھ حملہ نہ کرتا تو مشرقی پاکستان یوں الگ نہ ہوتا۔ بھارت کے ساتھ دوستی یا جنگ نہ کرنے کے معاہدے کی وکالت کرنے میں کوئی حرج نہیں، مگر یہ کہنا غلط ہے کہ بھارت ہمارا دشمن نہیں تھا اور اس نے ہمیں نقصان نہیں پہنچایا یا مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں اس نے مجبوراً اپنا حصہ ڈالا۔ ایسا کہنا حقائق کے منافی اورغلط ہے۔ 
میرے خیال میں بھارت ہمارا دوست یا حلیف ملک قطعی طور پر نہیں بن سکتا، ہاں اس کا درجہ دشمن سے کسی حد تک کم ہوکر ایک مخالف ملک کا ہو سکتا ہے، جس کے ساتھ تعلقات بہتر ہوجائیں اور کشیدگی نہ ہو۔ تعلقات نارمل کرنے کی ضرور کوشش کرنی چاہیے، اس وقت ویسے بھی ہم جنگ کے متحمل نہیں ہوسکتے، مگر ہمیں بھارت کی جانب سے ہمیشہ ہوشیار اور مستعد رہنا ہوگا۔ اس کی دو تین وجوہ ہیں۔
پاکستان کا ہندوستان (یونین آف انڈیا)سے الگ ہونا ہندو یا ہندوستانی مائنڈ سیٹ کے لئے ایک بڑا دھچکا تھا، یہ اسے کبھی نہیں بھلا سکتے۔ درحقیقت یہ علیحدگی ان کی نفسیات کا حصہ بن چکی ہے۔ روایتی ہندو ذہن یہ سوچتا ہے کہ مسلمانوں نے کئی صدیاں ان پر حکومت کی اور اب جب جمہوری دورآیا اور اکثریت کی بنا پر انہیں حکمران بننے کا موقع ملا تو انہوںنے اپنا الگ ملک بنا لیا۔ دوسرے، ہندوستان تاریخی طور پر ہزاروں سال تک اکٹھا رہا، اگرچہ مستحکم مرکزی حکومتیں بہت زیادہ نہیں رہیں اور مختلف راجے مہاراجے اپنی الگ الگ ریاستیں بنائے حکومتیں چلاتے رہے۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کی صورت میں علیحدگی سے ہندوستان کے ٹکڑے ہوجانا شدت پسند ہندو ذہن کے لئے سوہان روح تھے اور ہیں۔ بھارت میں یہ سوچ بھی عام ہے کہ پاکستان کے مضبوط اور طاقتور ہونے سے بھارت میں آزادی کی دیگر تحریکوں (کشمیریوں کے علاوہ آسام، میزو رام، مائو باغیوں وغیرہ)کو تقویت اورتوانائی ملتی ہے۔ پاکستان ان کے لئے رول ماڈل اور ایک سورس آف انسپیریشن بن سکتا ہے۔ 
جو لوگ شدت پسند نہیں ہیں، مگر ایک نیشنلسٹ بھارتی سوچ اور نقطہ نظر رکھتے ہیں، خواہ وہ بھارتی ہندو ہوں یا مسلمان یا کوئی اور مذہب... ان سب کو ایک بات معلوم ہے کہ اس خطے میں بھارتی ایجنڈے کوکوئی ملک یا قوت کائونٹرکر سکتی ہے، کسی حد تک مقابلہ کر سکتی ہے تو وہ پاکستان ہے۔ اس لئے اینٹی پاکستان سوچ کا جنم لینا صرف شدت پسند ہندو مائنڈ سیٹ میں نہیں بلکہ ایک عام نیشنسلٹ بھارتی بھی جب سٹریٹیجک انداز میں سوچے گا تومضبوط پاکستان کو برداشت کرنا اس کے لئے آسان نہیں۔ پاکستان اور بھارت نیچرل اتحادی نہیں بنتے۔ جس طرح تقسیم سے پہلے قائداعظم نے یہ دلیل دی تھی کہ ہندو اور مسلم اکٹھے نہیں رہ سکتے کہ ان کے ہیروز، ولن، ہر چیز مختلف بلکہ متضاد ہے، اسی طرح پاکستان اور بھارت کے دوست، دشمن بڑی حد تک مختلف ہیں۔ پاکستان مسلم تہذیب کا حصہ اور چینی تہذیب کا اتحادی ہے۔ ویسٹرن سویلائزیشن کی مستقبل کے حوالے سے سٹریٹیجی میں بھارت ان کا اتحادی بنتا ہے۔ امریکی پروفیسر ہنٹنگٹن نے اپنی کتاب کلیش آف سویلائزیشن میں یہ بات تسلیم کی ہے۔ امریکہ نے بھارت کو سٹریٹجک پارٹنر مذاق میں نہیں بنایا۔ یہ سب سوچ سمجھ کرکیا جاتا ہے۔ دراصل اس کے پیچھے امریکی تھنک ٹینکس کی برسوں کی عرق ریزی اور محنت سے نکالے گئے نتائج ہیں۔ 
بھارت کے ساتھ تعلقات نارمل کرنے چاہئیں، کشیدگی لازماً کم کی جائے، مگر تعلقات بڑھاتے ہوئے کشمیر کے ایشو کو نہ بھولا جائے اور یہ بھی ذہن میں رکھا جائے کہ خواہ دوستی میں ہم جس قدر جھک جائیں، ہمارے مفادات کہیں نہ کہیں بھارت کے ساتھ ٹکرا جائیں گے ۔اس لئے پوری طرح ہوشیار اور مستعد رہتے ہوئے، اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے، باوقار انداز میں تعلقات بہتر کرنے کے لئے آگے بڑھیں۔ جنگ نہ کرنے، پہلی گولی نہ چلانے کے معاہدے یا اس نوعیت کی کوئی بھی دوسری چیز ہو، ان سب کے حوالے سے یہی رویہ اپنانا ہی بہتر اور دانشمندی پر مبنی ہوگا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں