دہشت گردی کی مذمت کیسے کی جائے

دو دن پہلے پیرس میں جو قیامت ٹوٹی، جس بے رحمی اور درندگی سے نہتے عام شہریوں کو نشانہ بنایا، جس وحشت اور سنگ دلی سے میوزک کنسرٹ کے لئے آئے،ریستوران میں کھانا کھاتے اور میچ دیکھتے لوگوںپر حملے کئے گئے ، اس نے دنیا بھر کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس حملے کی تفصیل پڑھنا اور دیکھنا نہایت کربناک تھا۔ مجھے پشاور کے سکول پر حملے کی لہورنگ تصویریں یاد آئیں۔ وہاں بھی ایسے ہی درندوں نے حملہ کیا تھا اور معصوم بچوں کے پھول سے جسموں پر گولیاں برساتے ہوئے ہنستے ،مسکراتے رہے ۔ پیرس میں بھی کنسرٹ ہال اور ریستوران پر اندھا دھند فائرنگ کرتے دہشت گرد اسی انداز میں لطف اٹھاتے رہے، چیختے ، چلاّتے ہوئے وہ نہتے مردوں، عورتوں، بچوں پر یوں فائرنگ کرتے رہے جیسے یہ حقیقی زندگی نہیں بلکہ کسی ویڈیو گیم کا حصہ ہو،جہاں تیز رفتار شوٹنگ کرنے کے زیادہ پوائنٹس ملتے ہیں۔ پیرس میں دہشت گردی کی غیر مشروط مذمت ہونی چاہیے۔ اگر، مگر ،چونکہ ، چنانچہ کے بغیر واضح اور صاف دہشت گردی۔ اس قسم کی ظالمانہ کارروائیوں پر ایک ہی ردعمل بنتا ہے اور وہی دینا چاہیے ... کہ قاتلوں کو کسی قسم کے جواز کا فائدہ نہیں ملنا چاہیے۔ ان درندوں کوتنہا کر دیا جائے۔ 
ہمارے ہاں فرانس کی اس دہشت گردی کی مذمت تو کی گئی ،مگر اس کے ساتھ مگر، چونکہ ، چنانچہ وغیرہ کے الفاظ برتے گئے۔ یہ درست ہے کہ فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل نے جو ظلم روا رکھا ہے، اس کی مغرب میںکھل کر مذمت نہیں کی جاتی۔ مقبوضہ کشمیر میںبھارتی فورسز نے جو ظلم کئے ، اس کی یورپی ممالک ، ان کے میڈیا اور انٹیلی جنشیا نے کبھی پرزور مذمت نہیں کی۔فیس بک نے پیرس میں دہشت گردی پر اپنے پروفائل کی تصویر (ڈی پی)بنانے کے لئے فرانس کے جھنڈے کے رنگوں کی تصویرشائع کی ہے، دنیا بھر میںلاکھوں ، کروڑوں لوگوں نے اس تصویر کواپنی پروفائل پکچر بنایا ، تاہم کبھی غزہ کے شہیدوں کے حوالے سے ایسا کرنے کی فیس بک کو جرأت نہیں ہوئی۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ درست ہیں، مگر فرانس کی دہشت گردی کا ، اس میں مرنے والے معصوم لوگوں کا اس سے کیا تعلق؟ہم اہل مغرب کی دوعملی پر یہی تنقید کرتے ہیں کہ ان کا پیمانہ مسلمانوں کے حوالے سے الگ اور مغربی ممالک میں ہونے والے کسی المیے کے حوالے سے مختلف ہوتا ہے، پھر ہمیں تو وہی دوعملی نہیں اپنانی چاہیے۔ہمیں اپنا ظرف ظاہر کرنا چاہیے۔ یہ آزمائش صرف اہل فرانس پر وارد نہیں ہوئی، ہمارے لئے بھی یہ ایک طرح سے چیلنج ہے ،جس پر پورا اترنا چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس موقع پر ہماری مذہبی سیاسی جماعتوں کو خاص طور پر بیدار ہو کر سامنے آ نا چاہیے۔ آج کے زمانے میں بہت سے ایسے علامتی اقدامات ہوسکتے ہیں، جن کے ذریعے سے آپ دنیا کو اپنے ظرف، اپنی ہمدردی اور یکجہتی کا احساس دلا سکتے ہیں۔ فیس بک کی پروفائل تصویر لگانا ایسا ہی ایک علامتی کام ہے۔ مصر میں جب فوجی حکومت نے اخوان المسلمون پر ظلم کی انتہا کر دی، ان کا قتل عام کیا گیا تو ہاتھ کے نشان والی فیس بک ڈی پی کا رواج چلا تھا، جماعت اسلامی کے وابستگان اس میں پیش پیش تھے۔ کیا اچھا ہو کہ جماعت یا جمعیت کے نوجوان پیرس دہشت گردی پر بھی ایسا کریں۔ بھرپور مذمتی قراردادیں بھی اظہار کا ایک طریقہ ہے۔ اہل مغرب میں دستور ہے کہ افسوس کے لئے علامتی یادگار بنا کر لوگ وہاں پھولوں کے گلدستے، کارڈز وغیرہ رکھتے ہیں، ہمارے ہاں اس کا کلچر این جی اوز نے ڈالا ہے، جس پر روایتی دینی طبقہ کے لوگ موم بتی مافیا کی پھبتی کستے ہیں، مگر اس موقع پر فرانسیسی سفارت خانے یا اسلام آباد کی کسی جگہ پر ایسے علامتی اظہار کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ بسا اوقات نا پسند کام بھی ضرورتاً یا اظہار یکجہتی کے لئے کر لینے چاہئیں۔ 
سوشل میڈیا پر بعض کوتاہ اندیش ایسے بھی نظر آئے ، جن میں اتنی ہمت تو نہیں تھی کہ اس قتل وغارت کی حمایت کر پاتے،دبے دبے الفاظ میں وہ مختلف عذر پیش کرتے رہے۔ کسی نے اسرائیل کے صدر کے ایک بیان کا حوالہ دیا، جس میں اس نے فرانس کوفلسطینیوں کی حمایت پر سنگین نتائج کی دھمکی دی تھی ۔ ایسی'' تحقیق ‘‘کرنے والے جیالوں کی کیا بات ہے؟دعوے سے کہا جا سکتا ہے کہ ان میں سے کسی کواپنی گھڑی سازشی تھیوری میں ایک فیصد بھی یقین نہیں ہوگا، مگر اس طرح کی پوسٹیں کرنا ضروری سمجھا گیا کہ کہیں داعش کے جنونیوں کے خلاف رائے عامہ ہموار نہ ہو جائے۔
ہر کوئی جانتا ہے کہ اس کی ذمہ داری کس نے قبول کی اوران شدت پسند گروپوں کی ویب سائیٹس پر اسے کارنامے کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ ماضی میں نائن الیون اور لندن کے سیون سیون کے حملوں کا القاعدہ نے اسی طرح کریڈٹ لیا تھا۔ القاعدہ اپنے نئے ریکروٹوںکی تربیت میں فخریہ نائن الیون کے حملوں کا ذکر کرتی 
اور اسے اپنی بڑی کامیابیوں میں سے ایک قرار دیتی ہے، ان کی ویب سائیٹس پر بھی یہی مواد ملتا ہے۔ اس حوالے سے القاعدہ کے حامی اس قدر آگے چلے جاتے ہیں کہ وہ حزب اللہ کو صرف اس بنا پر مطعون کرتے ہیں کہ ان کے چینل نے یہ خبریں دی تھیں کہ نائن الیون کے حملے کے پیچھے اسرائیل کاہاتھ ہوسکتا ہے۔ القاعدہ کے جنگجوئوں کے نزدیک حزب اللہ نے انہیں ان کے سب سے بڑے کریڈٹ سے محروم کرنے کی کوشش کی۔ مزے کی بات ہے کہ ہمارے ہاں ابھی تک مذہبی سوچ رکھنے والا ایک حلقہ یہ سمجھتا ہے کہ القاعدہ نے نائن الیون نہیں کیا اور انہیں غلط طور پر امریکہ نے اس میں ملوث کر رکھا ہے۔معلوم نہیں ان لوگوں کی آنکھیں کب کھلیں گی۔ اسی طرح جن لوگوں کوداعش کے نام نہاد خلیفہ ابوبکر البغدادی اور ان کے ساتھیوں سے نرمی کی امید ہے ، وہ بھی احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ داعش کاپورا فلسفہ ہی ظلم، سختی ، تشدد اور جنون کی حد تک پہنچی درندگی کی بنیادپر ہے۔ ان کا طرز حکومت خارجیوں سے ملتا جلتا ہے... وہی خارجی جنہوں نے خلیفہ چہارم حضرت علی کرم اللہ وجہؓ کوشہید کیا، بار بار فتنہ پیدا کرتے رہے اور امام ابو حنیفہؒ سے لے کر تما م کبار فقیہہ اور اکابر امت جن کے خلاف تھے۔اللہ پاکستان کو داعش کے فتنے سے محفوظ رکھے۔ 
ہمارے دوست اور تجزیہ کار ڈاکٹر عاصم اللہ بخش نے پیرس واقعے پر نہایت خوبصورت تجزیہ کیا ہے، وہ لکھتے ہیں:''ایک فیصلہ کرنا ہے... ہم ان کے غلام ہیں کہ اگر وہ ایسا کریں تو ہم بھی ویسا کریں یا ہم ہی اصل لیڈر ہیں کہ انہیں بتائیں کہ ہمارا ظرف ہر حال میں ان سے بلند تر ہے ؟ اور یہ کہ ہمارے لیے انسان اور انسانیت ان سے بھی بڑھ کر اہم ہیں۔جو لوگ جوش میں آ کر مغرب کے حسب توفیق لتے لے رہے ہیں یا اس موقع کو حق و باطل کے تعین کا لمحہ سمجھ رہے ہیں، وہ یقین رکھیں ،مغربی حکومتوں کی دلی خواہش ہے کہ ہمارا رد عمل یہی ہو تاکہ وہ ہمارے چہرے دکھا کر اپنی قوم سے مزید جنگوں کے لیے اور زیادہ رقم اینٹھ سکیں۔اس وقت بردباری اور وسعت قلبی کے مظاہرہ سے ہم کم از کم چار مثبت نتائج حاصل کرسکتے ہیں۔1: اللہ کے حکم اور سنت نبوی کی پیروی۔ برائی کا جواب اچھائی سے دینا. خاص کر اس وقت جب کہ یہ معاملہ وہاں کے عوام سے متعلق ہے، فوج یا حکومت سے نہیں۔ یہ وہی عوام ہیں جنہیں ہمارے بپھرے چہرے دکھا کر مسلمانوں سے ڈرایا جاتا ہے۔
2 :فیصلہ کن اخلاقی برتری کا حصول، جو بار بار آپ کے کام آئے گی۔ ایک دن کا تحمل آپ کو ہر روز تنقید کا لائسنس دے سکتا ہے۔
3 :اپنے ان بھائیوں کی مدد جو ان ممالک میں بستے ہیں۔ آنے والے دن ان کے لیے بہت سخت ہوں گے۔
4 :ان ہیومن رائٹس گروپس اور افراد (جارج گیلوے وغیرہ) کے ہاتھ مضبوط ہوں گے جو مسلمانوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔ وہ وہاں کے عوام کو بتا سکیں گے کہ آپ کی حکومتوں نے مظالم کی انتہا کر دی لیکن آپ ان کے ردعمل سے جانچ لیں کہ وہ لوگ آپ سے زیادہ مہذب ہیں۔وحشی وہ ہیں یا آپ۔
یہ ایک ہی دن کی بات ہوتی ہے لیکن اس کا تاثر بہت دور تک جاتا ہے. اس کے بعد آپ چاہے ہر روز انہیں ان کی زیادتیاں یاد دلائیں، اس کا کوئی برا نہیں مانے گا بلکہ شرمندگی کا شکار ہو گا۔اگر سینہ ٹھنڈا کرنا مقصود ہے تو طویل المیعاد بنیادوں پر ہونا چاہیے، یہ کیا کہ ایک دن بھڑاس نکال لی اور پھر وہیں کے وہیں۔‘‘

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں