نجی زندگی اور صحافیوں کی حدود وقیود

چنددنوںسے میڈیا پرعمران خان کی شادی کے حوالے سے شور بپا ہے، سوشل میڈیا پریہ ہنگامہ کچھ زیادہ قیامت خیز ہو چکا ہے۔ہمارے ہاں معمول ہے کہ ہر ایشو پر انتہائی پوزیشن لی جائے اور ایسا کرتے ہوئے توازن اور انصاف کے تقاضے قربان ہوتے ہوں تو اس کی چنداں فکر نہیں کی جاتی۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ اب ایسے مباحث میں وہ لوگ بھی بے دھڑک شامل ہوجاتے ہیں، جو دینی ذوق رکھتے اور اسلامی اخلاقیات کا دوسروں کو درس دیتے ہیں اور ان کی بھی کمی نہیں جو لبرل اقدار کے علمبردار ہیںاور جو ماضی میں رائٹ ونگ کے لوگوں سے شاکی رہے کہ وہ سیاسی مخالفوں کی نجی زندگی پرحملہ آور ہوتے اور اپنے حریف کو نقصان پہنچانے کی خاطر اس پر کیچڑ اچھالنے سے گریز نہیں کرتے۔ عمران خان والے معاملے میں مسجد ومنبر کے رکھوالوںاور لبرل سیکولر حلقوں میں کچھ زیادہ فرق نہیں بچا۔ جے یوآئی کے حامی ،جن کی اکثریت دینی مدارس سے تعلیم یافتہ اور خاص روایتی اخلاقیات اور اقدار کی علمبردار ہے، یہ لوگ سوشل میڈیا پر ایسے زور شور سے عمران خان کے خلاف مہم چلا رہے ہیںاور ایسا کرتے ہوئے ہر قسم کی اخلاقیات کو بالائے طاق رکھ چکے ہیں۔ دوسری طرف مسلم لیگ ن ہے،جو کسی زمانے میں رائٹسٹ پارٹی سمجھی جاتی تھی، برسوںپہلے وہ اس بوجھ کو اتار چکی اور اب میاں برادران خود کو اعلانیہ ، فخریہ لبرل کہلاتے ہیں۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ پاکستانی تناظر میںلبرل کہلانے سے کیا مراد ہے اور ایسا کرتے ہوئے کس کیمپ کے ساتھ کندھے ملا کر کھڑا ہونا پڑتا ہے۔خود کو لبرل کہلانے سے شائد مغرب میں سافٹ امیج بنانا مقصود ہو، مگر ایسا کرتے ہوئے اپنی پارٹی میں لبرل اقدار بھی منتقل کرنی چاہئیں، انہیں بتانا چاہیے کہ شخصی آزادی لبرل ازم کی بنیادی اخلاقی اقدار میں سے ایک ہے، جس کو ہر حال میںملحوظ خاطر رکھنا پڑتا ہے۔ سوشل میڈیا اور دیگر فورمز پر مسلم لیگیوں کی باچھیں کھلی جار ہی ہیں، وہ اپنے سب سے بڑے سیاسی حریف کی ان کمزور لمحات میں دھجیاں اڑا دینا چاہتے ہیں، خواہ ایسا کرتے ہوئے جو گرد اڑانی پڑے، اس سے خود ان کے اپنے چہرے غبار آلود ہوجائیں۔اس تنازع میں ایک اور فریق اہل صحافت کا سامنے آیا ہے، بلکہ انہوں نے تو ہراول دستے کا کام کیا ہے،شمشیریںلہراتے، دعوت مبارزت دئیے بغیر حریف پرٹوٹ پڑے ہیں۔ایک نعرہ مستانہ بلند ہوا ہے کہ لیڈر کی کوئی پرائیویٹ لائف نہیں ہوتی اور صحافیوں کو ہر قسم کے سوال پوچھنے کا حق ہے۔ یہ بڑا بنیادی نوعیت کا سوال پیدا ہوا ہے کہ کیا واقعی لیڈروں اور سیلیبریٹیز کی نجی زندگی نہیں ہوتی اور اس حوالے سے ہر قسم کا صحافتی ایڈونچر جائز اور مناسب ہے؟اس پربات کرتے ہیں اور انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ اس تنازع کے اہم ترین فریق عمران خان کے رویہ پر بھی بات کی جائے۔ 
سب سے پہلے نجی زندگی والے سوال کو لیتے ہیں کہ مباحث بنیادی طور پر اسی نقطے کے گرد گھومتے ہیں۔ 
ایک بات تواتر سے کہی جارہی ہے کہ لیڈروں کی یا سیلی بریٹیز (Celebrities)کی کوئی نجی زندگی نہیں ہوتی اور جو اپنی نجی زندگی کوبچانا چاہتا ہے،اسے چاہیے کہ وہ سیاست میں یا لائم لائٹ میں نہ آئے۔ یہ بات بالکل غلط ہے ۔ درست تو یہ ہے کہ یہ دلیل مغرب میں ان سنسنی پھیلانے والے عامیانہ اخبارات (ٹیبلائیڈ)نے گھڑی ہے،جنہیں اپنے چیتھڑے اخبار بیچنے یا تیسرے درجے کے ٹی وی چینلز کے پروگرام ہٹ کرانے کے لئے اہم شخصیات کی نجی زندگیوں میںجھانکنے اور ان پر گند اچھالنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ مغرب کے سنجیدہ اور معیاری اخبارات اور چینلز کا رویہ شائستہ اور متین رہا ہے۔ بی بی سی اور سی این این پر اس طرح کے گھٹیا پروگرام نظر نہیں آئیں گے اور نہ ہی نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، دی ٹائمز لندن، گارڈین اور ٹیلی گراف جیسے اخبارات ایسے سکینڈلز چھاپتے اور ان پر اپنی توانائی کھپاتے ملیں گے۔ دنیا کے ہر انسان کی نجی زندگی ہے اور اس کااحترام اسی قدر ضروری ہے ،جتنا کہ سکینڈل اچھالنے والے اپنی نجی زندگی ۔حتیٰ کہ دھندا کرنیوالی خواتین کی بھی عزت نفس اور ان کی نجی زندگی کے کچھ گوشے ایسے ہوسکتے ہیں جن کو اچھالنے سے گریز کرنا چاہیے۔ عصمت فروشی کے الزام میںگرفتار خواتین کے ناموں کی اشاعت کے بجائے ان کے پہلے حرف س، ش،ص وغیرہ کو چھاپنے کا عدالتی حکم اسی فلسفے کے تحت دیاگیا۔
یہ البتہ درست ہے کہ لیڈر کی نجی زندگی کے تحفظ کا یہ مطلب نہیں کہ وہ غیرقانونی، غیر اخلاقی جرائم میں ملوث ہوجائے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی لیڈرکسی کے ساتھ غیرقانونی،ناجائز تعلقات قائم کر لے تو وہ ظاہر ہے غلط ہے، وہ اس کی پرسنل لائف نہیں بلکہ اس نے قانون کو توڑا اور سماج کے طے شدہ ضابطوں کے پرخچے اڑائے ۔ اسی طرح وہ لیڈر یا سیلی بریٹی کسی کے ساتھ زیادتی (ریپ)کر دے یا پھر شراب میں دھت ہو کر اول فول بکتا پھرے۔ وہ اس کی نجی زندگی نہیں اور ایسے کاموں کی رپورٹنگ بھی غلط نہیں کہ ایسا کرتے ہوئے مقصد کیچڑاچھالنا یا سکینڈل بنانا نہیں بلکہ ایک جرم کو بے نقاب کرنا ہے۔ امریکی صدرکلنٹن اور مونیکا لیونسکی والے معاملے کو اسی تناظر میں دیکھنا ہوگا۔ کلنٹن نے ایک لڑکی کو وائیٹ ہائوس میں ملازمت دلوائی اور پھر اس کا ایک طرح سے جنسی استحصال کیا۔جب یہ بات منظرعا م پر آئی توکلنٹن نے اس بات سے صاف انکار کر دیا۔ بعدمیں ڈی این اے شواہد سے کلنٹن جھوٹا ثابت ہوگیا۔ کلنٹن کے خلاف زیادہ شور اس لئے مچا کہ ایک تو اس نے اپنی بیوی کو دھوکا دیتے ہوئے ایک لڑکی سے تعلقات قائم کئے اور اس میںحدود سے تجاوز کیا اور پھر جھوٹ بول کر اسے چھپانے کی کوشش کی۔ اگر کلنٹن کے اپنی بیوی ہلیری کلنٹن کیساتھ تعلقات خراب ہوجاتے اور دونوں کے مابین علیحدگی ہوجاتی تو یہ یکسر مختلف معاملہ ہوتا اور پھر امریکی میڈیا کا رویہ مختلف ہوتا۔
عمران خان کی طلاق کے معاملے پر کلنٹن والی مثال فٹ کرنا زیادتی ہے، یہ تو وہی مثل ہوئی کہ ماروں گھٹنا ، پھوٹے آنکھ۔ عمران خان والے معاملے میں ایک دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ انہوں نے خود ہی اپنی شادی کو پبلک کیا، طلاق والے معاملے پر بھی پارٹی کے سیکرٹری اطلاعات سے بیان دلوایا تو انہوں نے خود ہی اس معاملے کو پبلک کیا، اب اس پر شکایت کیوں؟ یہ بھی عجیب وغریب دلیل ہے۔عمران نے شادی نہایت سادگی سے کی، چند لوگ ہی شامل ہوئے۔ وہ سیاسی لیڈر تھے، اپنی شادی میںہزاروں سیاسی کارکنوں کو بلا سکتے تھے۔ عمران نے ایسا نہیں کیا، یہ اشارہ تھا کہ شادی میرا نجی معاملہ ہے۔ بعد میں البتہ ریحام خان کے کہنے پر میاں بیوی کا ایک شوٹ ضرور میڈیا میں شائع ہوا۔ایسا کر کے کون سا جرم سرزد ہوگیا ان میاں بیوی سے؟ جب میڈیااتنا پرجوش ہو رہا تھا تو تھوڑا بہت کرنا ہی پڑتا تھا۔سچی بات تو یہ ہے کہ اس شادی کو ناکام بنانے میںمیڈیانے بھی اپنا حصہ ڈالا۔ ریحام خان کے ہر کام پر میڈیا جوش وخروش سے پل پڑتا۔وہ ہری پور جلسے میں گئیں تو ایک طوفان کھڑا کر دیا کہ عمران خان نے موروثی سیاست کی ابتدا کر دی، وغیرہ وغیرہ۔آخر عمران کو ریحام خان پر پابندی لگانی پڑی۔ریحام کراچی کے ضمنی انتخاب پر گئیں تو وہاں بھی ہر جگہ کیمرے پہنچ گئے۔ عمران کے بچے بنی گالہ آئے ، ریحام چند دنوں کے لئے کراچی چلی گئیں تو اس پر بھی شور مچا، خبریں اور تجزیے شائع ہونے لگے۔ کسی چیز کی حد ہوتی ہے۔طلاق کے معاملے میں عمران خان نے خود کیمرے کے سامنے آنے سے گریز کیا تاکہ زیادہ شورشرابا نہ ہو اور لوپروفائل رکھا جائے۔ نعیم الحق صرف پارٹی کے سیکرٹری اطلاعات نہیں بلکہ عمران کے دوست بھی ہیں، ان کو اگر ایک مختصر رسمی بیان جاری کر دینے کا کہا گیا تو اس میں کیا برائی تھی؟ اس سے یہ کہاں ثابت ہوگیا کہ اب یہ طلاق والا معاملہ نجی نہیں رہا اور اب اس پر ٹی وی پروگرام ہونے چاہئیں، جس میں ثقہ اور سنجیدہ سینئر صحافی اپنے تجزیے دیں۔ مغرب میںایسے سکینڈل غیرسنجیدہ عامیانہ اخبارات اور چینل اٹھاتے ہیںاور ویسے ہی صحافی ان پر بات کرتے ہیں۔ یہاں تو ہمارے اے کلاس میڈیا اور سنجیدہ ترین اہل قلم واہل دانش اس پر گفتگو فرما رہے ہیں۔
صحافت کا یہ نیا روپ کسی عفریت سے مشابہہ ہو چکا ہے، جسے زندہ رہنے کے لئے ہر روز کوئی نہ کوئی سکینڈل، خبر، شوشا چاہیے۔ اکیس سال صحافت کی وادی خارزار میں ہوچکے، کالم لکھتے ایک عشرے سے زیادہ ہوگیا۔ صحافت ہی ہمارا اوڑھنا بچھونا او ر روزگار ہے، مگر یہ طرز صحافت مایوس کن، افسوس ناک ،فرسٹریٹ کر دینے والاہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں