منٹو کو انسان ہی رہنے دیں

کسی بھی سماج کے بڑے اور ممتاز لوگوں کی اکثریت کے ساتھ یہ مسئلہ درپیش ہوتا ہے کہ ان کی طاقتور اور قدآور شخصیت جہاں بہت سے مداح پیداکر لیتی ہے، وہاں مخالفین کا ایک حلقہ بھی تشکیل پاجاتا ہے۔مداح اپنی پسندیدہ شخصیت کے قد کو بلند کرنے میں کوشاں رہتے ہیں تو مخالفین اسے چھوٹا ثابت کرنے میں جتے رہتے ہیں۔ اہل سیاست اور اہل علم کے حوالے سے یہ تقسیم زیادہ واضح اور نمایاں ہوجاتی ہے۔ادیبوں، شاعروں، مصوروں، فنکاروں حتیٰ کہ کھلاڑیوں کے ساتھ بھی یہ معاملہ رہتا ہے۔ ایسی صورت میں ان کے کام کے حوالے سے متوازن رائے کم ہی نظر آتی ہے، دونوں اطراف سے انتہا ئی موقف ہی سامنے آتا ہے ۔ ہمارے ہاں منٹو کے بارے میں بھی یہی صورتحال جنم لے چکی ہے۔ ایک طرف انہیں دیوتا بنانے والوں کی بھی کمی نہیں، تو دوسری طرف ایسا بھی حلقہ موجود ہے جس کے خیال میں منٹو کے دامن میں جنس اور فحش تحریروں کے سوا کچھ نہیں۔ 
منٹو کے حوالے سے حالیہ بحث ان پر بننے والی فلم کے حوالے سے پیدا ہوئی۔ سوشل میڈیا پر یہ بحث زیادہ بھرپور اور جاندار شکل اختیار کر چکی۔ مختلف ویب سائٹس پرمنٹو پر بنی فلم اور پھر اس حوالے سے منٹو کی شخصیت کی مختلف سطحوں پر بات ہو رہی ہے، بعض کے خیال میں فلم میں منٹو کے کردار کی عظمت کو اجاگر نہیں کیا گیا، انہیں ایک ایسے شرابی کے طور پر پیش کیا گیا، جو اپنی بیمار بچی کی دوائی کے پیسے بھی اپنی شراب پر لگا دیتا ہے اور آخر کار اسی مے نوشی کے نتیجے میں خون تھوکتا ہوا مر گیا۔فلم کا دفاع کرنے والے بھی موجود ہیں، جن کے خیال میں حقیقت نگاری کا تقاضا تھا کہ منٹو کی شخصیت کے یہ گوشے بھی سامنے لائے جاتے ۔ میرے خیال میں ہمیں اتنی بات کرنی چاہیے، جتنی حقیقت میں موجود ہے۔ کسی کا قد بڑھانے سے زیادہ دیر تک بڑا رہ سکتا ہے نہ ہی اسے گھٹانے کی کوشش کامیاب ہوسکتی ہے۔ منٹو کے ساتھ انصاف ہونا چاہیے، یہ بات ان کے مداحین کو پہلے سمجھنی چاہیے۔
میرے خیال میں پہلے تو یہ بات مان لینی چاہیے ، میرا مطلب ہے کہ اس پربحث کے بجائے متفق ہوجانا چاہیے کہ منٹو اردو کا سب سے بڑا افسانہ نگار ہے۔ اردو افسانے کی تاریخ میں آج کے دن تک منٹو سے بڑا یا اس کے برابر کا کوئی اورافسانہ نگار نہیں آ سکا۔ ہمارے ہاں ممتاز، نامور، عظیم جیسے الفاظ کثرت سے استعمال کئے جاتے ہیں، دوسرے درجے کے لکھاریوں کو بھی عظیم قرار دیا جاتا ہے۔ مغرب کی ادبی دنیامیں ایسا نہیں، وہاں گریٹ اور میجر (Major)کے استعمال کئے جاتے ہیں، ہمارے حساب سے عظیم اور نامور یا ممتاز سمجھ لیجئے۔پسندیدہ افسانہ نگاروں کی فہرست ہر ایک اپنے مزاج اور پسند کے اعتبار سے بنائے گا۔ میں ٹاپ فائیو کی لسٹ بنائوں تو اس میں منٹو کے بعد راجندر سنگھ بیدی، کرشن چندر، غلام عباس اور احمد ندیم قاسمی کو شامل کروں گا۔ عصمت چغتائی میرے حساب سے اس فہرست میں نہیں آتیں، قاسمی صاحب کا اردو افسانے میں جتنا حصہ ہے، اتنا تسلیم نہیں کیا گیا۔ ان کے پاس بے پناہ تنوع ہے اور پنجاب کے دیہات کی جیسی منظر کشی انہوں نے کی، کم کو وہ نصیب ہوئی۔ 
ان پانچ بڑے افسانہ نگاروں میں سے جس کے لئے گریٹ یعنی عظیم افسانہ نگارکی اصطلاح لازمی استعمال کرنا پڑے گی، وہ منٹو ہے۔ منٹو نے اردو ادب کو جو کچھ دیا، وہ اس سے پہلے مل سکا نہ ہی اس کے بعد۔منٹوکے افسانوں کے اچھوتے پلاٹ، ان کی ٹریٹمنٹ، بے مثال کردار نگاری ، ڈرامائیت اور پھر ان کی شاندار نثر۔ منٹو سے زیادہ رواں ، عام فہم اور خوبصورت نثرکسی اور میں نہیں دیکھی۔کرافٹ ان کا غیرمعمولی ہے، ان کے افسانوں کو ایڈٹ کرنا بہت مشکل کام ہے، ہر سطر دوسرے سے ،ہر پیرا آپس میں یوں جڑا ہوا ہے کہ کچھ کاٹنا ، نکالنا ممکن نہیں۔ منٹو پر موپساں کے اثرات بھی ہیں، ممکن ہے موضوعات کے انتخاب میں بھی اس کا کچھ اثر پڑا ہو،مگر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ منٹو نے موپساں کو کاپی کیا۔ان سب خوبیوں کے ساتھ یہ بھی مگر حقیقت ہے کہ منٹو کے ہاں فحش نگاری بھی پائی جاتی ہے۔ ان کے بعض افسانے اس صف میں آتے ہیں۔ میں نے منٹو کے افسانوں پر چلنے والے مقدمات کی تفصیل پڑھ رکھی ہے، ان کا تفصیلی بیان اور دلائل بھی تفصیل سے پڑھے ، ان میں سے کچھ باتوں سے اتفاق ہے۔ مثلاً میرے خیال میں ٹھنڈا گوشت کو کوئی ذہنی مریض ہی فحش قرار دے گا یا اس سے تلذز لے گا۔اسی طرح ''کھول دو‘‘ہلا دینے والا ا فسانہ ہے۔ فسادات کے پس منظر میں لکھے جانے والے بہترین افسانوں میں ان دونوں کا شمار ہو سکتا ہے، ویسے تو ٹوبہ ٹیک سنگھ بھی اپنے انداز کا منفرد
افسانہ ہے۔ اسی طرح کالی شلوار پر بھی مقدمہ چلا، مگر اس میں ایسا کچھ بھی نہیں۔ تاہم ''بو‘‘ ایک سیدھا سادا فحش افسانہ ہے، جس میں کھلا بلکہ برہنہ اظہار کیا گیا، منٹو چاہتے تو وہ زیادہ سلیقے سے اس موضوع کو نبھا سکتے تھے، چند فقرے بدلنے، کچھ الفاظ حذف کرنے پڑتے ، مگر منٹو ایسا کیوں کرتے؟ ان کا پورا سٹائل قارئین کو چونکا دینے والا، ڈرامائیت کو استعمال کرتے ہوئے اسے ہلا دینے والا ہے۔ ہر رائٹر اپنے اپنے انداز سے ایسا کرتا ہے، منٹو کے ہاں ڈرامائیت اور چونکا دینے والے ٹوئسٹ نے البتہ ٹریڈ مارک کی حیثیت اختیار کر لی۔ اپنے اس سٹائل میں جہاں منٹو کو محسوس ہوا ، انہوں نے کھلے یا عریاں اظہار کا سہارا بھی لیا۔ اس پر تنقید کی جاسکتی ہے، اسے ناپسند کیا جاسکتا ہے، مگر منٹو کے پاس دامن میںصرف یہی نہیں، اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔میرے خیال میں منٹو کے مداحین کو اس حقیقت سے نظر نہیں چرانا چاہیے، دنیا کے کئی اور بہت بڑے رائٹرز کے ہاں بھی ایسی چیزیں ملتی ہیں، لارنس سے موپساں اور پچھلے سال انتقال کرنے والے گارشیا مارکیز سے میلان کنڈیرا تک یہ سب شیڈز ملتے ہیں۔ ان کا دفاع کرنے کے بجائے جو جیسا ہے، ویسا ہی رہنے دینا چاہیے۔
اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ منٹو صاحب اپنی زندگی میں نہایت خوددار ،طنطنے والے انسان تھے۔ ایک خاص انداز سے وہ چیزوں کو دیکھتے اور اپنی عزت نفس کا خیال رکھتے۔ ان کی انا، وقاراور خود سری کے بہت سے واقعات ملتے ہیں۔ جن دنوں احمد شجاع پاشا کا فلمی دنیا میں طوطی بولتا تھا۔ایک دن فلم سٹوڈیو میں وہ اپنے مصاحبین کے ہمراہ چہل قدمی کر رہے تھے کہ منٹو سے سامنا ہوگیا۔ پاشا نے منٹو سے خوشگوار مکالمہ کرنے کی نیت سے کہا کہ منٹو صاحب ایک فلم کی کہانی میں مجھے مسئلہ درپیش ہے، آپ سے رہنمائی لیتے ہیں۔ منٹو کی انا مگر اتنے سے سیر نہیں ہوئی، انہوں نے کمال بے نیازی سے آنکھ اٹھا کرملک کے سب سے کامیاب فلم پروڈیوسر،ہدایتکار کو دیکھا اور بولے ،میں کوئی مشورہ مفت نہیں دیتا۔ پاشا نے پوچھا ، کیا مشورہ فیس لیں گے، منٹو نے اسی انداز میں کہا، پانچ سو۔ پاشا صاحب نے پانچ سو کا چیک لکھ کر منٹو صاحب کے حوالے کیا اور پھر جواباً انہوں نے اپنی رائے دی۔ یہ سعادت حسن منٹو تھا، جو کسی مرعوب ہوتا نہ ہی دب کر بات کرتا۔دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ شراب نوشی نے اسی منٹو کوا تنا کمزور کر دیا کہ وہ دوستوں سے ادھار مانگتے پھرتے اور کئی دوست انہیں دیکھ کر ادھر ادھر ہوجاتے۔ منٹو کے عادی شراب نوش (Alcoholic)بن جانے میں پاکستانی سماج یا قوم کا کوئی قصور نہیں۔ یہ منٹو کی انسانی کمزوری تھی، وہ جس پر قابو نہ پا سکے اور جلدی دنیا سے چلے گئے۔ منٹو کے آخری سال تکلیف دہ گزرے، اس کی کچھ ذمہ داری ان پر بھی عائد ہوتی ہے۔ احمد ندیم قاسمی ، غلام عباس وغیرہ اسی عہد کے لوگ تھے، مشکلات ان کو بھی رہیں، مگر منٹو جیسی پریشانی نہیں اٹھانی پڑی۔منٹو کی شراب نوشی، اس حوالے سے کسی کی بات نہ ماننا، خون تھوکتے تھوکتے مر جانا... یہ سب منٹو کی زندگی کے شیڈز ہیں۔ ایک بڑے رائٹر کی زندگی کے کمزور پہلو،مگر انہی تضادات کا نام ہی زندگی ہے۔ منٹو ایک انسان تھے، انہیں دیوتا سمجھنا چاہیے نہ ہی بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں