لاہور میں جھوک سرائیکی میلہ

جمعہ، نو اکتوبر کی شام دو اعتبار سے منفرد تھی۔ لاہور میں انتخابی معرکہ اپنے زوروں پر تھا، مزنگ میں تحریک انصاف اور سمن آباد میں مسلم لیگ ن اپنی قوت کا مظاہرہ کر رہی تھی۔ ان دونوں کی طاقت آزمائی میں لاہور کے عوام سینڈوچ بنے ہوئے تھے۔ اسی جمعہ کو سیاست کے ہنگاموں کے ساتھ ساتھ الحمرا میں معروف سرائیکی صحافی، دانشور اور لکھاری ظہور دھریجہ نے'' جھوک سرائیکی میلہ‘‘ سجا رکھا تھا۔دفتری کاموں میں الجھا ہونے کی وجہ سے میں تھوڑا دیر سے پہنچا، کچھ نجی مصروفیت بھی تھی، لیکن پروگرام اس قدر بھرپور اور جاندار تھا کہ پھر اٹھنا ممکن نہ ہوپایا۔ بیس برس سے لاہور میں مقیم سرائیکی ہونے کے ناتے، جسے غم ِروزگار اپنے وسیب(علاقے) کا چکر لگانے کا موقعہ نہیں دیتا، اس قسم کی تقریبات روح کو سرشار کر دیتی ہیں۔ لیکن یہ سرائیکی میلہ صرف سرائیکیوں کے لئے نہیں،یہ اپنے اندر بہت کچھ لئے ہوئے تھا۔ لاہور آرٹس کونسل نے اپنی بھرپور سرپرستی میں پہلی بار جھوک سرائیکی میلہ کا اہتمام کرایا۔درحقیقت ایک ایسی شاندار روایت کا آغاز ہے، جسے بھرپور انداز میں آگے بڑھانے اور پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔
ظہور دھریجہ اس میلہ کے مدارالمہام تھے۔ وہ اسلام آباد میں بھی جھوک میلہ منعقد کراتے ہیں۔جھوک سرائیکی میں ڈیرے یا بستی کو کہتے ہیں( ڈیرے سے مراد کسی سردار یا وڈیرے کا ڈیرہ نہ تصور کیا جائے)۔ جھوک کو خواجہ غلام فرید نے اپنے کلام کے ذریعے لافانی کر دیا۔ خواجہ صاحب کی مشہور کافی ہے:
خوش تھی فریدا شاد وَل 
مونجھاں کوں نہ کر یاد وَل 
جھوکاں تھیسن آباد وَل
(غلام فرید تم پھر خوش اور مسرور ہوجائو گے، ان غموں کو یاد نہ کیا کرو، یہ جھوک(ڈیرے، بستیاں)پھر سے آباد ہوں گے)
ظہور دھریجہ نے سرائیکی قوم پرستی، سرائیکی ایشوز کی ترجمانی ایسے بھرپور انداز میں کی ہے کہ تن تنہا وہ ایک پوری جھوک کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ مجھے ظہور دھریجہ کی کئی تحریروں پر رشک آتا رہا، جس کمال جرات، مضبوطی اور مدلل انداز سے انہوںنے سرائیکی مسائل اور سرائیکیوں کا موقف بیان کیا، وہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ آج کل وہ سرائیکی اجرک (ازرک)کو مقبول بنانے میں جتے ہیں، جتنی انرجی اور استقامت ان میں ہے، اسے دیکھتے ہوئے مجھے یقین ہے کہ بہت جلد سرائیکی اجرک کو بھی اس کا حقیقی مقام مل جائے گا۔سرائیکی علاقہ کے مسائل دو نوعیت کے ہیں، ایک تو علاقے کے مسائل ہیں، سڑکیں، پل ، دیگر ڈویلپمنٹ ورکس، صحت ، تعلیم وغیرہ کے مسائل ۔حکمرانوںکو جب خیال آتاہے کہ یہاں سے بھی ووٹ لینے ہیں تو وہ علاقہ کے لئے ڈویلپمنٹ پراجیکٹس کے اعلان کر دیتے ہیں،جیسے ملتان میں کارڈیالوجی ہسپتال بن گیا، میٹرو بس پراجیکٹ چل رہا ہے، کچھ اور جگہوں پر تھوڑا بہت ہوجاتا ہے، اگرچہ اس حوالے سے بھی نشتر گھاٹ سمیت کئی اہم جگہوں پر پل نہیں بنے، یا پراجیکٹ التوا میں پڑے ہیں۔ 
سرائیکیوں کا دوسرا بڑا مسئلہ ان کی زبان اور کلچر وغیرہ کے حوالے سے ہے۔المیہ یہ ہے کہ یہ صرف سرائیکی بولنے والے کا ایشو ہے، سرائیکی علاقوں میں رہنے والے نان سرائیکی سیٹلرز یااردو سپیکنگ آبادی کا یہ مسئلہ نہیں ، وہ اس کی اہمیت کو بھی نہیں سمجھتے۔ اس لئے سرائیکی علاقوں میں مقیم غیر سرائیکی لکھاری جب سرائیکی محرومیوں کی بات کرتے ہیں توا ن کا تمام تر فوکس انفراسٹرکچر وغیرہ کی عدم دستیابی پر ہوتا ہے۔ انہیں یہ ادراک نہیں کہ سرائیکی زبان کو جس طرح نظر انداز کیا گیا، وہ سرائیکیوں پر کیسے شاق گزرتا ہے۔اس سے بڑا المیہ اور کیا ہوگا کہ سرائیکی زبان میں ایم اے کی سہولت حاصل ہے، لیکن انٹر اور بی اے میں عربی، فارسی، پنجابی وغیرہ آپشنل رکھی جاسکتی ہے، سرائیکی نہیں۔جس زبان میں ماسٹر کی سطح کا مواد موجود ہے، اسے سی ایس ایس میں بطور مضمون نہیں رکھا جا سکتا کہ ہماری اشرافیہ نے سرائیکی کودوسری علاقائی زبانوں کے برابر نہیں سمجھا۔ ایم اے سرائیکی کر کے لڑکے بیروز گار پھر رہے ہیں،ان کے لئے ملازمتیں ہی نہیں۔ظہور دھریجہ جیسے لکھاریوں نے سرائیکی علاقہ کے لئے آواز بھی اٹھائی اور سرائیکی عوام کی محرومیوں کو بھی اجاگر کیا۔ 
لاہور آرٹس کونسل کے تعاون سے اس میلہ کا انعقاد ہوا، جس پر آرٹس کونسل کی انتظامیہ، خاص کر اس کے ڈائریکٹر کیپٹن عطامحمد خان داد وتحسین کے مستحق ہیں۔پہلے میں سمجھا کہ شائد کوئی سرائیکی ڈائریکٹر الحمرا آرٹس کونسل میں لگ گیا ہے اور اس نے یہ سرائیکی میلہ کرایا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ کیپٹن صاحب پنجابی بولنے والے ہیں، لیکن پچھلے دو تین سال کسی سرائیکی ضلع (شائد رحیم یار خان )میں ڈی سی او لگے رہے ۔لگتا ہے وہیں پر وہ سرائیکی شاعری کے سحرسے متعارف ہوئے۔ انہوں نے اپنے کچھ شعر سنائے ،جن میں جگہ جگہ چولستان، روہی کی تراکیب استعمال کی گئی تھیں۔ شاعری کے معاملے میں میرا حافظہ نہایت ناقابل اعتبار ہے، جب کبھی کوئی شعر نقل کیا ،اللہ کے فضل
سے وہ بے وزن ہی رہا۔ اس لئے کوئی شعر نقل نہیں کر رہا، اگرچہ اس شام ایک شاندار مشاعرہ سننے کو ملا۔ نوجوان شاعروں کے ساتھ اصغر گرمانی جیسا مقبول شاعر،مزاحمتی رنگ رکھنے والے ریاض باقری اور ڈوہڑے میں اپنا منفرد مقام پیدا کرنے والے امان اللہ ارشد بھی موجود تھے۔ ڈوہڑا سرائیکی کی مشہور صنف ہے، جس میں کئی لوگ بڑے مشہور ہوئے،جانباز جتوئی، احمد خان طارق، صوفی نازش، فیض محمد دلچسپ، خادم محمود خادم،سیفل وغیرہ، جو مقبولیت مگر شاکر شجاع آبادی کو ملی،وہ کم کو نصیب ہوئی۔ امان اللہ ارشد کا ڈوہڑے میں اپنا خاص مقام ہے۔ شاکر کی طرح ان کی شاعری میں بھی اب ہجر کے سوز وگداز کے ساتھ مزاحمتی رنگ درآیا ہے۔ ارشد نے جب اپنا مشہور مصرع پڑھا کہ سرائیکوں کے پانچ سالہ بجٹ کو ایک شہر کی میٹرو بس کھا گئی ، تو ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ اسی طرح کا مصرع تھا کہ بھوک ، غربت سے ہم پیدل بھی نہیں چل سکتے تو تمہاری موٹروے کو بھاہ(آگ)لگائیں۔
مشاعرے میں عاشق بزداراور عزیز شاہد جیسے سینئر شاعر بھی شریک محفل تھے۔ عاشق بزدار پرانے قوم پرست اور تحریکی شاعر ہیں، انہوںنے اپنا کلام بھی اسی مناسبت سے سنایا۔ عاشق بزدار کا شاعری مجموعہ ''اساں قیدی تخت لاہور دے‘‘ بڑا مشہور ہوا۔ اس کے حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ بھی یاد آیا، شفقت تنویر مرزا معروف پنجابی ادیب اور دانشور تھے، ان کا اصرار رہتا کہ سرائیکی ایک الگ زبان نہیں بلکہ پنجابی زبان کا ایک لہجہ ہی ہے۔ ایک مرتبہ اس حوالے سے پاکستان سرائیکی پارٹی کے سربراہ بیرسٹر تاج محمد لنگاہ کے ساتھ بحث ہوئی، لنگاہ صاحب نے چڑ کر اپنے مخصوص تیکھے انداز میں کہا کہ اگر سرائیکی پنجابی کا ایک لہجہ ہی ہے تو آپ پنجابی زبان کے ماہر ہیں، ایک کام کریں، عاشق بزدار کی کتاب'' اساں قیدی تخت لاہور دے‘‘ کا ایک صفحہ ہی پڑھ کر سنا دیں۔مرزا صاحب اس پر خاموش ہوگئے۔
عزیز شاہد کو پڑھا تو تھا، مگر سنا پہلی بار، نہایت شائستہ اور شستہ لب ولہجے میں انہوں نے کیسی قیامت کی نظم سنائی، کاش اسے میں نقل کر سکتا، مگر اس نظم کو لکھ بھی دوں تو سمجھانا کہاں ممکن ہے۔ میر نے لکھنو کے سخن فہموں کو کہا تھا کہ میں اپنا کلام سنا تو دوں ،مگرجامع مسجد دلی کی سیڑھیاں کہاں سے لائوں، دلی کو جانے اور سمجھے بنا میرا کلام کیسے سمجھ سکو گے۔ عاشق بزدار ہوں، رفعت عباس یا کروڑ لال عیسن کا وہ درویش شاعر ڈاکٹر آشو لال ... ان کا کلام روہی اورروہی والوں کو جانے، سمجھے بغیر کیسے سمجھ آئے گا۔ عزیز شاہد بھی حدی خوانوں کے اس قافلے کے سربلند، نامور اور نمایاں شاعر ہیں۔ بعد میںمحفل موسیقی بھی ہوئی، ثریا ملتانیکر جیسی مہان گلوکارہ موجود تھیں، لگتا ہے کہ عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ انکی آواز زیادہ جوان اور توانا ہوگئی ہے، انہوں نے سماں باندھا، ان کی بیٹی راحت ملتانیکر نے بھی اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔ میلہ مگرڈیرہ اسماعیل خان کے نوجوان گائیگ امجد نواز کارلو نے لوٹا، ان سے باربار فرمائشیں بھی کی گئیں اورسرائیکی قوم پرستی کے حوالے سے ان کا گایا کلام بھی سنا گیا۔ چولستان سے آڈو بھگت نے بھی خوب رنگ جمایا۔ جھوک میلہ اس حوالے سے بھی اچھا لگا کہ سرائیکی شاعری، سرائیکی گائیگی اور سرائیکی مزاحمتی ادب کے سرخیلوں کو سرکاری سرپرستی میں سٹیج پر موقعہ دیا گیا۔ اس طرح کی کشادگی کے ہمیشہ اچھے اور مثبت اثرات نمودار ہوتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ پی ٹی وی اور پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف لینگوئج اینڈ کلچر (پلاک)جیسے اداروں کے دروازے بھی ان لوگوں پر کھولے جائیں۔ سرائیکی لٹی پٹی قوم ہے، جس کے منتخب نمائندوں نے کبھی اپنی دھرتی سے وفا نہیں کی۔ ریاست مگر ماں جیسی ہوتی ہے، اسے ان کے زخموں پر مرہم لگانا ہوگا۔ محرومیاں اگر دور نہ ہوں تو ان کے زخم رفتہ رفتہ ناسور بن جاتے ہیں، بعد میں چاہنے پر بھی وہ ٹھیک نہیں ہوسکتے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں